ملکی معیشت اور قومی اداروں کی تباہی کا ذمہ دار کون؟…جی این مغل
آج کل اکثر لوگوں کے ذہنوں میں ایک ہی سوال گردش کررہا ہے کہ کیا یہ ملک چل رہا ہے؟ دراصل یہ سوال کئی سوالوں پر محیط ہے۔ مثال کے طور پر ذہنوں میں سوالات اٹھ رہے ہیں کہ کیا ملک کی معیشت تباہ نہیں ہوگئی ہے؟ کیا قومی ادارے تباہ نہیں ہوگئے؟ کیا ملک کو آئین کے مطابق اور قانون کے مطابق چلایا جارہا ہے؟ ان سوالات کے جواب کون دے گا؟ کیا ملک کے موجودہ وزیر اعظم جس کے ہاتھ میں کیا ہے، خود ایک سوال ہے۔ بہرحال، اس وقت ملک کے وزیر اعظم تو ہیں۔ تو کیا وہ ٹی وی پر آکر خدا تعالیٰ کو حاضر و ناظر جان کر حلفیہ طور پر یہ ضمانت دے سکتے ہیں کہ:’’جی ہاں، ملک درست حال میں ہے، جی ہاں، ملک کی معیشت بالکل درست ہے۔ جی ہاں، ملک کے ادارے صحیح طریقے سے کام کررہے ہیں۔ جی ہاں، ملک آئین اور قانون کے مطابق چلایا جارہا ہے۔ جی ہاں، ملک کے چاروں صوبوں کو ایک جیسے حقوق حاصل ہیں۔ ملکی معیشت کس حال میں ہے، اس سلسلے میں آئندہ ایک تفصیلی کالم لکھوں گا جس میں نہ فقط آئی ایم ایف کے پاکستان کے بارے میں تبصرہ مگر ملک کے ممتاز معاشی ماہرین کی آرا بھی شامل کروں گا۔ فی الحال، میں فقط نیب کے چیئرمین ریٹائرڈ جسٹس جاوید اقبال کے ایک بیان کا حوالہ دوں گا جو انہوں نے19مارچ کو لاہور کے ایوان اقبال میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے دیا جس میں انہوں نے توجہ
مبذول کرائی ہے کہ اس وقت ملک 94ارب ڈالروں کامقروض ہے۔ یہ بیان 20مارچ کے اخبارات میں شائع ہوا ہے۔ مگر آج تک نہ حکومت کی طرف سے اور نہ حکومت کے کسی متعلقہ ادارے یا ڈویژن کی طرف سے تردید ہوئی ہے۔ اس کے معنی یہ بیان درست ہے ملک کے عوام کو سہانے خواب دکھائے جارہے ہیں کہ چین کی مدد سے بلوچستان کی بندرگاہ گوادر کو ترقی دی جارہی ہے۔ علاوہ ازیں بڑے بڑے اعلانات کئے جارہے ہیں، کہ چین کی مدد سے سارے ملک میں شاہراہ تعمیر کی جارہی ہیں، بجلی کے منصوبے شروع کئے جارہے ہیں، وغیرہ وغیرہ اگر ایسا ہےتو اچھا ہے۔ مگر یہ جو اطلاعات آرہی ہیں کہ پاکستان نے بلوچستان کی بندرگاہ گوادر چین کو ایک خاصے لمبے عرصے کے لئے پٹے پر دیدی ہے۔ اس قسم کی تصدیق کچھ عرصہ پہلے بلوچستان سے تعلق رکھنے والے پورٹس اور شپنگ کے وفاقی وزیر میر حاصل بزنجو نے حیدرآباد پریس کلب میں ایک پریس کانفرنس کے دوران میرے ایک سوال کے جواب میں کی۔ بزنجو صاحب نے یہ بھی انکشاف کیا کہ اب تک گوادر کی ترقی پر جو بھی خرچہ آرہا ہے وہ چین کررہا ہے تو پاکستان چین کی طرف سے خرچ کی جانے والی رقم کیا واپس کرےگا۔ اس سلسلے میں چین کی طرف سے کیا شرائط رکھے گئی ہیں؟ کیا پاکستان یہ رقم واپس بھی کرسکے گا؟ ایک اور بات جو یقینی طور پر بلوچستان کے عوام کو پریشان کرتی ہے کہ گوادر بندرگاہ کے بارے میں چین سے جو معاہدہ کیا گیا ہے وہ فقط پاکستان کی مرکزی حکومت کی طرف سے کیوں کیا گیا اول تو سمندر کے جو حصے بلوچستان اور سندھ سےلگتے ہیں آئینی طور پر بلوچستان اور سندھ کے حصے ہونے چاہئیں اس سلسلے میں آئین کودرست کرکے ملک کو حقیقی وفاق میں تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ چلئے اگر فی الحال ایسا نہیں کیا گیا تو پاکستان کی مرکزی حکومت کی طرف سے گوادر بندرگاہ کی ترقی کے لئے چین سے جو معاہدہ کیا گیا ہے اس پر بلوچستان حکومت کے دستخط بھی ہونے چاہئے تھے ۔ چلئے ملکی معیشت کے کچھ دوسرے حوالوں سے مختصر سا ذکر کرتے ہیں۔ کیا یہ بات درست نہیں کہ کچھ عرصے پہلے ملکی خزانے کی طرف سےshortageکا سامنا کرنے کی وجہ سے ملک بھر میں ریڈیو پاکستان کی عمارتوں کوگروی رکھ دیا گیا۔ اگر یہ بات درست ہے تو اس سلسلے میںساری تفصیلات ظاہر کیوں نہیں کی جاتیں کہ یہ عمارتیں کس ادارے کے پاس کن شرائط پر گروی رکھی گئی ہیں۔ کچھ اطلاعات کے مطابق پنجاب کا ایک بڑا ائیرپورٹ اور کچھ روڈ بھی گروی رکھے گئے ہیں۔ یہ بھی اطلاعات آئیں کہ حکومت ملک میں ٹیلی وژن کی عمارتوں کو بھی گروی رکھنے کے بارے میں منصوبہ بندی کررہی تھی ۔ پتہ نہیں اس منصوبے پر عمل کیا گیا یا نہیں؟ اگرگروی کے بارے میں اطلاعات درست ہیں تو یہ بھی بتایا جائے کہ جو املاک بھی گروی رکھی گئی ہیں یا گروی رکھی جارہی ہیں، وہ ملکی اداروں کے پاس گروی ہیں یا غیرملکی اداروں کے پاس رکھی گئی ہیں یا رکھی جارہی ہیں۔ اب ہم اداروں کی بات کرتے ہیں، سب سے پہلے پی آئی اے کا ذکر کرتے ہیں کوئی وقت تھا جب پی آئی اے کے سربراہ ایئر مارشل اصغر خان، ایئرمارشل نور خان ، انور جمال اور کچھ دیگر افراد تھے ، پی آئی اے دنیا کی بہترین ایئر لائنوں میں شمار ہوتی تھی ۔ اس دور میں پی آئی اے کی انتظامیہ کے مشوروں اور مدد سے دنیا کی دویا تین ایئر لاینیں وجود میں آئیں جو آج کل دنیا کی بہترین ایئر لائنوں میں شمار ہوتی ہیں۔ اس دوران پی آئی اے کی یہ حالت ہوگئی کہ اس کے پاس اپنے جہاز بھی نہیں تھے وہ ملک کے اندر اپنی فلائٹس کے لئے دیگر ملکوں مثلاََویتنام جیسے ملکوں کی ایئر لائنوں سے جہاز اور عملہ کرائے پر حاصل کرکے استعمال کرتی رہی ہے۔ پی آئی اے کا یہ حال کس نے کیا۔ ہم شریفوں سے نہیں پوچھتے۔ ہمارے موجودہ وزیر اعظم ہی کچھ بتائیں۔ یہ کہاں تک درست ہے کہ پی آئی اےکواس وجہ سے نجی کمپنیوں کے حوالے کیا جارہا ہے کہ ہمارے مہربانوں کو اپنی ایئر لائن کو آگے لانا ہے؟ اسٹیل مل کا یہ حشر کیوں کیا گیا؟ پاکستان میں روس کی مدد سے اسٹیل مل کا قیام ذوالفقار علی بھٹو کا ایک بہت بڑا کارنامہ تھا۔ مگر یہ کارنامہ پہلے دن سے کچھ دیگر ملکوں کو اور نہ ملک کےکچھ مہربانوں کو پسند آیا لہٰذا اسٹیل مل کا یہ حشر کردیا گیا۔ بات پاکستان ریلویز اور کراچی الیکٹرک کارپوریشن کے ساتھ کئے گئے حشر کے بارے میں بھی کرنی تھی مگر کالم مکمل ہورہا ہے لہٰذا یہ بات آئندہ کے لئے۔