29 اور 30ستمبر کو بالترتیب منی ایپلس اور پٹس برگ میں آخری طے شدہ پروگرام تھے جب کہ یکم اکتوبر کی رات ’’اپنا‘‘ کے شکاگو چیپٹر کا مشاعرہ تھا جس کے بعد ہمیں بذریعہ نیو یارک اور استنبول واپسی کی فلائٹ لینا تھی۔ شکاگو کے تین روزہ تقریباً آرام دہ قیام اور عرفان کی مہمان نوازی نے کافی حد تک تھکن دور کر دی تھی چنانچہ یہ فیصلہ کیا گیا کہ منی ایپلس کا سفر ہوائی جہاز کے بجائے بذریعہ کار کیا جائے جو ملا جلا کر تقریباً سات گھنٹے کا بنتا تھا، ڈرائیونگ کی ذمے داری عزیزی نعیم اقبال نے اٹھائی جب کہ مشتاق سیفی اور ان کا صاحبزادہ ہم سفر ٹھہرے۔
راستہ نما مشین پر منزل کا پتہ فیڈ کیا گیا جو اب اسمارٹ فون کے اندر بھی شامل ہوتی ہے تو پتہ چلا کہ تقریباً ساڑھے چار سو میل کا سفر چھ گھنٹے میں طے ہو گا اور ایسا ہی ہوا البتہ برادر عزیز طارق میاں کے گھر پہنچتے پہنچتے مزید چالیس منٹ لگ گئے کہ وہ منی ایپلس شہر سے کچھ فاصلے پر تھا۔ مقامی منتظمین ڈاکٹر اشتیاق گوندل اور عامر جعفری کو ایئرپورٹ سے لے کر آ رہے تھے، اتفاق کی بات ہے دونوں گاڑیاں ایک ساتھ ہی اپنی پہلی منزل یعنی طارق کے دروازے پر پہنچیں جو اپنے احباب اور اہل خانہ سمیت دیدہ و دل فرش راہ کیے کھڑے تھے۔
طارق میرے برادر نسبتی اور فرسٹ کزن مجاہد نسیم کا بچپن کا دوست ہے اور گزشتہ کئی برس سے امریکا اور پاکستان کے درمیان محو سفر ہے کہ بزنس وہاں ہے اور دل یہاں۔ اس کا گھر ماشاء اللہ بہت خوب صورت اور بڑا ہے لیکن دل اس سے بھی زیادہ بڑا اور خوب صورت ہے کہ نہ اس نے خاطر داری میں کوئی کسر چھوڑی اور نہ دل داری میں۔ اس کی ساری فیملی ہوٹل کے بزنس میں ہے۔
ان دنوں وہاں کوئی انٹرنیشنل اسپورٹس ٹورنامنٹ ہو رہا تھا جس کی وجہ سے ہوٹلوں میں تل دھرنے کی جگہ نہیں تھی اس کے باوجود اس نے ہمارے لیے پانچ کمرے اپنے رمادا ہوٹل میں بک کر رکھے تھے لیکن اب ہوا یہ کہ لوکل میزبانوں نے اسے اپنی عزت کا مسئلہ بنا لیا اور کسی نہ کسی طرح ایک پاکستانی دوست شاہد صاحب کے ہوٹل میں ہمارے قیام کا اس دلیل کے ساتھ انتظام کر دیا کہ شاہد صاحب اسے اپنے لیے باعث اعزاز سمجھتے ہیں اور اگر ایسا نہ کیا گیا تو شاہد صاحب کا دل اور تقریب کے منتظم عزیزی صغیر کا بھرم ٹوٹ جائے گا جو میرے عزیز دوست اور ڈرامہ سیریل ’’وارث‘‘ کے ڈائریکٹر مرحوم نصرت ٹھاکر کا سگا بھتیجا تھا سو یہ طے پایا کہ درمیان کا رستہ نکال لیا جائے یعنی کھانا طارق میاں کی طرف اور رہائش صغیر اور شاہد صاحبان کی حسب مرضی۔
