مقام ِتسلیم و رضا…مفتی منیب الرحمٰن
تسلیم ور ضا کے معنی ہیں :اپنے آپ کو اللہ کے سپر د کردینا ‘ اپنی نفسانی خواہشات و ترجیحات کو اللہ کی رضا کے تابع کر دینا ‘ اپنی انا کو اس کی رضا میں فنا کر دینا ‘ اسی کو فنا فی اللہ بھی کہتے ہیں ۔ انگریزی میں اسے Total Submissionسے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسی معنویت کو ان آیاتِ مبارکہ میں بیان فرمایا ہے :
(1) ” اور لوگوں میں سے ایک شخص ایسا ہے ‘جو اللہ کی رضا کے حصول کے لیے اپنی جان کا سودا کر لیتا ہے‘ ‘(بقرہ : 207)۔ (2) ”بے شک اللہ نے اہلِ ایمان سے اُن کی جانوں اور مالوں کو جنت کے عوض خرید لیا ہے ‘ وہ اللہ کی راہ میں جنگ کرتے ہیں ‘ پس مارتے بھی ہیں اور مارے بھی جاتے ہیں ‘ اللہ کااس پر تورات ‘ انجیل اور قرآن میں سچا وعدہ ہے اور اللہ سے بڑھ کر اپنے وعدے کو پورا کرنے والا کون ہے ‘ سو تم اپنے اس سودے پر‘جو تم نے اللہ سے کیا ہے‘خوشی مناؤ اور یہی بہت بڑی کامیابی ہے‘ ‘ (توبہ : 111)۔
اللہ تعالیٰ کے محبوب ومقرّب بندوں کو آزمائش کے مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔نبی کریم ﷺ سے پوچھا گیا: یارسول اللہ! سب سے زیادہ سخت آزمائش کس کی ہوتی ہے ؟آپ ﷺ نے فرمایا: سب سے زیادہ آزمائش انبیاء کی ہوتی ہے ‘پھر اُن کی جو مرتبے میں اُن سے قریب تر ہیں اور پھر حسب مراتب‘‘(سنن ترمذی:2398) یعنی جن کے رتبے ہیں سوا‘ اُن کو سوا مشکل ہے ۔اسی سنتِ الٰہیہ کے تحت حضرت ابراہیم ؑ کو بھی آزمائش کے کڑے مرحلے سے گزرنا پڑا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ”اور جب ابراہیم کو ان کے رب نے چند باتوں میں آزمایا ‘ تو وہ اس آزمائش میں پورا اترے ‘ اللہ نے فرمایا : میں تمہیں انسانیت کا امام بنانے والا ہوں‘‘ (بقرہ: 124)پھر اللہ تعالیٰ نے حضراتِ ابراہیم واسماعیل علیہم السلام کی آزمائش کے مختلف مراحل میں سے ایک کا ذکر کیا اور فرمایا: ”سو جب (باپ بیٹا) دونوں نے (اللہ کے حکم پر)سرتسلیم خم کردیااورابراہیم نے اپنے بیٹے کوپیشانی کے بل لٹادیااور ہم نے اُسے پکارا: اے ابراہیم! بے شک آپ نے اپنا خواب سچا کردکھایا اور بے شک ہم نکوکاروں کو ایسا ہی صلہ دیتے ہیں‘ بے شک یہ ضرور کھلی آزمائش تھی ‘‘ (الصّٰفّٰت:103-106)۔
اللہ تعالیٰ نے ابراہیم ؑ کو امتحان میں پورا اترنے پر اس اعزاز سے نوازا : ”بے شک ابراہیم اپنی ذات میں ایک امت تھے ‘اللہ تعالیٰ کے اطاعت گزار ‘باطل سے ہٹ کرحق پر قائم رہنے والے تھے اور مشرکوں میں سے نہ تھے ‘ اس کی نعمتوں کے شکر گزار تھے ‘ (اللہ نے) انہیں چن لیا اور ان کو سیدھے راستے کی ہدایت فرمائی اور ہم نے ان کو دنیا میں اچھائی عطا فرمائی اور بے شک وہ آخرت میں بھی نکو کاروں میں سے ہوں گے ‘‘ (النحل : 120-122)۔
تسلیم ورضا کا یہ شِعار حضرت ابراہیم ؑ سے شروع ہوا اور حضرتِ اسماعیل ؑ کے توسط سے رحمۃللعالمین سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ تک پہنچا۔ غزوۂ حنین میں قبیلۂ ہوازن کی شدید تیر اندازی کے سبب جب وقتی طور پرمجاہدین کے قدم اکھڑ گئے ‘تو رسول اکرم ﷺ تنہا میدان میں پوری استقامت کے ساتھ کھڑے رہے اور فرمایا : ”میں نبی ہوں یہ کوئی جھوٹ نہیں ہے ‘ میں عبدالمطلب کا فرزند ہوں ‘‘۔ رسول کریم ﷺ سے اللہ کی راہ میں عزیمت و استقامت اور جاں نثاری کی یہ وراثت آپ ﷺکے اہلِ بیتِ اطہار کو منتقل ہوئی اور میدانِ کربلا میں امامِ عالی مقام حسین رضی اللہ عنہ اور ان کے اہلِ بیتِ اطہار و اعوان و انصار رضی اللہ عنہم کے ذریعے یہ روایت اپنی معراج کو پہنچی ‘ علامہ اقبالؔ نے کہا تھا :
