منتخب کردہ کالم

مقروض کپتان (نمک کا آدمی) اقبال خورشید

بدبختی کے پیچھے غلط فیصلوں کا انبوہ ہوتا ہے۔ بدقسمتی حماقتوں کی عطا ہوتی ہے۔
المیے کا اندازہ لگائیں، ایک قومی جماعت کا ترجمان شواہد نہیں،ایک طنزیہ، تخیلاتی مضمون کی بنیاد پر سابق سپہ سالار پر دھاندلی کا الزام دھرتا ہے۔اور یہی نہیں، امریکا اور خلیجی ملک کو بھی سہولت سے رگید دیتا ہے۔ گویا 2013 میںعالمی دنیا کو فقط یہ فکر لاحق تھی کہ کہیں تحریک انصاف اقتدار میں نہ آجائے۔نعیم الحق نے یہ عمل اسی اضافی اعتماد سے سرانجام دیا، جس اعتماد سے کپتان 35 پنکچروں اور امپائر کی انگلی کا ذکر کیا کرتے تھے۔ اور نتیجہ بھی وہی نکلا، جو کپتان کے معاملے میں نکلتا رہا ہے؛یعنی سبکی۔شرمندگی۔ معذرت۔
یہ معذرتوں کا بے انت سلسلہ بھی المیوں ہی کا عکاس ہے صاحب۔ عدلیہ پر تنقید کی، پھر مانگ لی۔ کسی کو ”ٹریکٹر ٹرالی‘‘ کہا، اور معافی مانگ لی۔مخالفین کے گھر کی خواتین پر بیہودہ الزام لگایا، اور معافی مانگ لی۔ پاکستان مخالف تقریر کی، اور معافی مانگ لی۔ گناہ اہل اقتدار کرتے ہیں، سزا عوام بھگتے ہیں۔ پی پی کے غلط فیصلوں کی سزا آج سندھ بھگت رہا ہے۔ بلوچستان کا وفاق سے زیادہ مقامی سرداروں نے استحصال کیا۔ خیبرپختون خوا کو آگ میں جھونکنے والے سارے باہر سے نہیں آئے تھے۔ پنجاب کے غموں کا سبب بھی بیرونی نہیں، اندرونی عوامل ہیں۔بے شک بدبختی کے پیچھے غلط فیصلوں کا انبوہ ہوتا ہے۔
عمران خان کے کاندھوں پر بھاری قرض ہے۔ ان لاکھوں ووٹرز کا جنھوں نے 2013 میں ان پر اعتماد کیا۔ ان کے طریقۂ کار سے ہمیں اختلاف، دھرنوں میں ہونے والی بے ربط تقریروں نے اکتاہٹ بڑھائی، طاہر القادری اور شیخ رشید کی قربت نے شبہات کو ہوا دی۔ البتہ یہ تسلیم کیا جاناچاہیے کہ خیبرپختون خوا اور پنجاب کی حد تک انھوں نے کبھی توتحریک چلا کر، کبھی جلسے کرکے اِس قرض کو چکانے کی کوشش کی۔ بھٹو فارمولے پر وہ عمل پیرا ہیں۔ وفاق میں حکومت بنانے کے لیے توجہ انھوں نے پنجاب پر مرکوز کررکھی ہے۔ وہاں وہ مقبول بھی ہیں، مگر جس شہر کا قرض چکانے میں وہ یکسر ناکام رہے، وہ ہے روشنیوں کی بستی؛کراچی۔
