ملتان کی انتخابی سیاست اور گھمسان کا رن…خالم مسعود خان
ملتان شہر میں الیکشن کے امیدواروں نے ابھی سے اپنے ہورڈنگز، پینافلیکس اور پوسٹروں کی بہار لگا دی ہے۔ ہر اس جگہ پر جہاں پوسٹر لگانے کی تھوڑی سی بھی گنجائش تھی وہاں کسی نہ کسی قومی یا صوبائی حلقے کے امیدوار نے اپنا رنگین پوسٹر چپکا دیا ہے۔ یہ محض اتفاق ہے کہ یہ سارے کے سارے امیدوار صرف اور صرف پی ٹی آئی سے ٹکٹ کے خواہاں ہیں۔ صرف میرے حلقے میں جو حالت ہے وہ ایسی ہے کہ ایسی ایسی شخصیات کے پوسٹر دیکھنے کو مل رہے ہیں جن کا کبھی نام بھی نہیں سنا تھا۔ صرف ملتان میں پی ٹی آئی کے ٹکٹ کے امیدوار اتنے ہیں کہ پورے جنوبی پنجاب کے لئے کافی ہیں۔
مجھے ابھی تک نئے حلقوں کے نمبر ٹھیک طرح سے یاد نہیں ہوئے۔ ابھی تک وہی پرانے حلقہ نمبر یاد ہیں تاہم امید ہے چند روز میں یہ کنفیوژن تھوڑا کم ہو جائے گا لیکن جس تعداد میں امیدوار میدان میں ہیں یہ کنفیوژن ٹکٹوں کے فائنل ہونے تک کم نہیں ہو سکتا۔ نئے حلقے این اے 155 (پرانا این اے 149) سے دیواروں کی حد تک عون عباس بپی پی ٹی آئی کا سب سے ”مشہور‘‘ امیدوار ہے۔ دوسرے نمبر پر شاہد محمود ہے اور پھر خالد خاکوانی تاہم میرا خیال ہے کہ یہاں سے ٹکٹ بہرحال عامر ڈوگر کو ملے گا بشرطیکہ وہ میپکو کی بجلی چوری کے معاملے سے نکل گیا اور قرائن بتاتے ہیں کہ وہ اپنی ہوشیاری، اوپر والوں کی مہربانی اور دھکے زوری سے یہ معاملہ حل کروا لے گا۔ یہ ”اوپر والوں‘‘ سے میری مراد بنی گالہ ہرگز نہیں ہے۔
مسلم لیگ ن کی طرف سے امیدوار تو میدان میں ہیں مگر ابھی ایسی فضول خرچی نہیں کر رہے جیسی پی ٹی آئی والے کر رہے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ پی ٹی آئی کے ٹکٹ کے ان امیدواروں کا سارا پیسہ ٹکٹ لینے کی مہم میں خرچ ہو جائے اور جب الیکشن کا وقت آئے تو سب فارغ ہو کر اللہ کی آس پر بیٹھ جائیں۔ ان کا حال اس لڑکے جیسا نہ ہو جسے اس کے والد نے کہا کہ اگر وہ میٹرک میں پاس ہو گیا تو وہ اسے موٹر سائیکل لے کر دے گا۔ نتیجہ آیا تو لڑکا فیل ہو گیا۔ باپ نے پوچھا کہ وہ آخر کرتا کیا رہا ہے ؟ لڑکے نے جواب دیا کہ وہ موٹر سائیکل چلانا سیکھتا رہا ہے۔