کولمبس اوہائیو کی طرح منی ایپلس بلکہ ریاست منی سوٹا میں بھی یہ پہلا باقاعدہ مشاعرہ تھا لیکن جس تیزی سے امریکا کی مختلف ریاستوں میں اردو بولنے اور سمجھنے والوں کے مراکز میں اضافہ ہو رہا ہے عین ممکن ہے کہ آیندہ چند برسوں میں مشاعرے کے حوالے سے مزید ایسے شہروں کے نام سننے میں آئیں جو اس سے قبل اس حوالے سے علاقہ غیر سمجھے جاتے تھے۔
مشتاق سیفی اور نعیم اقبال اینڈ کمپنی کو کسی اگلے پروگرام کے لیے ابھی دو دن یہیں رکنا تھا سو وہ ہمیں ایئرپورٹ ڈراپ کر کے واپس لوٹ گئے۔ طارق میاں اپنے برخوردار کے ساتھ آئے اور فلائٹ کے ٹائم تک اوور اے کپ آف کافی بغیر کسی طے شدہ ایجنڈے کے دنیا بھر کی باتیں کی گئیں۔ پٹس برگ کا نام میں نے پہلی بار مرحوم جمیل الدین عالی سے سنا تھا معلوم ہوا کہ یہ کسی زمانے میں امریکا کی صنعتی ترقی کا مرکز ہوا کرتا تھا۔
ہمارا ہوٹل ایک دریا جیسی نہر کے کنارے واقع تھا جس کے کناروں کو ملانے کے لیے پلوں کا جمعہ بازار لگا ہوا تھا اس تقریب کا اہتمام بھی آغائے مشکوک ثاقب عتیق کے ذمے تھا تجربہ بتاتا تھا کہ اس میں بھی کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی غیر متوقع بات ضرور ہو گی سو ایسا ہی ہوا۔ ہال میں پہنچ کر معلوم ہوا کہ اس تقریب کا انتظام ایک ایسی مقامی تنظیم کے ساتھ مل کر کیا گیا ہے جس کا کوئی واضح تعلق نہ تو فنڈریزنگ سے تھا اور نہ مشاعرے سے۔ کارنیگی سٹی کے میئر کو بھی مدعو کیا گیا تھا، معلوم ہوا کہ اس علاقے کا یہ نام کامیاب زندگی کے گر بتانے والے ڈیل کارنیگی کے بجائے ماضی کے ایک بہت بڑے صنعت کار کے نام پر تھا۔
ڈنر‘ مشاعرے کے آغاز سے قبل لگا دیا گیا تھا چنانچہ شروع شروع میں اکثر سامعین کا دھیان مشاعرے سے زیادہ اس کی طرف تھا البتہ آہستہ آہستہ ماحول بنتا چلا گیا اور دونوں کام گزارے لائق ہو گئے بیگم اور ڈاکٹر تقی کے عمدہ دیسی ناشتے کے بعد پھر ایئرپورٹ کا رخ کیا گیا بتائے گئے پروگرام کے مطابق ہمارے پاس صرف پٹس برگ پہنچنے کے بعد ہوٹل میں سامان رکھنے کا وقت تھا کہ اب تک ہر کا پروگرام سات بجے شروع ہو جاتا تھا لیکن وہاں پہنچ کر معلوم ہوا کہ ڈنر ساڑھے نو بجے شروع ہو گا کہ ’’اپنا‘‘ کی روایت کے مطابق اس کے ممبران نہ صرف لمبی لمبی تقریریں کرتے ہیں بلکہ مقررین کی تعداد بھی بہت زیادہ ہوتی ہے اور لطف کی بات یہ ہے کہ مقررین اور سامعین دونوں ایک دوسرے سے بے نیاز ہو کر وقت گزارتے ہیں۔
