منتخب کردہ کالم

مغالطے اور مبالغے…..محمد بلال غوری

دروغ گوئی کی بدترین شکل یہ ہے کہ انسان خود اپنے آپ سے جھوٹ بولنے لگے۔ (م ب غ)
ہماری داستانِ الم جھوٹی نہیں۔ مگر المیہ یہ ہے کہ فقط زیب داستان کے لئے اسے بڑھا چڑھا کر بیان کرنے والے جب مبالغہ آرائی کرتے ہیں تو پوری بات ہی مشکوک ہو جاتی ہے۔ اقوام متحدہ کے حالیہ اجلاس میں بھی یہی کچھ ہوا۔ پاکستان کی مستقل مندوب ملیحہ لودھی نے کشمیر میں بھارتی مظالم کو بے نقاب کرنے کے لئے بہت متاثر کن تقریر کی اور پیلٹ گن سے متاثرہ ایک لڑکی کی تصویر لہراتے ہوئے کہا کہ یہ ہے بھارت کا اصل چہرہ۔کچھ ہی دیر میں تحقیق و جستجو کرنے والوں نے اس تصویر کا ماخذ ڈھونڈ نکالا اور بتایا کہ یہ تصویر ہیڈی لیون نامی فوٹو گرافر نے 2014ء میں بنائی اور اس میں نظر آنے والی بچی کشمیری نہیں بلکہ فلسطینی ہے۔ یہ تصویر ایک معروف برطانوی اخبار کی ویب سائٹ پر گیلری میں بھی دیکھی جا سکتی ہے‘ جس کا کیپشن کچھ یوں ہے ”غزہ شہر کے ہسپتال میں 17 سالہ راویا اسرائیلی فضائی حملوں میں زخمی ہوئیں، ان حملوں میں راویا کے دو کزن اور ایک بہن شہید ہوئی‘‘۔ یوں یہ غلطی رسوائی اور جگ ہنسائی کا سبب بن گئی۔ اب سازشی تھیوریوں پر ایمان لانے والے حضرات اس واقعہ سے سازش کی بو سونگھنے میں لگے ہوئے ہیں‘ حالانکہ یہ تصویر ہمارے عمومی رویوں اور مزاج کی عکاس ہے۔ مغربی دنیا میں کوئی بھی تصویر حوالہ دیئے بغیر استعمال نہیں کی جا سکتی۔ آپ کوکہیں، کسی بھی مقصد کے لئے کوئی تصویر درکار ہے تو ایسا نہیں ہو سکتا کہ گوگل امیج سے تصویر اٹھائی اور لگا دی۔ اگر کتاب کے سرورق پر بھی تصویر دینا مقصود ہے تو بطور حوالہ لکھا جائے گا کہ کس فوٹو گرافر نے بنائی‘ یا کس اخبار میں شائع ہوئی۔ لیکن ہم اس جھمیلے میں نہیں پڑتے۔ تصویر ہو یا تحریر، ہمارے ہاں دیانتداری کی سب سے بڑی شکل یہ ہے کہ کاپی پیسٹ کرنے کے بعد اس کا کریڈٹ تبدیل نہ کیا جائے۔ پورے کے پورے کالم چُرا لئے جاتے ہیں۔ خبریں نقل کرنے کے بعد ان کی کریڈٹ لائن تبدیل کرنے میں بھی کوئی عار محسوس نہیں کی جاتی۔ ایک اور رجحان یہ ہے کہ مبالغہ آرائی محض شاعری اور ادب تک محدود نہیں، ہر شخص رنگ بھرنے کی غرض سے بات کو بڑھا چڑھا کر بیان کرتا ہے۔ یوں نقشہ آرائی کی جاتی ہے اور منظر کھینچا جاتا ہے کہ پڑھنے، سننے اور دیکھنے والے اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ پائیں۔ نوحہ گری میں تو کوئی ہمارا ثانی ہی نہیں ہے۔ ظلم و جبر کی داستان سنانے پہ آئیں توگویا پانی میں آگ لگا دیں۔ انسان اور حیوان ہی کیا طیور، اشجار، حجر سب کو رُلا دیں۔ قبروں میں لیٹے مُردے جگا دیں۔ مثال کے طور پر شام میں مسلمانوں پہ کوہ ستم ٹوٹا تو ہم نے زیب داستاں کے لئے دنیا بھر کے مظلوموں کی تصاویر جمع کیں اور انہیں حلب کے مسلمانوں پر ڈھائے جا رہے مظالم کے ثبوت کے طور پر پیش کرنا شروع کر دیا۔ برما میں روہنگیا مسلمانوں کے ساتھ ہو رہی ناانصافی کی جڑیں کئی عشروں پر محیط ہیں۔ علاقائی اور نسلی تعصب کے باعث ان پر زندگی کی راہیں مسدود کی جا رہی ہیں، گھر جلائے جا رہے ہیں‘ عصمت دری کے واقعات پیش آنا بھی بعید از قیاس نہیں، قتل و غارت گری بھی جاری ہے لیکن کیا ہے کہ ہمارے پاس ان واقعات کی تصاویر میسر نہیں تھیں۔ اس داستانِ خونچکاں میں مظلومیت کے رنگ بھرنے کے لئے فوٹو شاپ کا سہارا لیا گیا۔ سوشل میڈیائی مرثیہ خوانوں نے ایسی تصاویر اور ویڈیوز شیئر کرنا شروع کیں‘ جن سے یوں محسوس ہوتا تھا کہ رخائن میں جگہ جگہ مذبحہ کھل گئے ہیں‘ اور بدھ مت کے پیروکار مسلمان کو یوں کاٹ رہے ہیں‘ جیسے قصائی بکرے کا گوشت بناتا ہے۔ عالمی میڈیا نے کئی تصویروں کی نشاندہی کی کہ یہ جعلی ہیں اور بعض کے متعلق وضاحت آئی کہ ان کا تعلق برما سے نہیں۔ لیکن دردِ دل رکھنے والے ہر مسلمان نے ثواب دارین کی نیت سے یہ تصویریں اور ویڈیوز شیئر کرنا شروع کر دیں۔ پاکستانی مندوب کے ساتھ کام کرنے والا سول سرونٹ بھی تو آخر پاکستانی تھا۔ پیلٹ گن سے متاثرہ افراد کی تصاویر ڈھونڈنے کی ضرورت پیش آئی تو اس نے گوگل امیج میں جا کر وہ تصویر منتخب کی ہو گی‘ جو دیکھنے والوںکی آنکھیں نم کر دے۔ اگر حوالہ دینے کی اڑچن ہوتی تو کچھ تحقیق کرنے پر معلوم ہو جاتا کہ یہ تصویر کشمیر کی نہیں فلسطین کی ہے‘ لیکن اس جھمیلے میں پڑنے کے بجائے یہ تصویر ملیحہ لودھی صاحبہ کو تھما دی گئی اور انہوں نے اقوام متحدہ میں پیش کر دی۔
اپنے آپ سے جھوٹ بولنے کا چلن محض اس تصویر تک محدود نہیں بلکہ یہ روایت بہت پرانی ہے۔ ہمارے ہاں وہ جھوٹ جو اپنے آپ سے بولے گئے ان کی فہرست بہت طویل ہے۔ مثال کے طور پر ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر حملہ امریکہ نے خود کرایا‘ جس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ اس دن تین ہزار یہودی چھٹی پر تھے۔ پاکستان میں ہونے والے خود کش حملے کرنے والے مسلمان نہیں۔ ملالہ پر حملہ نہیں ہوا۔ دو مئی کو امریکہ نے ایبٹ آباد کے جس کمپائونڈ میں اسامہ بن لادن کو قتل کرنے کا دعویٰ کیا اسامہ بن لادن وہاں موجود ہی نہیں تھا۔ نواز شریف نے لندن میں دل کے آپریشن کا ناٹک کیا۔ کلثوم نواز کی بیماری شعبدہ بازی ہے‘ وغیرہ وغیرہ۔ نیل آرمسٹرانگ چاند پر قدم رکھنے والا پہلا شخص تھا۔ ایک دلچسپ واقعہ اس سے منسوب کیا جاتا ہے کہ وہ پہلی مرتبہ مصر گیا اور وہاں جس ہوٹل میں ٹھہرا ہوا تھا‘ وہاں اچانک اٹھ کر بے چینی کے عالم میں ٹہلنے لگا۔ میزبانوں کے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ میں ایک ایسی آواز سن رہا ہوں جو میں نے چاند پر سنی تھی‘ مجھے سمجھ نہیں آ رہا کہ میں زمین پر ہوں یا چاند پر۔ میزبانوں نے بتایا کہ جس آواز کی آپ بات کر رہے ہیں‘ یہ تو اذان کی آواز ہے۔ میں نے بہت کوشش کی کہ اس دلچسپ واقعہ کا کوئی معتبر حوالہ ڈھونڈ پائوں لیکن ابھی تک اس مقصد میں کامیابی نہیں ہو سکی۔ اسی طرح کئی من گھڑت قول اہم شخصیات سے منسوب کرکے شیئر کئے جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر ہٹلر سے منسوب کیا جانے والا یہ قول کہ جس قوم کو تباہ کرنا ہو اس معاشرے میں فوج کے خلاف نفرت پھیلا دو۔ علامہ اقبال سے کئی من گھڑت اشعار منسوب کئے جاتے ہیں۔ دہشتگردی کے خلاف جنگ کے دوران جانے یہ اشعار کب‘ کس کے ذہن میں سمائے اور اچانک عود کر سامنے آئے۔ یقینا ایسے اشعار ہوتے تو بر موقع اور بر محل ہیں‘ مگر ان کی قدر و قیمت بڑھانے کے لئے انہیں علامہ اقبال کے کھاتے میں ڈال دیا جاتا ہے۔ زیب داستان کا یہ معاملہ محض اشعار تک محدود نہیں، بعض ناہنجار اقوالِ زریں ڈھونڈ ڈھونڈ کر کسی انتہائی قابل احترام شخصیت سے منسوب کرتے جاتے ہیں۔ چند برس ہوتے ہیں ”سائیکالوجیکل سائنس‘‘ نامی جریدے میں شائع ہونے والی ایک تحقیقی رپورٹ پڑھی تھی‘ جس میں یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کے ماہرین نفسیات نے تجربات کی روشنی میں بتایا تھا کہ سچ اور جھوٹ میں فرق کرنے کی صلاحیت انسان کے لاشعور میں پنہاں ہوتی ہے۔ کسی چیز کے بارے میں آپ کے ذہن میں جو پہلا تاثر ابھرتا ہے‘ وہ درست ہوتا ہے مگر جو رائے آپ سوچ سمجھ کر قائم کرتے ہیں وہ ٹھیک نہیں ہوتی۔ ہاں البتہ یہ بات وہاں موثر نہیں رہتی جہاں خود فریبی کی اشتہا میں اپنے آپ سے جھوٹ بولنے کا چلن ہو۔ ”پتھالوجیکل لائرز‘‘ کو اس تحقیق اور اس کے نتائج سے استثنا حاصل ہے کیونکہ وہ محض شعور کو ہی نہیں ورغلاتے بلکہ لاشعور کو بھی چکمہ دینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ گاہے خیال آتا ہے کہ ہم نے دو حوالوں سے بہت ترقی کی ہے، مغالطوں اور مبالغوں میں۔ خواہ ان کا تعلق مذہب سے ہو، فکر سے یا پھر تاریخ سے، ہمارے ہاں مبالغوں اور مغالطوں کی بھرمار ہے۔