جی جناب، خان کو دیگرشہروںسے ووٹ پڑنا الگ بات ہے، کراچی سے ووٹ پڑنا الگ بات۔ یہاں توجبر کا ماحول تھا۔ دم مارنے کو جگہ نہیں تھی۔ دھاندلی تو دیگر شہروں میں بھی ہوئی، اور خوب ہوئی، مگر یہاں تو خوف کے بادل چھائے تھے۔ اندیشے تھے، خدشات تھے، اِس کے باوجود لوگ گھروں سے باہر نکلے۔ اپنے خوف کو پچھاڑ کر پولنگ اسٹیشن آئے۔ یہ نہیں دیکھا کہ صوبائی سطح پر امیدوار کون ہے ،قومی اسمبلی کی نشست پرکون لڑ رہا ہے۔۔۔ بس، بلے کو مہر لگا دی۔ یہ چند ہزار لو گ نہیں تھے، چند لاکھ بھی نہیںتھے،لگ بھگ دس لاکھ ووٹرز نے کپتان کے حق میں فیصلہ سنایا تھا اس روز۔ اور ان ووٹرز میں نوجوان بھی تھے، عورتیں بھی ،بزرگ بھی۔ یہ وہ لوگ تھے، جنھوں نے جمود توڑا، اپنے ڈر سے آگے بڑھے، اور فیصلہ سنا دیا۔ اور ان میں سارے عمران کے متوالے نہیں تھے۔ جی ہاں، اس روز انھیں پڑنے والے ووٹ کا ایک بڑا حصہ دراصل اینٹی ایم کیو ایم ووٹ تھا۔یہ وہ ”اردو گو ‘‘ووٹرز تھے،جو ایم کیو ایم سے نالاں تھے۔ اور جب انھیں ایک متبادل دکھائی دیا، تو وہ جوق در جوق آئے۔ اور اِن ہی باہمت ووٹرز کے عمران خان مقروض تھے۔
آپ کو یاد ہوگا،جب کراچی میں ہونے والی دھاندلی کے خلاف تحریک انصاف نے احتجاج کی کال دی، تو یہ فقط تین تلوار کا پوش اور محفوظ علاقہ نہیں تھا، جہاں نوجوان سڑکوں پر دھرنا دے کر بیٹھ گئے۔ جی نہیں۔ ناظم آباد، نارتھ ناظم آباد، گلشن اقبال، نارتھ کراچی جیسے ایم کیو ایم کے گڑھ سمجھے جانے والے علاقوں میںبھی نوجوانوں نے سڑکیں بلاک کر دیں۔ یہی وہ جرأت تھی، جس نے الطاف حسین کو، جو اُس وقت تک”بانی قائد‘‘ نہیں ہوئے تھے، قائد تحریک ہی تھے، آگ بگولا کر دیا ، اورانھوں نے وہ دھمکی آمیز تقریر کی ، جس پر لندن پولیس کے پاس شکایات کے ڈھیر لگ گئے تھے۔۔۔ توعمران خان حساس مقامات پر دھرنے پر بیٹھے کراچی کے ہزاروںنوجوانوں کے مقروض تھے۔۔۔وہ اُن تمام ووٹرز کے قرض دار تھے، جنھوں نے بنا کسی الیکشن مہم کے تحریک انصاف کی پذیرائی کی۔۔۔اور اس قرض کو چکانے کا یہی طریقہ تھا کہ وہ کراچی کو اہمیت دیتے، ادھر پارٹی کو منظم کرتے، مہذب اور مضبوط امیدوار منتخب کرتے،اپنا ووٹ بینک بڑھاتے، مگر خان صاحب نے عین اس کے الٹ کیا۔
دس لاکھ ووٹ اُن کی جھولی میں ڈالنے والے ووٹرز کو بھلا دیا گیا، انھیں درخوراعتنا نہ جانا گیا۔ اس شہر کوایسے رہنمائوں کو سونپ دیا گیا،جو عوام میں جانے کے بجائے ٹاک شو زمیں شرکت کو ترجیح دیتے ہیں۔ اور یوںاُنھوں نے اپنا ووٹ بینک گنوا دیا۔پھر تو خود کو” آدھا مہاجر ‘‘کہنے کا نسخہ بھی کام نہ آیا۔