منتخب کردہ کالم

مقبول اور معصوم ترین کی 50ویں برسی…حسن نثار

پاک پانی سے ناپاک پروٹوکول تک...حسن نثار

مقبول اور معصوم ترین کی 50ویں برسی…حسن نثار
مقبول اور معصوم ترین کی 50ویں برسیمیں نے تو نہ انہیں کبھی دیکھا نہ ان سے کبھی ملا لیکن انہیں دیکھے ملے بغیر بھی میں ان کے بارے میں بہت کچھ جانتا ہوں۔ ان کے بارے میں قصے کہانیاں سنانے والا شخص مجھے بہت عزیز تھا اور یہ تھے علی سفیان آفاقی مرحوم جو اکثر کہا کرتے تھے کہ رشید عطرے مرحوم پاکستان ہی نہیں برصغیر کے عظیم ترین موسیقاروں میں سے ایک تھے۔ خود آفاقی صاحب بہت بڑے جرنلسٹ، کہانی نویس اور فلم پروڈیوسر تھے۔ ’’آس‘‘ اور ’’کنیز‘‘ جیسے شاہکار ان کے کریڈٹ پر ہیں۔ آفاقی مرحوم پاکستانی فلم انڈسٹری کی چند ابتدائی دہائیوں کی چلتی پھرتی تاریخ تھے اور میں ہیروں کی اس کان کو ہمیشہ کریدتا رہتا اور یہ کان داستان در داستان مجھ پر کھلتی چلی جاتی۔آفاقی صاحب کی عادت تھی ہر لیجنڈ کی کہانی سنانے کے بعد سرد آہ بھر کر کہتے ’’کیسے کیسے خوبصورت لوگ تھے جو کہانیاں بن گئے‘‘…. پھر آفاقی صاحب خود کہانی بن گئے۔زمانہ بڑے شوق سے سن رہا تھاوہی سو گئے داستاں کہتے کہتےلیکن جب تک مجھ جیسے ناسٹیلجیا کے مریض تابعدار زندہ ہیں، آفاقی صاحب بھی زندہ ہیں اور رشید عطرے بھی جو 1919ء میں امرتسر میں پیدا ہوئے اور دنیائے موسیقی میں دھومیں مچا کر 1967ء میں اس دنیا سے اپنے سروں سمیت رخصت ہوگئے۔ آپ بابائے موسیقی آر سی بورال کے معاون رہے۔ پہلی فلم (1942) ’’مامتا‘‘ تھی۔ پہلی پاکستانی فلم ’’بیلی‘‘ تھی جو 1950 ءمیں ریلیز ہوئی۔ ماسٹر غلام حیدر جیسے دیومالائی کردار کا تعلق بھی انہی کے گھرانے سے تھا۔ عطرے صاحب کچھ عرصہ ریڈیو پاکستان پنڈی میں بھی ملازم رہے۔ ان کی سوانح حیات کے سفر پر نکلا تو کالم کی حدود سے نکل جائوں گا۔ صرف ان کے چند گیت یاد دلا کر ان کی من موہنی شخصیت کی طرف لوٹ جائوں گا۔فلم ’’موسیقار‘‘ کا گیت ’’گائے گی دنیا گیت مرے‘‘ جو آج بھی نور جہاں کے ماتھے کا جھومر، گلے کا ہار، ہاتھ کا کنگن اور پائوں کی پازیب ہے۔ ’’بھاگاں والیو نام جپو مولا نام….’’دوپٹہ بے ایمان ہوگیا‘‘…. ’’راتاں میریاں بنا کے ربا‘‘…. اے چاند ان سے جا کر میرا سلام کہنا‘‘…. ’’تیری الفت میں صنم‘‘ …. ’’اک چور اک لٹیرا دل لے گیا ہے میرا‘‘….’’جب ترے شہر سے گزرتا ہوں‘‘ …. ’’بار بار برسیں مورے نین‘‘ …. ’’آئے موسم رنگیلے سہانے جیا نہیں مانے‘‘ …. ’’یارو مجھے معاف کرو میں نشے میں ہوں‘‘ …. ’’قرار لوٹنے والے تو پیار کو ترسے‘‘ …. ’’دلا ٹھہر جا یار دا نظارہ لین دے‘‘ …..’’