غریب و سادہ و رنگین ہے داستانِ حرم
نہایت اس کی حسین‘ ابتدا ہے اسماعیل
اللہ تعالیٰ کے محبوب و مقرّب بندے سراپا تسلیم و رضا ہوتے ہیں ‘ وہ اللہ کی قضا و قدر پر شاکی نہیں ہوتے ‘بلکہ راضی رہتے ہیں۔ امیر المومنین حضرت علی رضی اللہ عنہ جب بھی عبدالرحمن بن ملجم کودیکھتے تو اس کی نشاندہی اپنے قاتل کے طور پر کرتے ‘ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے عرض کیاگیا : ”آپ اس کو قتل کیوں نہیں کرتے ‘‘ اس پر حضرت علی نے کہا: ”میں اپنے قاتل کو کیسے قتل کردوں‘‘(الفخری فی آداب السلطانیہ ‘ج:1ص:105) ۔اس سے معلوم ہوا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اپنی شہادت کا علم تھا؛چنانچہ ایک موقع پر رسول اکرم ﷺ نے حضرت علیؓ کے جسم پر مٹی لگی ہوئی دیکھی‘ تو فرمایا:” اے ابوتراب!میں تمہیں دو بدبخت ترین آدمیوں کے بارے میں نہ بتادوں‘حضرت علیؓ نے عرض کیا:یارسول اللہ! ضرور بتائیے‘ آپﷺ نے فرمایا: (ایک )قومِ ثمود کاأُحَیْمِرُہے ‘جس نے (حضرت صالح علیہ السلام کی)ناقہ کی کونچیں کاٹ ڈالیں اور اے علی! (دوسرا) وہ شخص ہوگا ‘جو تمہارے سر پر ضرب لگائے گااور خون سے تمہارے جبڑے تک تر ہوجائے گا‘‘(مسند احمد:18321)۔
یہ تمام حقائق اس بات پر شاہد ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اپنی شہادت کاعلم تھا اور شاید قاتل کا بھی علم تھا‘ اسی لیے انہوں نے اپنے قاتل کا خاتمہ نہیں کیا‘ بلکہ برضا ورغبت شہادت کے لیے تیار رہے ۔ یہی صورتِ حال امامِ عالی مقام حسین رضی اللہ عنہ کی بھی تھی کہ شہادت کی منزل انہیں آفتاب نصف النہار کی طرح اپنی نگاہوں کے سامنے نظر آرہی تھی‘لیکن آپ کے پائے ثبات میں کو ئی لغزش نہ آئی اور اس منزل کو پانے کے لیے آپ تیار رہے ۔ شب عاشورکو انتہائی فصیح وبلیغ کلمات میں اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا بیان کرنے کے بعد آپ نے فرمایا: ”جو آج کی شب اپنے خاندان والوں کے پاس جانا چاہتا ہے‘ تو میں اسے اجازت دیتا ہوں ‘تم پر رات کی ظلمت چھاچکی ہے ‘ تم میں سے ہر ایک میرے گھر کے ایک فرد کا ہاتھ پکڑ لے اوررات کی تاریکی میں اپنے خاندانوں کی طرف نکل جائے ‘اللہ کی زمین بڑی وسیع ہے ‘قوم کو صرف میرا خون چاہیے ‘جب وہ مجھے شہید کردیں گے ‘ تو ان کی پیاس بجھ جائے گی ‘ کسی اور سے انہیں کیا غرض ‘‘۔آپ کے اہلبیت کے مردوں نے کہا: ”آپ کے بعد جینے میں کوئی مزا نہیں ہے ‘لوگ کہیں گے :تم نے اپنے بزرگوار ‘ اپنے سردار ‘اپنے چچازاد اور بہترین چچا کو تنہا چھوڑ دیا‘تم نے ان کی مدافعت میں ایک تیر اور ایک نیزہ بھی نہ چلایا ‘دنیاوی زندگی کی خاطر تم نے تلوار تک نہ چلائی ۔واللہ! ہم آپ پر اپنی جانوں ‘اپنے مالوں اور اپنے اہل وعیال کو قربان کردیں گے اور آخری سانس تک آپ کی مدافعت میں لڑیں گے ‘آپ کے بعدجینے کا کیا مزا ‘‘۔