اگر اُنھوں نے ٹھوس فیصلے کیے ہوتے، کراچی پر توجہ مرکوز کی ہوتی، تو موجودہ حالات میں، جب ایم کیو ایم بکھر چکی ہے، ٹکڑوں میں بٹ چکی ہے، وہ آگے بڑھ کر اس شہر کی باگ دوڑ سنبھال سکتے تھے۔ مردم شماری کے بعد کراچی میں حلقوں میں اضافہ متوقع ہے۔ اگر کپتان نے کراچی والوں کا قرض اتارنے کی کوشش کی ہوتی، تو امکان تھا کہ آئندہ الیکشن میں وہ شہر کی نصف نشستیں اپنے نام کر لیتے۔ مگر افسوس، یہ ہو نہ سکا۔ بدبختی کے پیچھے غلط فیصلوں کا انبوہ ہوتا ہے۔۔۔
عمران خان نے 2013کے بعد تواتر سے غلط فیصلے کیے۔الزامات کی سیاست کو ترجیح دی۔ ثبوتوں پر تقریر کوفوقیت دی۔ پارٹی منظم کرنے کے بجائے دھرنوں پر توجہ مرکوز رکھی۔ اور اس شوخ مگر لاحاصل عمل میں کراچی کو بھلا دیا۔ جس کا نتیجہ واضح دکھائی دے رہا ہے۔ آئندہ انتخابات میں اس شہر سے خان کو وہ پذیرائی نہیں ملے گی، جو 2013 میں دکھائی دی تھی۔ جماعت اسلامی متحرک ہوچکی ہے۔شہر میں جڑیں رکھتی ہے۔ امیر کراچی، حافظ نعیم الرحمان صحیح خطوط پر آگے بڑھ رہے ہیں۔ عوامی ایشوز پر آواز اٹھانے کی وجہ سے جماعت کے مخالفین بھی، یہاں تک کہ ایم کیو ایم کے پکے ووٹرز بھی انھیں سراہا رہے ہیں۔ لوڈشیڈنگ اور اضافی بل ایک سنگین مسئلہ ہے، جوموسم گرما میں عوام کو اعصابی مریض بنا دے گا۔ حافظ نعیم الرحمان کے کاندھوں پر دس لاکھ ووٹرز کا قرض نہیں۔ یہ تواُن کی سیاسی بصیرت ہے۔ اصولی طور پر یہ کام تحریک انصاف کو کرنا چاہیے تھا۔ ادھر مصطفی کمال بھی ”آنسو، الزام اور امید‘‘ کی سیاست ترک کرکے احتجاج کی جانب قدم بڑھارہے ہیں۔ رات کے جس پہر میں یہ سطریں لکھ رہا ہوں، وہ کراچی پریس کلب کے باہر دھرنا دیے بیٹھے ہیں۔ اُن کانشانہ سندھ حکومت ہے۔ ایم کیو ایم پاکستان بھی اپنی سی کوشش کر رہی ہے۔۔۔سب کی نظریں اگلے الیکشن پر مرکوز ہیں، جن کا قبل از وقت ہونا امکانی ہے، سب کو کراچی میں بننے والے نئے حلقوں میں دلچسپی ہے، مگر افسوس، جو پارٹی کراچی کی مقروض ہے، وہ اس سے غافل نظر آتی ہے۔
بدبختی کے پیچھے غلط فیصلوں کا انبوہ ہوتا ہے۔اور کپتان نے پے درپے غلطیاں کیں۔ قوی امکان ہے کہ آئندہ الیکشن سے قبل چندسرمایہ دار، گدی نشین اور آف شور کمپنیاں بنانے والے تحریک انصاف کی کشتی سے چھلانگ لگا دیںگے۔ پاناما کیس اور بدعنوانی کے الزامات ن لیگ کو نقصان تو پہنچا سکتے ہیں، مگر تحریک انصاف کی غلطیوں کے باعث فی الحال اُسے زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