صدا ہوں اپنے پیار کی جہاں سے بے نیاز ہوں‘‘ …. ’’اے مرد مجاہد جاگ ذرا‘‘ جیسا ملی نغمہ …. ’’سو بار چمن مہکا‘‘ …. ’’اس بے وفا کا شہر ہے‘‘ …. ’’ایک دیوانے نے اس دل کا کہا مان لیا‘‘ …. ’’تم جگ جگ جیو مہاراج‘‘ …. ’’اللہ اللہ ہم کہاں اور آپ کی محفل کہاں‘‘ …. ’’چھلا میرا کنے گھڑیا‘‘ …. ’’لٹ الجھی سلجھا جا رے بالم‘‘ …. ’’مرے دل کے تار بجیں بار بار‘‘ …. ’’حسن کو چاند جوانی کو کنول کہتے ہیں‘‘ …. ’’سنجے دل والے بوہے‘‘ …. ’’دل دیاں لگیاں جانے ناں ‘‘۔ رشید عطرے نامی اس بلبل ہزار داستاں کیلئے ہزاروں کالم بھی کم کہ آ ج کل تو نہ کوئی شاعر نہ گلوکار نہ موسیقار۔ کسی چنگڑ کا ایک گیت ایک سماعت کا بوجھ نہیں اٹھا سکتا، سو صاحب فن کو چھوڑ کر ’’صاحب‘‘ یعنی رشید عطرے صاحب کی شخصیت دیکھتے ہیں۔ علی سفیان آفاقی مرحوم سنایا کرتے تھے کہ…عطرے صاحب بہت معصوم، نیک دل اور صاف گو انسان تھے۔ دنیاداری سے بہت دور اکثر سفید شارک سکن کے سوٹ میں پائے جاتے لیکن سگریٹ مٹھی میں دبا کر پینڈو سٹائیل میں پیتے تھے۔ چار لوگ ایک دوسرے کے متضاد دلیلیں دے رہے ہوتے تو ہر ایک کی دلیل کے حق میں سر ہلائے جاتے۔ پڑھے لکھے لوگوں کی صحبت ان کی کمزوری تھی۔ ان کی مے نوشی کا انداز بھی دنیا جہان سے نرالا اور معصومانہ تھا۔ پہلے پیگ کے بعد وہ چمکنے چہچہانے لگتے۔ دوسرے پیگ کے بعد ان پر فلسفیانہ موڈ طاری ہو جاتا اور تیسرے پیگ کے بعد وہ انگریزی میں رواں ہو کر اپنے رازوں سے پردے اٹھانے لگتے جن کی تان ان کی پارسائی پر ٹوٹتی۔ ایک ہی واقعہ کئی کئی بار سناتے سناتے گہری نیند سو جاتے۔ سنتوش صاحب کے گھر اکثر انہیں ریاض شاہد، خلیل قیصر، علائو الدین، حسن طارق وغیرہ کے ساتھ دیکھا جو ہر نئی فلم سائن ہوتے ہی عطرے صاحب کی طرف سے پارٹی کا اعلان کر دیتے جس پر تھوڑی سی مزاحمت کے بعد عطرے صاحب مان جاتے۔ اکثر لوگ انہیں پیار سے چاچا کہتے جو ایک دن ہنستے کھیلتے اسٹوڈیو سے گئے اور پھر کبھی لوٹ کر نہ آئے کہ اچانک موت نے آلیا۔’’ساڈے انگ انگ وچ پیار نے پینگاں پائیاں نے‘ کا خالق ایسی پینگ پہ بیٹھا جو اسے افق کے پار لے گئی۔ 18دسمبر 1967ء سروں کا یہ سورج ہمیشہ ہمیشہ کیلئے غروب ہوگیا اور آج نہ کوئی خواجہ خورشید انور ہے نہ بابا چشتی، نہ ماسٹر عنایت نہ فیروز نظامی نہ غلام محمد نہ رشید عطرے نہ کوئی گلوکار نہ موسیقار نہ نغمہ نگار۔ پچھلے کئی برسوں میں شاید کوئی ایک گیت ایسا نہیں جو صرف ایک بار سنا یا گنگنایا جاسکے۔ہم نے ہر شعبہ کے اندر قحط الرجال میں کمال حاصل کرلیا۔