ملائیشیا کو سلام …(2)…نسیم احمد باجوہ
آپ کو شاید یقین نہ آئے مگر حقیقت یہ ہے کہ ملائیشیا کی مملکت (صرف تین کروڑ کی آبادی کے باوجود) 13 وفاقی وحدتوں پر مشتمل ہے۔ ہر وحدت (یا ریاست) کا اپنا موروثی بادشاہ ہے۔ ہر پانچ سال کے بعد یہ 13 بادشاہ سارے ملک کا بادشاہ اپنے ووٹوں سے چنتے ہیں۔ اس ملک کا بادشاہ دُنیا بھر میں واحد بادشاہ ہے‘ جو جمہوری طریقہ سے منتخب ہوتا ہے‘ اور وہ بھی صرف پانچ سال کے لئے۔ 1964ء میں کالم نگار لاہور کے مشہور تعلیمی ادارہ ایچیسن کالج میں پڑھاتا تھا۔ سب سے اُونچے تعلیمی درجہ کا نام تھا۔ ایچ ایس سی اور میرے طلباء کی تعداد صرف تین تھی۔ حفیظ اختر رندھاوا اور سکندر جمالی میرے ساتھی اساتذہ میں شامل تھے۔ عمران خان کی عمر صرف 12 برس تھی۔ جو اس وقت جونیئر کرکٹ ٹیم کے کپتان تھے۔ نجم سیٹھی ایچ ایس سی کے درجہ میں تھے مگر وہ میرے طالب علم ہونے سے بال بال بچ گئے۔ (اُن کا چچا زاد بھائی ارشد سیٹھی میرا طالب علم تھا)۔ اُنہی دنوں ملائیشیا کے شاہی خاندان کا ایک کم عمر بچہ ایچیسن کالج میں داخل ہوا۔ نام غالباً سلمان تھا اور عمر دس برس کے قریب‘ مگر کالج کے ریکارڈ میں اُس کے نام کے پہلے HRH لکھا جاتا تھا‘ جس کا مطلب ہے His Royal Highness ۔ یہ تو تھا اُس کا سرکاری نام مگر سکول کے طلباء کو اس کی ہرگز کوئی پروا نہ تھی کہ وہ بڑا ہو کر بادشاہ بنے گا۔ چنانچہ اُس کا کوئی لحاظ نہ کیا جاتا تھا اور اچھی بات یہ ہے کہ وہ بھی کوئی نخرے نہ کرتا تھا۔ اُس کے والدین (جو بادشاہ اور ملکہ تھے) کی خواہش تھی کہ اُسے اپنے ساتھ ہوسٹل میں اپنے چند ذاتی ملازمین رکھنے کی اجازت دی جائے‘ مگر کالج نے صاف انکار کر دیا کیونکہ اس قسم کا امتیازی سلوک کالج کے نظم و ضبط کے منافی ہوتا۔ ایچیسن کالج کا تعلیمی معیار اتنا اچھا تھا کہ محض میرے ساتھی انگریز اساتذہ کی سفارش پر مجھے برطانیہ کے ایک اعلیٰ تعلیم کے ادارہ میں (1967ء میں) HSC کے متوازی درجہ (A Level) کے طلباء اور طالبات کو پڑھانے کی ذمہ داری دی گئی۔
کافی گپ شپ ہو چکی۔ اب ہم ملائیشیا کی طرف واپس چلتے ہیں۔ مندرجہ بالا سطور میں لکھی ہوئی ایک بات اتنی اہم اور غور طلب ہے کہ میں اُسے دوبارہ لکھتا ہوں۔ ملائیشیا کی ساری آبادی سندھ کے دو شہروں (کراچی اور حیدر آباد) کے برابر ہے اور صوبوں (وفاقی وحدتوں یا ریاستوں ) کی تعداد 13 ہے۔ پاکستان کی آبادی اس ملک سے آٹھ گنا زیادہ ہے اور کل صوبے چار۔ اگر ہم موجودہ نظام (جو پرلے درجہ کی نالائقی‘ نااہلی‘ بدعنوانی اور لوٹ مار کے دیمک زدہ ستونوں پر کھڑا ہے) کی دلدل سے نکل کر ترقی کے راستہ پر چلنا چاہتے ہیں تو ہمیں انقلابی نوعیت کی اصلاحات کر کے انتظامی ڈھانچہ کو عوام دوست‘ شفاف‘ جواب دہ اور عام لوگوں کے گھروں کی دہلیز کے قریب لانا ہو گا ۔ اس کا مطلب ہے ہر ڈویژن کو جلد از جلد صوبائی درجہ دینا اور صوبہ بھی وہ جو سو فیصدی جمہوری‘ بااختیار‘ خود مختار اور ہر قسم کی کرپشن سے پاک ہو۔ افغانستان کی آبادی ساڑھے تین کروڑ ہے اور صوبوں کی تعداد 34 ہے۔ ترکی کی آبادی آٹھ کروڑ اور صوبوں کی تعداد 81 ہے۔ میں دُعا گو ہوں کہ اللہ تعالیٰ میری تحریر کو اتنا بااثر بنا دیں کہ زیادہ سے زیادہ انتقال اقتدار (Decentralization) کے بارے میں میرا موقف (جو 65 سالوں کے مطالبہ پر مبنی ہے) میرے ہم وطنوں کی سمجھ میں آ جائے اور وہ میرے ہم خیال ہو جائیں۔ کالم نگار اپنے ہم وطنوں کو مخاطب کر کے غالب کا ایک شعر نہ لکھے اور اس طرح اُن تک اپنا گلہ شکوہ نہ پہنچائے تو کیا کرے۔
