منتخب کردہ کالم

موت کا سرکس .. کالم ابراہیم راجا

موت کا سرکس .. کالم ابراہیم راجا

موت کا ایک سرکس ہے ، ہر روزجہاں کرتب دکھانا پڑتا ہے، ہر پاکستانی کو ۔ کچھ مارے جاتے ہیں، باقیوںکو مہلت مل جاتی ہے، اگلے دن تک۔ صبح جو گھر سے نِکلا، شام کو اُس کا زِندہ سلامت لوٹنا معجزہ ہے ، معجزے مگر ہر روز کہاں ہوتے ہیں ۔ ہر دن ، ہر شہر سے ہم لاشیں اٹھاتے ہیں، ماتم اور موت کا سرکس بیک وقت جاری رہتا ہے۔
احمد پور شرقیہ میں لاشیں راکھ ہوئیں، چنگاریاں بجھ چُکیں، زندگی مگرہمیشہ سلگتی رہی گی، اُن کی جو جیتے جی مار ے گئے، جن کے پیارے زندہ بھسم ہوگئے۔برسہا برس یہ منظر ان کی آنکھوں میں گھومے گا، ڈرائونا خواب بن کر۔ قدرتی سانحوں پر کسی کا زور نہیں، حادثے مگر غفلت سے ہوتے ہیں، مجرمانہ غفلت سے۔ کوئلہ بنی دو سو لاشیں، دو سو سوال اپنے پیچھے چھوڑ گئیں، ایسے سوال جن کا جواب کبھی ملا ہے نہ ملے گا۔ آئل ٹینکر کیوں اورکیسے اُلٹا، ماہرین کی آرا پرمبنی رپورٹس میں اہم انکشافات کیے گئے ہیں۔ رپورٹس کے مطابق ٹینکر اوورلوڈ ہونے کے باعث غیر متوازن تھا۔اِس میں پچاس ہزا رلٹر پٹرول تھا، اتنے بھاری ٹینکر کو متواز ن رکھنے کے لیے بائیس پہیے درکار ہوتے ہیں، حادثے کا شکار ہونے والے ٹینکر کے لیکن صرف چودہ پہیے تھے۔ ٹینکر کو ہنگامی طور پر نسبتاً محفوظ طریقے سے روکنے والے”اے بی ایس‘‘ بریکس بھی نہیں تھے۔ اس کے عام بریکس بھی بظاہر ناقص یا بوسیدہ تھے۔یہ ٹینکر خطرناک اشیا کی ترسیل کے لیے مطلوبہ معیار پرپورا نہیں اترتا تھا ۔ قوانین کے مطابق اس ٹینکر میں ایک نہیں، دو ڈرائیورز ہونے چاہیے تھے ۔ٹینکر جب کراچی سے نکلا تو نیشنل ہائی وے اتھارٹی نے اسے چیک کیوں نہ کیا؟ کیا یہ تعین کیا گیا کہ ٹینکر میں تیل کی کتنی مقدار ہے؟ اس مقدار کے مطابق ٹینکر کے کتنے پہیے ہونے چاہیے؟ کیا ٹینکر کے پاس مطلوبہ معیار کا فٹنس سرٹیفکیٹ ہے؟ کیا یہ سب کچھ جانچنے کا نظام بھی موجود ہے یا نہیں؟ موٹر وے حکام کے مطابق ان کی ٹیم چھ بج کر بیس منٹ پر ٹینکر الٹنے کے مقام پرپہنچی، چھ بج کر بائیس منٹ پر پولیس کو بذریعہ فون اطلاع دی گئی ، متعدد کالز کے بعدچھ بج کر پچاس منٹ پر صاحب بہادرایس ایچ او جائے حادثہ پر پہنچے، دھماکا ہونے کے بعد۔ ابتدائی رپورٹ میں موٹروے پولیس کی سنگین غفلت بھی سامنے آئی۔ جائے حادثہ کے اطراف اگر حفاظتی حصار بنا لیا جاتا تو اتنا بڑا سانحہ نہ ہوتا۔ اب اُلٹا جل مرنے والوں پر سوال اٹھائے جا رہے ہیں، غربت یا لالچ نہیں ، یہ پورا نظام ان کا قاتل ہے ۔ کسی مہذب معاشرے میں اگر ایسا ہوتا تو ذمہ دار نشان عبرت بنا دیے جاتے، مقدمات درج ہو چکے ہوتے، گرفتاریاں ہو چکی ہوتیں، متعلقہ کمپنیوں پر پابندی لگ چکی ہوتی ،یہ مگر اپنا پاکستان ہے ، جہاں لاشیں سستی، چند لٹر پٹرول مہنگا ہے۔ اب تعزیت اور تحقیقات کے روایتی اور مصنوعی بیانات ہیں۔ کیا یہ پہلا سانحہ ہے جو اس قوم پر گزرا ہے ؟ ایک نہ ختم ہونے والی فہرست ہے ، اُن سانحات کی جو ہمیں خون کے آنسو رلا گئے، کبھی کسی نے اس خونخوار نظام کو بدلنے کی کوشش کی؟ یہاں حکومتیں بدلتی ہیں، چہرے بھی، نظام مگرنہیں بدلتا، اس لیے کہ نظام بدل گیا تو نیچے سے اوپر تک، سب کا ہفتہ وار، ماہانہ اور سالانہ”حِصہ‘‘ بند ہو جائے گا۔ 2011 میں کلر کہارمیں سکول بس حادثے نے کہرام مچا دیا۔ پکنک منانے والے 35ننھے فرشے ، موت کی وادی میں جا پہنچے ،جو بچ گئے وہ بھی لہو لہان۔ تحقیقات میں معلوم ہوا کہ بس 30برس پرانی تھی، رشوت لے کر اسے فٹنس سرٹیفکیٹ دیا گیا، 70افراد کی گنجائش والی بس میں 110بچے اور اساتذہ سوار تھے ۔چھ برس گزر چکے ، کیا اب بھی ہم ہر روز ایسی ہی کھٹارہ ، بوسیدہ اورہانپتی کانپتی بسیں سڑکوں پر دوڑتے نہیں دیکھتے ؟ گنجائش سے کہیں زیادہ لدی بسیں، جتنے مسافر بسوں کے اندر، اتنے ہی چھتوں پر۔ موت کی یہ سواریاں، ٹریفک پولیس، کمشنرز اور متعلقہ وزراسے کیسے اوجھل رہتی ہیں؟ پبلک ٹرانسپورٹ پر سفر کے لیے جان ہتھیلی پہ رکھناپڑتی ہے، مسئلہ صرف بوسیدہ بسوں اور ویگنوںکا نہیں، ان میں نصب ناقص سلنڈرز بھی بموں کی طرح پھٹتے رہتے ہیں۔ صرف گزشتہ دو برس میں اس قسم کے پچاس سے زائد واقعات ہو چکے ۔ کیا ایسے سلنڈرز بنانے اور لگانے والوں کے خلاف کوئی ملک گیر آپریشن کیا گیا؟ اگر کوئی ضابطہ اور قانون ہے تو اس پر عملدرآمد کون کرائے گا؟ ریل اور ہوائی جہازوںکے حادثات کی خوفناک شرح ہمارے سامنے ہے ۔
تحقیقات کا راگ تو بہت الاپا گیا، کوئی نتیجہ مگر نکلا؟ دنیا بھر میں حادثات کی تحقیقات کا مقصد کیا ہوتا ہے ؟ ذمہ داروں کا تعین، وجوہات کی نشان دہی ، پھر ایسا نظام بنانا کہ اسی قسم کا سانحہ دوبارہ نہ ہو۔ پاکستان میں یہ نظام کتنا موثر ہے، اس کا اندازہ صرف بھوجا ایئرلائن کے حادثے سے لگا لیں، اس حادثے کا شکار جہاز اٹھائیس سال پرانا تھا، جنوبی افریقہ میں مقامی روٹس پر اڑانے کے بعد یہ جہاز فضائی بیڑے سے نکال دیا گیا، بوسیدہ حالت میں اسے اس ایئرلائن نے خرید لیا، پھر موت کی اس جُھولے پر پاکستانیوں کو سوار کر دیا۔ایئرلائن کے پاس فٹنس سرٹیفکیٹ دینے والے ماہر انجینئرز تھے نہ پیشہ ور تکنیکی عملہ ۔ پاکستان میں سانحے بھی انوکھے اور نت نئے قسم کے ہوتے ہیں۔ چند روز پہلے مری میں” دیسی ڈولی‘‘ لفٹ گر گئی، جیتے جاگتے بارہ انسان لقمہ اجل بن گئے۔ ذاتی حیثیت میں یہ لفٹ لگانے اور چلانے کی اجازت کس نے دی؟ کوئی سرٹیفکیٹ یا لائسنس ؟ نگرانی کا کوئی نظام؟ پیسے بٹورنے والا لفٹ کا مالک کس کس کو حصہ پہنچاتا رہا؟ برسہا برس موت کے اس اڑن کھٹولے پر انتظامیہ کی نظر کیوں نہ پڑی؟ گائوں اور دیہات تو ایک طرف، شہروں میں بھی لہراتی بل کھاتی درجنوں ڈولی لفٹیں ہیں، صرف راولپنڈی کے نالہ لئی پر تین ایسی لفٹیں چل رہی ہیں، کوئی پوچھنے والا ہے؟ یا چند ٹکوں کی چکا چوند نے آنکھیں چندھیا رکھی ہیں؟ اس نظام کا مکروہ عکس مجید اچکزئی کی آنکھوں میں لہراتا ہے ، وہ مجید اچکزئی جو بلوچستان اسمبلی کا رکن ہے، جس نے ڈیوٹی پر موجود کانسٹیبل کو بے دردی سے کچل دیا، کوئی شرمندگی ہے اسے نہ افسوس۔ ڈھٹائی سے سینہ پھلا کر وہ عدالت آتا ہے، اسے ہتھکڑی لگانے کی کسی میں جرات نہیں، پوراسرکاری نظام اسے بچانے کی سرتوڑ کوششیں کر رہا ہے۔ بیچارے پاکستانی شاید بے موت مرنے کے لیے ہی پیدا ہوئے ہیں۔ حادثوں سے جو بچ جائیں، بم دھماکے انہیں نگل لیتے ہیں۔ عید پر پوری دنیا نے خوشی ، ہم نے سوگ منایا ۔پارا چنار سے کوئٹہ تک جھلسی لاشیں ہم اٹھاتے رہے، جو عید کے کپڑے لینے نکلے، وہ کفن میں لپٹے واپس آئے ،جو بچ گئے ، کوئی اور حادثہ ، سانحہ یا دھماکا اُن کا انتظار کر رہا ہو گا۔