این اے 155 سے بظاہر مسلم لیگ ن کے تین امیدوار ہیں۔ دو اصلی اور ایک بغلی، یعنی پتلی گلی والا، دو امیدواروں میں سدا بہار امیدوار طارق رشید ہے اور دوسرا آصف رجوانہ (فرزندِ ارجمند ملک رفیق رجوانہ گورنر پنجاب) ہے۔ پتلی گلی والا امیدوار جاوید ہاشمی ہے جو یہ ٹکٹ دبوچ لینے کے چکر میں ہے تاہم ابھی تک مسلم لیگ ن میں ان کا سٹیٹس ہی کلیئر نہیں ہے۔ اس حلقے کے ساتھ ساتھ وہ اب شجاعباد کے حلقہ این اے 158 سے بھی امیدوار ہیں۔نئی حلقہ بندیوں کے طفیل ان کے پرانے حلقے این اے 148 (موجودہ این اے 157) میں ان کی آبائی یونین کونسلز (مخدوم رشید و ملحقہ) اب شجاعباد کے حلقہ این اے 157 میں آ گئی ہیں۔ اب جاوید ہاشمی بھی اس حلقہ سے امیدوار ہیں لیکن کئی سو ملین ڈالر کا سوال یہ ہے کہ وہاں سے منتخب ایم این اے اور وفاقی وزیر برائے آبی وسائل جاوید علی شاہ کہاں جائے گا؟ جاوید علی شاہ کی حلقے میں پوزیشن بھی ٹھیک ہے۔ اتنی ٹھیک کہ وہ الیکشن لڑے تو مقابلے میں ہے۔ اسی حلقہ این اے 157 سے سید یوسف رضا گیلانی بھی الیکشن لڑنے کے لئے تیار ہیں۔ شنید ہے ان کے ساتھ مسلم لیگ ن کا ایک رکن صوبائی اسمبلی بھی الیکشن لڑنے کے لئے نیم رضا مند ہے۔ اگر جاوید ہاشمی کو مسلم لیگ ن کا ٹکٹ ملتا ہے (گو کہ اس کی کوئی منطقی وجہ سمجھ نہیں آتی) تو ان کی پوزیشن بھی ٹھیک ہے لیکن ایسی صورت میں جاوید علی شاہ کہاں جائے گا؟ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ جاوید علی شاہ ساتھ والے حلقے این اے 158 جلالپور پیروالہ میں چلا جائے گا‘ مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیوں؟ آخر جاوید شاہ اپنا جما جمایا حلقہ چھوڑ کر دوسرے حلقے میں کیوں جائے گا۔ مسلم لیگ ن نے اسے چند ماہ پہلے وفاقی وزیر اسی لئے بنایا تھا کہ وہ حلقے میں کام کر سکے‘ اس لئے فی الحال جاوید ہاشمی کی اس سیٹ پر الیکشن لڑنے کی کوئی صورت بن نہیں رہی مگر سیاست میں کچھ بھی حرفِ آخر نہیں۔
سیاست میں کچھ بھی حرف آخر نہیں! یہ بات کل رات پی ٹی آئی کے ایک ضلعی عہدیدار نے بھی کہی۔ میں نے اس سے پوچھا کہ حلقہ این اے 158 پر کیا ہو گا؟ کہنے لگا: رانا قاسم نون کو ٹکٹ دیں گے۔ میں نے کہا: گزشتہ بار والے 2016ء کے ضمنی الیکشن کے واقعہ کے باوجود؟ وہ عہدیدار کہنے لگا: جی! اس واقعے کے باوجود۔ میں نے کہا: یہ بات درست ہے کہ اس بار رانا قاسم کی پی ٹی آئی سے الیکشن لڑنے کی باری ہے‘ اس نے 2002ء کا الیکشن مسلم لیگ ق کی طرف سے لڑا۔ 2008ء کا الیکشن آزاد لڑا۔ 2013ء کا الیکشن پیپلز پارٹی کی طرف سے لڑا‘ اور 2016ء کا ضمنی الیکشن مسلم لیگ ن کی طرف سے لڑا۔ اب باقی صرف پی ٹی آئی ہی بچتی ہے مگر وہ 2016ء کے ضمنی الیکشن میں آپ سے سب کچھ طے کرنے کے باوجود‘ بلکہ شنید ہے کہ لاہور میں آپ لوگ (پی ٹی آئی کی قیادت) اس کے منتظر تھے کہ وہ آئے اور آپ اسے ٹکٹ عطا کریں اور وہ آپ لوگوں کو انتظار میں چھوڑ کر میاں صاحبان کے پاس چلا گیا اور ان کا ٹکٹ لے لیا۔ سنا ہے آپ لوگوں کو بڑی شرمندگی ہوئی اور غصہ بھی آیا۔ اس کے باوجود؟ آپ لوگوں کو شرم نہیں آئے گی؟ وہ عہدیدار کہنے لگا: 29 اپریل والے جلسے میں سٹیج پر بیٹھے ہوئے کئی لوگوں کو دیکھ کر اگر ہمیں شرم نہیں آئی تو رانا قاسم کو ٹکٹ دینے میں کیسی شرم ہے؟ میں نے کہا: برادرِ عزیز! فردوس عاشق اعوان اور نذر محمد گوندل وغیرہ کا تو آپ کچھ نہیں بگاڑ سکتے کہ آپ اس ضلع کے عہدیدار ہیں مگر یہاں ملتان میں تو آپ اپنا رول ادا کر سکتے ہیں۔ وہ کہنے لگا: وہی تو ادا کر رہے ہیں۔ ہمیں اب جیتنے والے امیدواروں کی ضرورت ہے۔ میں نے پوچھا: اور پرانے کارکن؟ وہ کہنے لگا: ان کو بعد میں کہیں اکاموڈیٹ کریں گے۔ میں نے پوچھا: کیا میں یہ باتیں آپ کا نام لکھ کر کالم میں دے سکتا ہوں۔ میرا وہ درست اس وقت خاصا جذباتی ہو رہا تھا۔ کہنے لگا: لکھ دیں۔ تاہم میں اس کی اس وقت کی ذہنی کیفیت کو مدِ نظر رکھ کر اس کا نام اور عہدہ نہیں لکھ رہا۔
جاوید ہاشمی کے ابھی بھی جیتنے کے امکانات حلقہ این اے 155 سے ہی ہیں بشرطیکہ اس کے پاس مسلم لیگ ن کا ٹکٹ ہو اور مسلم لیگی اس کے ساتھ دو نمبری نہ کریں۔ لیکن اس دوسری بات کی کوئی ضمانت نہیں۔ فی الحال مسلم لیگ ن کی طرف سے شیخ طارق رشید اور ملک آصف رجوانہ ہیں لیکن میرا ذاتی اندازہ ہے کہ قومی اسمبلی کی یہ سیٹ جیتنے کیلئے ہر دو امیدواران کی امید کم ہے۔ اگر اس سیٹ پر قومی حلقے میں جاوید ہاشمی اور صوبائی پر احسان الدین قریشی اور ملک آصف رجوانہ ہوں تو پورا پینل جیت سکتا ہے اور دوسری صورت میں شاید صرف ایک صوبائی نشست۔
ابھی کئی مزید مسلم لیگی پنچھی اڑنے کیلئے تیار ہیں لیکن مناسب وقت کے منتظر ہیں۔ دوسری طرف پی ٹی آئی کے ٹکٹ سے محروم خود ساختہ امیدوار بھی پی ٹی آئی کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے پر تیار ملیں گے۔ ایک گھمسان کا رن پڑنے والا ہے جس میں اتنی گرد اڑے گی کہ اللہ کی پناہ۔ خانیوال میں احمد یار ہراج اور اس کے بھائی حامد یار میں تعلقات کا یہ عالم ہے کہ دونوں کسی غمی یا خوشی میں اکٹھے شریک نہیں ہوتے۔ ایک دوسرے کی شکل دیکھنے کے روادار نہیں اور اگر احمد یار ہراج کو ٹکٹ ملی تو حامد یار آزاد الیکشن لڑنے پر تیار ہو جائے گا۔ ممکن ہے ایسی صورت میں کرنل عابد کھگہ کی لاٹری نکل آئے مگر پی ٹی آئی کی موجودگی الیکشن کی حکمت عملی میں اس لاٹری کا امکان مشکل ہے۔