یارب وہ نہ سمجھے ہیں نہ سمجھیں گے مری بات
دے اور دل اُن کو جو نہ دے مجھ کو زباں اور
ملائیشیا میں تین بار وزیر اعظم بننے والے اور آخری انتخاب ہارنے والے کا نام نجیب رزاق ہے۔ اُس نے الیکشن میں ایک بار پھر کامیابی حاصل کرنے کے لئے دھن‘ دھونس اور دھاندلی کا بھرپور استعمال کیا۔ انتخابی حلقوں کی جغرافیائی حد بندی میں تبدیلیاں کرنے سے لے کر 26 سال سے کم عمر نوجوانوں کو ٹیکس کی ادائیگی سے معافی تک‘ اُن کے ترکش میں کوئی ایسا تیر نہ تھا‘ جو اُس نے چلانے سے گریز کیا ہو۔ مگر اُلٹی ہو گئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا۔ 2013ء کے انتخابات میں نجیب رزاق کے انتخابی محاذBarisan Nasinol میں 133 نشستیں لینے والی جماعت کو مئی 2018 ء میں ہونے والے انتخاب میں صرف 79 نشستیں ملیں اور حزب اختلاف (جس کے نئے قائد مہاتیر محمد ہیں) کی سیٹیں 89 سے بڑھ کر 122 ہو گئیں۔ مہاتیر محمد کا اصل جانشین انور ابراہیم کو ہونا چاہئے تھا‘ جنہیں ایک جھوٹے مقدمہ میں سزا دلوا کر قید کر دیا گیا۔ مہاتیر محمد کو اب اپنی فاش غلطی کا احساس ہوا ہے۔ اُنہوں نے کہا ہے کہ وہ اس کی تلافی دو طرح سے کریں گے۔ اوّل‘ انور ابراہیم کی بیوی (ڈاکٹر عزیزہ اسماعیل) کو نائب وزیر اعظم بنایا جائے گا۔ دوم‘ انور ابراہیم کو بادشاہ سلامت سے معافی دلوا کر رہائی دلوائی جائے گی۔ نجیب رزاق پر قومی خزانے سے ساڑھے چار ارب چرانے (یا غبن کرنے) کا الزام ہے۔ اس کی باقاعدہ تحقیق کی جائے گی۔ ملائیشیا میں اک نئی صبح طلوع ہوئی ہے۔ میں اپنے قارئین سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ میرے ساتھ مل کر یہ دُعا مانگیں کہ ہمارا ملک بھی اسی طرح کے ایک نئے روشن دور میں داخل ہو۔
بات چل نکلی ہے اب دیکھیں کہاں تک پہنچے
آپ کو شاید یاد ہو گا کہ ایک گزشتہ کالم میں فرانس اور بیلجیم سے آنے والی سیاسی خبریں لکھی گئی تھیں۔ جگہ کی کمی کی وجہ سے پرتگال کا ذکر رہ گیا تھا۔ اب کالم نگار آپ کو پرتگال لے تو جائے گا مگر صرف اتنی دیر کے لئے کہ آپ اُس پر ایک طائرانہ نظر ڈال سکیں۔ بدقسمتی سے اُن یورپی ممالک کی تعداد تین تک جا پہنچی ہے‘ جہاں ان دنوں دائیں بازو کی نیم فسطائی اور عوام دُشمن سیاسی جماعتیں برسر اقتدار ہیں۔ ان ممالک کے نام ہیں: پولینڈ‘ آسٹریا اور ہنگری۔ ان کے مقابلہ میں آپ کو صرف ایک اچھی خبر سنا سکتا ہوں کہ پرتگال میں بائیں بازو کی ترقی پسند‘ عوام دوست اور اشتراکی جماعت وہاں کی حکومت چلا رہی ہے۔ اس سیاسی جماعت کا نام ہے Partido Socialist (P.S.) کالم کی محدود جگہ اجازت نہیں دیتی کہ میں آپ کو پرتگال کی سیاسی اور معاشی خوش بختی کی تفصیلات بتائوں‘ مگر یہ بھی ہو سکتا ہے کہ میں اپنے قارئین سے وعدہ کر لوں کہ میں مستقبل قریب میں آپ کو پرتگال کے معجزے کے بارے میں وہ سب کچھ بتائوں جو اہلِ پاکستان کی بند آنکھوں کو کھولنے کا محرک ثابت ہو سکتا ہے۔ ہم بطور قوم عصرِ حاضر کے جدید تقاضوں کی تکمیل میں اتنے نالائق اور اتنے سست ہیں کہ عصرانہ کے وقت ناشتہ کے بارے میں سوچتے ہیں۔ (بقول اقبال) اتنے ناداں ہیں کہ وقت قیام آئے تو سجدہ میں گر جاتے ہیں۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ سندھ‘ بلوچستان‘ پختوانخوا کی طرح پنجاب کے ہر ڈویژن کو صوبہ بنایا جائے۔ (اور صوبہ بھی بااختیار اور خود مختار) اُدھر ہم ہیں کہ ہمیں آزادی کے 70 سال بعد جنوبی پنجاب کا ایک (صرف ایک) صوبہ بنانے کا خیال بصد مشکل آیا ہے۔
اندھے کو اندھیرے میں بہت دُور کی سوجھی