منتخب کردہ کالم

مفاہمت اور مردم شماری۔۔۔۔! (سچ یہ ہے) الیاس شاکر

آصف زرداری جب سے وطن واپس آئے ہیں، پے درپے سیاسی دھماکے کر رہے ہیں۔ کئی اہم شخصیات کو پیپلز پارٹی کا حصہ بنایا اور کچھ پائپ لائن میں ہیں۔ اُن کے بارے میں شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ”آصف زرداری سیاسی توڑ جوڑ کے ماہر ہیں‘‘۔ آصف زرداری کو مفاہمت کا بادشاہ کہا جاتا ہے۔ سیاسی معاملات میں تو آصف زرداری نے سب کو پیچھے چھوڑ دیا لیکن اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مفاہمت میں ان کی پالیسی مکمل طور پر ناکام نظر آئی۔ آصف زرداری اینٹیں بجانے کا کہہ کر جب ملک سے گئے تو طویل عرصے تک ان کی واپسی پر بھی شرطیں اور سٹہ لگتا رہا۔ انہوں نے کئی بار کوشش کی کہ اسٹیبلشمنٹ سے ”دوستی‘‘ہو جائے، اس کے لئے رحمن ملک نے بہت محنت کی لیکن جب تک”چھڑی‘‘ جنرل (ر) راحیل شریف کے پاس تھی وہ واپس نہ آ سکے۔ لیکن فوجی قیادت کی تبدیلی نے انہیں واپسی کا موقع فراہم کر دیا۔
پیپلز پا رٹی نے فوجی عدالتوں پر بھی سیاست کی۔ آصف زرداری نے بھرپورکوشش کی کہ اس معاملے میں زیادہ فائدہ اٹھایا جائے لیکن لاہور اور سیہون دھماکوں کے بعد فوجی عدالتوں کی توسیع ناگزیر ہوگئی۔ اس سے قبل فوجی عدالتوں کی مخالف سیاسی جماعتیں بھی اپنی اپنی تاویلیں پیش کر رہی تھیں۔ اسی دوران آصف زرداری نے آل پارٹیز کانفرنس طلب کرلی۔ ابھی اس کے دعوت نامے تقسیم بھی نہیں ہو پائے تھے کہ پارلیمانی جماعتوں نے فوجی عدالتوں کے قیام پر اتفاق کرلیا۔ اس اجلاس میں پیپلز پارٹی شریک نہیں تھی۔ وہ اپنی ”تیاریوں‘‘ میں ہی مصروف رہی اور فوجی عدالتوں کا معاملہ ”حل‘‘ کی طرف آگیا۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ آصف زرداری نے ایک بار پھر اسٹیبلشمنٹ کو بلیک میل کرنے کی کوشش کی۔ وہ چاہتے تھے کہ اے پی سی سے قبل انہیں کوئی فون آ جائے۔ ان کی اہمیت کو تسلیم کیا جائے۔ وہ اپنی باتیں منوائیں۔ ڈالر گرل کی طرح ڈاکٹر عاصم کو بھی باہر لایا جائے۔کرپشن کے خلاف ہونے والی کارروائیوں کا رخ سندھ سے پنجاب کی طرف موڑا جائے۔ کرپٹ افراد کے گرد تنگ گھیرا ڈھیلا کیا جائے۔ ای سی ایل میں سے کچھ نام نکالے جائیں۔ لیکن یہ تمام خواہشیں پنپنے سے پہلے ہی دم توڑ گئیں ، یہاں تک کہ پہلے تحریک انصاف اور پھر ایم کیو ایم نے بھی آل پارٹیز کانفرنس میں شرکت سے انکار کردیا، جس کے بعد پیپلز پارٹی کی اے پی سی کی حیثیت رسمی ہی رہ گئی۔ ایم کیو ایم پاکستان کے ساتھ پیپلز پارٹی نے جو کچھ ماضی میں کیا وہ ایم کیو ایم آسانی سے نہیں بھلا سکتی۔
آصف زرداری نے سندھ کے ساتھ اب بلوچستان میں بھی ”انٹری‘‘ ڈال دی ہے۔ وہاں سے یہ خبر بھی آئی ہے کہ جب آصف زرداری حب پہنچے تو اس وقت تک گاڑی سے نہیں اترے جب تک قالین نہ بچھا یا گیا۔ اگر زرداری صاحب ایسے دو تین دورے کراچی کی سڑکوں کے کرلیں تو اس شہر کی قسمت بھی بدل جائے گی۔ اس وقت کراچی کی سڑکوں کے ساتھ وہ سلوک ہو رہا ہے جو عمران خان نے دھرنے کے دوران حکمرانوں کے ساتھ کیا تھا۔ کراچی کی تمام سڑکیں بے بسی کی تصویر بنی ہوئی ہیں۔ کراچی میں ہرطرف مٹی اور دھول کا راج ہے۔ ماضی میں جب نعمت اللہ خان میئر تھے تو کراچی کی اٹھارہ سڑکیں بیک وقت کھودی گئیں جس پر احتجاج کیا گیا۔ ایم کیو ایم میدان میں آئی۔ میئر کی پالیسیوں پرکڑی تنقید کی گئی لیکن اس وقت نہ جانے کیوں پراسرار خاموشی ہے۔