الغرض وہ سب کوہِ استقامت تھے ‘ موت کو اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھنے کے باوجود آپ کا ساتھ نہ چھوڑا‘ مقامِ تسلیم ورضا اسی کا نام ہے کہ انسان جب دنیاوی نفع ونقصان سے ماوراہوکر حیاتِ ابدی اور رضائے الٰہی کو اپنی منزل بنالیتاہے ‘تو اُس کے لیے جان کی قربانی بھی آسان ہوتی ہے ‘علامہ اقبالؔ نے کیاخوب کہاہے :
برتر از اندیشۂ سود و زیاں ہے زندگی
ہے کبھی جاں اور کبھی تسلیمِ جاں ہے زندگی
تو اسے پیمانۂ امروز و فرداسے نہ ناپ
جاوداں‘ پیہم رواں‘ ہر دم جواں ہے زندگی
صبحِ عاشور آپ نے اتمامِ حجت کرتے ہوئے حمد وصلوٰۃ کے بعد فرمایا:کیا مجھ جیسی شخصیت کو قتل کرنا تمہیں گوارا ہے ‘ میں تمہارے نبی کا شہزادہ ہوں اور آج میرے سوا اللہ کی زمین پر کسی نبی کا فرزند موجود نہیں ہے ‘علی میرے باپ ہیں ‘جعفرطیار میرے چچا ہیں ‘سید الشہداء حمزہ میرے والد کے چچا ہیں ‘میرے اور میرے بھائی کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا: ”یہ دونوں نوجوانانِ جنت کے سردار ہیں ‘میرا مقام جاننا ہو تو اصحابِ رسول سے پوچھو ‘‘۔لیکن ان کے دلوں پر مہر لگ چکی تھی اور سعادت ان کے مقدر میں نہ تھی ۔
شعارِ تسلیم ورضا کوحضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے میدانِ کربلا میں اُس معراج تک پہنچایا کہ جس کی نظیر تاریخ انسانیت میں نہیں ملتی ۔ اللہ کی راہ میں ایثار وقربانی کا کوئی ایسا عنوان باقی نہ رہا‘ جسے آپ نے اپنی نسبت سے مُشرَّف نہ کیاہو ۔ اس سے پہلے جب آپ مدینۂ منورہ سے عزمِ سفر کرنے لگے ‘تو جلیل القدر صحابہ حضرت عبداللہ بن عباس ‘حضرت عبداللہ بن زبیر ‘حضرت ابوسعید خدری وغیرہم رضی اللہ عنہم اجمعین نے آپ کو اس سفر سے روکنے کی ہر ممکن کوشش کی اور اہلِ کوفہ کی جفا کابھی حوالہ دیا ‘لیکن آپ اپنے عزم پر قائم رہے ۔ اس کاسبب یہ تھا کہ اہلِ کوفہ نے بڑی تعداد میں خطوط بھیج کر آپ کوفہ آنے کی دعوت دی تھی اورامیرالمومنین و خلیفۃ المسلمین کی حیثیت سے آپ کی بیعت کا وعدہ کیاتھا ۔ آپ بجاطورپر یہ سمجھتے تھے کہ رسول ﷺ سے نسبتِ قرابت ‘ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا فرزند اور حضرت سیدہ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا کالختِ جگر ہونے اور اپنے علم اور ورَع وتقویٰ کے سبب آپ خلافت کے اہل ہیں ؛ چنانچہ آپ عمرہ اداکرنے کے بعد منازلِ سفر طے کرتے ہوئے کربلا پہنچے اور محرم الحرام 61ھ کے یومِ عاشور کو جب کوفے کی مساجد سے اذانِ جمعہ کی آوازیں بلند ہورہی تھیں ‘ شقی القلب لوگ تقریباً اُسی وقت نواسۂ رسول کی گردن پر خنجر چلارہے تھے ۔یہ منظر کسی بھی مسلمان کے لیے ناقابلِ تصور ہے‘ لیکن امت کی بدنصیبی کہ بظاہریہ ناممکن فعل واقع ہوا اور آج تک اس پر تمام اہلِ ایمان اور محبانِ رسول ﷺ ومحبانِ اہلِ بیتِ رسول رضوان اللہ علیہم اجمعین رنجیدہ ہیں ۔
لیکن ستم یہ ہے کہ محبت ِحسین کے دعوے دار تو بہت ہیں اور اپنے اپنے انداز میں ان کی یاد بھی مناتے ہیں ‘ان کا غم بھی تازہ کرتے ہیں اور مجالس بھی منعقدکرتے ہیں‘مگر اُن کی اقدار کو زندہ کرنے والے آج بھی کم یاب‘ بلکہ نایاب ہیں ‘ علامہ اقبالؔ نے سچ کہا تھا :
گرچہ تابدار ہے ‘اب بھی گیسوئے دجلہ و فرات
قافلۂ حجاز میں ‘ایک حسین بھی نہیں