ممکنہ امن یا جنگ؟….نذیر ناجی
24جون کو میں نے سپر پاورز کے درمیان‘ جنوبی ایشیا میں رونما ہونے والی انتہائی اہم تبدیلیوں پرایک تجزیاتی مضمون پیش کیا تھا۔چند ہفتے قبل شمالی کوریا کے صدر اور موجودہ امریکی صدر ٹرمپ کے مابین اچانک ایک ہنگامہ خیز ملاقات کی خبر شائع ہوئی۔اسرائیل کے جبری دارالحکومت یروشلم پر یہودیوں کے جبری قبضے کا اعلان کیا گیا اور اس کے ساتھ ہی یکے بعد دیگرے بڑے واقعات رونما ہوئے اور فالو اپ میں قابلِ ذکر طاقتوں کے مابین باہمی سمجھوتوں کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا۔ظاہر ہے یہ ایسے واقعات نہیں جو خفیہ سمجھوتوں اور تیاریوں کے بغیر ہوئے ہوں‘اگر آپ ان واقعات کے پس منظرپر غور کریں ‘تو بہت عرصہ پہلے شمالی کوریا اور امریکہ کے مابین خفیہ رابطوں کی خبریں آئیں۔ ساتھ ہی امریکہ اور شمالی کوریا کے مابین اچانک مذاکرات شروع ہو گئے۔ اور اس کے فوراً بعدپتہ چلا کہ سعودی عرب اور اس کے حامیوں نے درپردہ کچھ رابطے کئے۔ ساتھ ہی امریکہ نے اعلان کر دیا کہ یروشلم اب اسرائیل کا دارالحکومت ہے۔ اس اقدام کو ساری دنیا نے اتنی آسانی سے قبول کر لیا ‘ جیسے یہ معمول کا واقعہ ہو۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ تمام تیاریاں پہلے سے کی جا چکی تھیں۔
ظاہر ہے یروشلم پر فوجی قبضے کے جواب میں سوائے نہتے فلسطینیوں کے کسی نے آواز نہ اٹھائی۔ نہتی فلسطینی قوم کے چند بچوں اورجوانوں نے خالی ہاتھ مزاحمت کی اور اب اس کی خبریں بھی کم سے کم تر ہوتی چلی جا رہی ہیں۔یہاں میںاس طویل اور واضح منصوبے پربات کرنا چاہوں گا۔اس مرتبہ امریکہ اور اسرائیل نے کوئی ہنگامی قدم نہیں اٹھایا۔اس کی طویل عرصے تک منصوبہ بندی کی گئی تھی۔ اسرائیل اور امریکہ نے عملی اقدامات سے پہلے دنیا بھر میں قابل ذکر طاقتوں کو اعتماد میںلے رکھا تھا۔ جو سب سے بڑا مسئلہ طے کیا گیا‘ وہ عربوں اور فلسطینیوں کا تھا۔ یروشلم پر اسرائیل کا قبضہ محض فوجی اقدام نہیں تھا۔اس کے لئے تمام قابلِ ذکر عالمی طاقتوں کو پوری طرح اعتماد میں لیا گیا اور عرب حکومتوںکو تفصیل سے منصوبے کے بارے میں نہ صرف آگاہ کیا گیا‘ بلکہ فلسطینی ریاست کو باقاعدہ اعتماد میں لے کر عالمی برداری سے درجہ بدرجہ کئے جانے والے اقدامات کی تفصیلات بھی طے کر لی گئیں۔چند مہینوں سے امریکہ ‘ اسرائیل‘ چین‘ بھارت اور دیگر تمام بڑی طاقتوں کے ساتھ سارے منصوبے پر اعتماد میں لے لیا گیا اور اس سے پہلے کئی مہینوں تک امریکہ‘ یورپ‘ روس‘چین اور بالخصوص بھارت سب کو اس منصوبے میں شریک کر لیا گیا۔ اور ان سارے اقدامات کے دوران تمام قابل ِذکر طاقتوںکے ساتھ تعاون کی تفصیلات طے کر لی گئیں۔ظاہر ہے اس فیصلے میں سب سے زیادہ پاکستان کو اعتماد میں لینے کی ضرورت تھی؟ لیکن اس مقصد کے لئے بھارت اور چین دونوں کا اعتماد حاصل کیا گیا۔یہ صرف میری قیاس آرائی ہے ‘ اندازہ کرنا مشکل نہیں۔ جب ایک سپر پاور اتنا بڑا اقدام کر رہی ہو تو اس کے لئے کم از کم پوری اقوام متحدہ کی تائید بھی حاصل کرنا بھی ضروری ہے۔
بات یہیںپر ختم نہیں ہو جاتی۔دنیا بھر کی متعدد حکومتوں نے فلسطین کے مسئلے پر طویل مدت سے مضبوط موقف اختیار کر رکھا ہے۔ یہ معمولی بات نہیں کہ فلسطینیوں کے ساتھ متعدد حکومتوں نے نہ صرف اپنے قائدین کو اعتماد میں لیا ہو گا‘ بلکہ اقوام متحدہ کے اندر بھی اپنی پوزیشن کے بارے میں معاملات طے کئے ہوں گے۔اس مقصد کے لئے اقوام متحدہ کے اندر فیصلے کرنے والی تمام مؤثر طاقتوں کو نہ صرف یواین کی تمام ویٹو پاورز کا اعتماد حاصل کیا گیا ہو گا‘اس کے علاوہ تمام ویٹو پاورز کی نہ صرف مدد حاصل کی گئی‘ بلکہ سب سے زیادہ حساس اقدام اس معاملے پر نہ صرف بھارت کو اعتماد میں لیا گیا ہو گا‘ بلکہ دونوں ملکوں کے حساس تنازعات پر باہمی سمجھوتے بھی کئے ہوں گے۔
ظاہر ہے ‘اس مسئلے پر نہ تو بھارتی پالیسی ساز نے اپنے عوام کے لئے قابل ِقبول حل کی تفصیلات طے کی ہوں گی‘ بلکہ دونوں ملکوں کے فیصلہ سازوں اورعوام کی تائید حاصل کرنا بھی اس پورے عمل کا سب سے مشکل مرحلہ ہوگا۔کیا یہ دونوں حکومتیں آنے والے ممکنہ اقدامات کر سکیں گی؟مشکل ترین مرحلہ وہ ہو گا جب اسرائیل اوربھارت کوئی ایسا راستہ نکال پائیں ؟ جنہیں ان ملکوں کے عوام کے لئے کسی طرح قابل قبول بنایا جا سکے‘لیکن جو تازہ اقدامات ہوئے اور ہو رہے ہیں‘ان سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ مشکل ترین مراحل‘ اسرائیلیوں اور ان کے سرپرست انتہا پسند امریکیوں اور بھارتیوں کے لئے قابل قبول ہوں۔ایک مسئلہ کشمیر کا ہے‘ جہاں پر عالمی طاقتیں یواین کی قراردادوں‘ تاریخی واقعات اورہندو پاک کے باہمی تنازعے کے موضوعات پر بات چیت کی راہیں نکالی جا سکیں۔ اس وقت کشمیر کا ایک سلگتا ہوا سوال ہے۔عالمی طاقتوں نے مسئلہ کشمیر کے حل پر مختلف موقف اختیار کررکھے ہیں اور وہ یہ بھی محسوس کرتے ہیں کہ تنازعہ کشمیر کا پر امن حل کا راستہ نکالا نہ گیا‘تو انتہائی تباہ کن نتیجہ برآمد ہو سکتا ہے۔اس بات کو عالمی امن پر اثر انداز ہونے والی تمام طاقتیں متاثر ہو سکتی ہیں‘جن امکانات کا میں نے ذکر کیا ہے‘ امید ہے کسی نہ کسی شکل میں‘ انہی میں سے کوئی راستہ نکلے گا۔