اب ہوا یہ کہ ساڑھے دس بجے یہ کہہ کر ڈنر کا وقفہ کیا گیا کہ ابھی کچھ تقریریں باقی ہیں پھر میوزک کا پروگرام ہو گا اور اس کے بعد مشاعرے کی باری آئے گی۔ اب کوئی مانے یا نہ مانے امر واقعہ یہی ہے کہ یہ مشاعرہ پونے ایک بجے رات شروع جو اپنی جگہ پر ایک ریکارڈ ہے کہ نصف شب کے بعد تک مشاعرے چلتے تو دیکھے تھے مگر یہ پہلا مشاعرہ تھا جس کا آغاز ہی اعلان کردہ دن سے اگلے دن ہوا اور اس کے باوجود یہ حسب پروگرام تھا۔
مزید حیرت کی بات یہ ہوئی کہ دو سو سے زیادہ سامعین آخر وقت تک موجود اور بیدار بھی رہے اور کھل کر داد بھی دیتے رہے برادرم فہیم حسب وعدہ اپنی بیگم کے ساتھ آئے حالانکہ وہ آج ہی صبح بھارت سے پندرہ گھنٹے کی فلائٹ کر کے پہنچے تھے ’’میری بات بیچ میں رہ گئی‘‘ ردیف والی غزل تقریباً ہر مشاعرے میں پڑی اور پسند کی گئی تھی لیکن یہاں اس کو سب سے زیادہ داد ملی اور یہ شعر تو بار بار سنا گیا کہ
مجھے وہم تھا ترے سامنے نہیں کھل سکے گی زباں مری
یقیناً بھی وہی ہوا‘ مری بات بیچ میں رہ گئی
نیو یارک میں برادرم عامر جعفری کی ہدایت پر جے ایف کے ایئرپورٹ کے بالکل قریب ایک ہوٹل بک کیا گیا تھا لیکن اس کی ہر چیز ہوائی اڈے سے بھی زیادہ پرانی تھی۔ ظرف غزل کی تنگنائی کا یہ عالم تھا کہ استری کی فولڈنگ غیر موجود تو تھی مگر اسے جہاں بھی رکھا جاتا گزرنے کا رستہ بند ہو جاتا تھا۔
اس دن صبح کا وقت برادرم ڈاکٹر سید نقوی اور دوپہر بھائی کیپٹن خالد شاہین بٹ کے نام تھی جو ان دنوں پاکستان میں اوور سیز پاکستانیوں کے سرکاری ادارے کے سربراہ ہیں اور اسی حوالے سے یہاں آئے ہوئے تھے یہ اور بات ہے کہ وہ برسوں سے یہاں مقیم ہیں اور ہم کئی بار ان کے کشمیر ریستوران میں ان کی میزبانی سے لطف اندوز ہو چکے ہیں جو اب اپنی قوی مصروفیات کی وجہ سے انھوں نے بند کر دیا ہے چنانچہ اس بار وہ ہمیں ایک عربی ریستوران میں لے گئے اب یہ ان کی صحبت کا اثر تھا یا وہ ریستوران واقعی بہت عمدہ تھا کہ زندگی میں پہلی بار عربی کھانے کا بغیر کسی تکلف کے مزا آیا۔
بعض اتفاقات بہت عجیب ہوتے ہیں جہاز میں میرے ساتھ والی سیٹ ایک انڈین نوجوان کی تھی میں نے اسے انور مسعود کے ساتھ سیٹ بدلنے پر آمادہ کرنے کے لیے گفتگو کا سلسلہ شروع کیا تو معلوم ہوا کہ وہ بھارتی سنگر سونو نگم کا سیکریٹری ہے جو ان دنوں مقبول پاکستانی گلوکار عاطف اسلم کے ساتھ مل کر امریکا میں شوز کا ایک سلسلہ کر رہا ہے۔ قارئین کو یاد دلاتا چلوں کہ امریکا آئے ہوئے ہمارے ساتھ والی سیٹ پر خود عاطف اسلم بیٹھا ہوا تھا۔ اور مزید لطف کی بات یہ ہے کہ عاطف کی طرح اس نوجوان کے ساتھ ہماری ہم سفری بھی صرف استنبول ایئرپورٹ تک تھی