منتخب کردہ کالم

میجر منصور خان کی شہادت۔۔۔۔ عامر بن علی….مکتوب جاپان

عید کا دن خوشی کا تہوار ہوتا ہے مگر اس بار عید غم میں لپٹی آئی۔ پارا چنار‘ کوئٹہ اور احمد پور شرقیہ کے سانحات کی وجہ سے ملک کی فضا سوگوار سی تھی۔ عید کے دن دل افسردہ سا تھا۔ رسم دنیا نبھانے کے لئے ایک سکول کے ہم جماعت دوست کو عید کی مبارکباد دینے کے لئے فون کیا‘ مبارکبادوں کے تبادلے کے بعد میرے دوست نے استفسار کیا کہ اپنے منصور کا پتا چلا؟ میں نے کہا کیا مطلب؟ بتانے لگا کہ ابھی ابھی یہ خبر ملی ہے کہ وہ شہید ہوگیا ہے۔ ایک لمحے کے لئے تو مجھے اپنی سماعت پر اعتبار ہی نہیں آیا۔ بھلا کیسے ممکن ہے کہ زندگی سے بھرپور ایسا خوبصورت اور توانا فوجی جوان یوں اچانک یہ عالم رنگ و نو چھوڑ جائے۔ مگر راوی معتبر اور مشترکہ دوست تھا۔ شک کی گنجائش نہ تھی۔ بتانے لگا کہ بلوچستان میں ایک دہشت گردی کے واقعہ میں ہمارا ہم جماعت دوست میجر منصور خان جام شہادت نوش کرگیا ہے۔ قومی سلامتی کا معاملہ ہونے کے سبب تفصیلات بیان کرنا شاید مناسب نہیں ہوگا۔ عید کے دن اسے مکمل فوجی اعزاز کے ساتھ لاہور میں دفن کیا گیا۔
یادوں اور باتوں کا ایک لامتناہی سلسلہ ہے جو ذہن میں گردش کررہا ہے۔ مگر سب سے بڑھ کر اداس کر دینے والا خیال میجر منصور کی ماں کا ہے۔ منصور کی والدہ شعرو ادب سے بڑا لگاﺅ رکھتی ہیں۔ کسی زمانے میں ان کے پاس ایک بیاض ہوتی تھی۔ ان کا تعلق ایک علمی و ادبی گھرانے سے ہے۔ چالیس سالہ نوجوان بیٹے کی شہادت پر ان کے کیا جذبات ہوں گے۔ جس بیٹے کو وہ پیار سے ”شانی“ کہتی تھیں۔ سب سے بڑا بیٹا۔
کوئی تو روئے لیٹ کر جوان لاشوں سے
اسی لئے تو وہ بیٹوں کو مائیں دیتا ہے
پانچویں جماعت کے امتحانات کے دوران منصور سے پہلی ملاقات یوں ہوئی کہ ہمارا امتحانی مرکز ایک تھا۔ حسن اتفاق سے ہم چھٹی کلاس میں ایک ہی جماعت میں اکٹھے ہوگئے۔ سکول سے شروع ہونے والی یہ دوستی ہمیشہ قائم رہی۔ منصور اور اس کے بہن بھائی بڑی کلاسز میں جانے لگے تو اعلیٰ تعلیم کے حصول کیلئے ان کی فیملی میاں چنوں سے لاہور شفٹ ہوگئی۔ میاں چنوں میں ان کا شمار خوشحال اور تعلیم یافتہ گھرانوں میں ہوتا تھا۔ سکول مکمل کرنے کے بعد جب میںبھی لاہور منتقل ہوا تو ہماری پھر سے ملاقاتیں بحال ہوگئیں۔ پھر اسے فوج میں کمیشن مل گیا‘ جسے وہ ہمیشہ ایک اعزاز سمجھتا تھا۔ ایک بار میں نے اس سے فوج میں بھرتی ہونے کا سبب پوچھا تھا۔ کہنے لگا کہ یار! پیسے تو ساری دنیا ہی کماتی ہے‘ میں نے سوچا کہ کیوںنہ اس قوم اور دھرتی کی خدمت کی جائے جس کے ہم پر ان گنت احسانات ہیں۔ شاید یہی وہ سوچ اور طرز فکر تھا جس کے سبب اس نے اپنی شریک حیات کا انتخاب بھی پاک فوج میں خدمات سرانجام دینے والی ایک خاتون کا کیا۔ میجر منصور خان کی بیوی بھی فوج میں میجر ہے‘ دو ننھے بیٹوں اور ایک بیٹی کی پرورش اب اس اکیلی خاتون کے کندھوں پر ہے۔ دفاع وطن کی راہ پر درپیش خطرات کا میرے شہید دوست کو بڑی اچھی طرح اندازہ تھا مگر صاف دل کا یہ صاف گو سپاہی دلیر بہت تھا۔ خوف اس کی چمڑی میں شاید کبھی داخل ہی نہیں ہوا تھا۔ وہ ایک مسلمان اور پکا پاکستانی تھا۔ اللہ کے ان نیک بندوں میں سے تھا جن کا مطلوب شہادت ہوتا ہے‘ جنہیں مومن کہا جاتا ہے۔
شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن
نہ مال غنیمت نہ کشور کشائی
پاکستان میں دہشت گردی کے ناسور کو ختم کرنے کیلئے میجر منصور خان نے جو شہادت دی ہے‘ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ اس پاک سرزمین پر امن قائم کرنے میں مددگار اور فیصلہ کن ثابت ہو۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں میجر منصور اور میجر اظہرحسن جو میرے ہم مکتب دوست تھے‘ ان سمیت جتنے بھی گمنام سیاسی شہید ہوئے ہیں‘ ان کے خون کے طفیل اس ملک میں امن کا سورج ضرور طلوع ہوگا۔ وطن پر جاں نچھاور کرنے والے جوانوں کی شہادتیں رائیگاں نہیں جائیں گی۔ ان کے لہو سے فتح و نصرت کے پھول کھلیں گے اور پاکستان میں مستقل نوعیت کا امن قائم ہوگا۔