ایک بیان داغ کر سمجھا جا رہا ہے کہ ذمہ داری پوری ہوگئی۔ ایم کیو ایم پاکستان کے سربراہ فاروق ستارکے پاس موقع ہے کہ ایشوز کی سیاست کریں ۔ پیپلز پارٹی کی اے پی سی میں شرکت نہ کرکے فاروق ستار نے آئندہ کا لائحہ عمل بھی بتادیا ہے۔ لیکن کراچی کی سڑکوں پر ترقیاتی کاموں کے نام پر جو کچھ ہو رہا ہے اس پر بھی فاروق ستار کو پالیسی وضع کرنی چاہیے۔
جوں جوں مردم شماری کے دن قریب ا ٓرہے ہیں پیپلز پارٹی کی پریشانی بڑھتی جا رہی ہے۔ پاک افواج مردم شماری کے معاملے میں انتہائی سنجیدہ ہیں۔ اس حوالے سے کئی اجلاس بھی ہوچکے ہیں۔ سب کو واضح پیغام دے دیا گیا ہے کہ فوج نے مردم شماری کی تیاری مکمل کرلی ہے۔ مردم شماری کے بعد سندھ کے شہری علاقوں کی صورتحال یکسر تبدیل ہو جائے گی۔ کئی نشستیں بڑھ جائیں گی۔ آبادی کے خدوخال نمایاں طور پر سامنے آجائیں گے۔ حلقہ بندیاں بھی تبدیل ہوں گی جس کی وجہ سے پیپلز پارٹی کے ووٹ بینک پر بڑ ا اثر پڑے گا۔ جو گوٹھ، شہری آبادیوں میں زبردستی ڈالے گئے ہیں وہ بھی واپس اپنی پرانی حیثیت پرآ جائیں گے۔ گوٹھ آباد اسکیموں کے نام پر کی گئی جعلسازیاں بھی مزید جاری نہیں رہ پائیں گی۔
ایک طرف مردم شماری کا شور وغوغا ہے تو دوسری جانب فوجی عدالتیں بن رہی ہیں۔ سندھ میں مردم شماری کی باتیں اس
جوش وخروش کے ساتھ ہو رہی ہیں کہ لگتا ہے ”پانی پت کی تیسری جنگ‘‘ شروع ہونے والی ہے۔ پاکستان کا عام شہری سب سے زیادہ فوجی عدالتوں کے حق میں ہے کیونکہ پاکستان کا عدالتی نظام اتنا سست روی کا شکار ہے کہ دادا کے مقدمے کا فیصلہ پوتا سنتا ہے۔ حالیہ دنوں میں کرپشن کے خلاف جو مہم چلی ہے اس کا سب سے زیادہ نقصان سیاسی جماعتوں کو ہوا ہے۔ لوگوں کے دلوں میں سیاسی جماعتوں کی وہ تعظیم نہیں رہی جو ہونی چاہیے تھی۔ بہت سے پارٹی رہنمائوں کے پاس تو اپنے منشور کی کاپی تک نہیں لیکن وہ ترقیاتی فنڈز میں اضافے اور ٹھیکوں کی رقوم سمیٹنے میں مصروف نظر آتے ہیں۔ پاکستانی جمہوریت اس وقت عقیدت و احترام کھو بیٹھی ہے۔ جمہوریت مذاق بنتی جارہی ہے۔ عوام کی اکثریت جانتی ہے کہ ہر نئے انتخابات سے قبل برساتی مینڈ ک پارٹیاں بدلنے نکل پڑتے ہیں اور پرانی شراب نئی بوتل میں ڈال کر کرپشن کی جاتی ہے۔ عوام ان دنوں جس طرح خاموش ہیں اور سب کچھ ہوتے ہوئے دیکھ رہے ہیں اس نے ایک بات تو واضح کردی ہے کہ لیڈروں کو اگر عوام سے ہمدردی نہیں تو عوام کو بھی لیڈروں سے کوئی ہمدردی نہیں ہے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اگر عدالتوں نے ظالم کو کھل کر ظالم نہ کہا تو طالع آزمائوں کا راستہ ”کلیئر‘‘ ہو جائے گا اور جمہوریت ”مصلوب‘‘ ہوتی نظر آئے گی۔