’’موسٹ فیئر الیکشن‘‘ اور جنرل کیانی…رؤف طاہر
وہی بات جو معزول وزیر اعظم نے لندن میں کہی، بزرگ قانون دان پنجاب یونیورسٹی کے سینٹر فار سائوتھ ایشین سٹڈیز میں کہہ رہے تھے: ”یہ جیپ کا انتخابی نشان کس کا ہے؟‘‘۔ ”قابلِ اعتماد انتخابی عمل کے تقاضے‘‘ کے زیرِ عنوان اس سیمینار کا اہتمام الطاف صاحب کے پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف نیشنل افیئرز (پائنا) نے کیا تھا۔ جناب ایس ایم ظفر مہمان خصوصی تھے۔ صدارت کی نشست سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج جناب فقیر محمد کھوکھر کے حصے میں آئی۔ شہر کے اربابِ فکر و دانش کی کہکشاں سی تھی جو یہاں جگمگا رہی تھی، مثلا پلڈاٹ کے احمد بلال محبوب، سجاد میر، ڈاکٹر شفیق جالندھری، ڈاکٹر پروفیسر عنبرین جاوید، ڈاکٹر امان اللہ ملک، ڈاکٹر حسین احمد پراچہ، احسان وائیں، قیوم نظامی، محمد مہدی، ایڈووکیٹ ظہیر احمد میئر، پروفیسر ڈاکٹر سعد صدیقی اور بریگیڈیئر ریاض احمد طور۔
ہفتوں پہلے سے چودھری نثار علی خان کا واشگاف اعلان تھا کہ وہ مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ کے امیدوار ہیں، نہ اس کے محتاج… اس کے باوجود صلح جُو شہباز شریف یہ بات منوانے میں کامیاب رہے کہ مسلم لیگ (ن) کم از کم اتنا تو کرے کہ چودھری صاحب قومی و صوبائی اسمبلی کے جن جن حلقوں سے امیدوار ہیں، وہاں اپنے امیدوار کھڑے نہ کرے۔ اس اظہارِ خیر سگالی کے جواب میں چودھری صاحب کو پھوٹے منہ بھی، اظہارِ تشکر کے دو چار الفاظ کہنے کی توفیق نہ ہوئی۔ ان کی خود پسندی، خود پرستی کی آخری حد کو چھو رہی تھی۔ وہ انا کے کوہ ہمالیہ سے ایک قدم بھی نیچے آنے کو تیار نہ تھے۔ جواباً پارٹی کی غیرت نے بھی انگڑائی لی اور چودھری صاحب جن نشستوں سے امیدوار تھے، وہاں اپنے امیدوار کھڑے کر دیئے۔ حیرت ہے کہ چودھری صاحب نے اسے جان کا روگ کیوں بنا لیا؟ اب ان کی کوئی تقریر، کوئی بیان نواز شریف کے ذکرِ خیر کے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔ ان کی سابق جماعت نے اپنا جمہوری حق استعمال کیا‘ جسے چودھری صاحب اپنے ساتھ نواز شریف کی دشمنی قرار دے رہے ہیں۔ ماہرینِ نفسیات کے خیال میں چودھری صاحب نے اپنے حریف انجینئر قمرالاسلام (جو مسلم لیگ (ن) کا ٹکٹ پاتے ہی زیرِ عتاب آ گئے تھے) کے 12 سالہ صاحبزادے اور 17 سالہ صاحبزادی کو اپنے اعصاب پر سوار کر لیا ہے۔ نیب نے انتخابی امیدواروں کے خلاف کارروائی کو 25 جولائی تک ملتوی رکھنے کا اعلان کیا ہے‘ لیکن انجینئر قمرالاسلام اس رعایت کے مستحق نہیں۔ چودھری صاحب نے مریم نواز کے بارے میں فرمایا تھا: بچے بچے ہوتے ہیں اور یہ غیر سیاسی ہوتے ہیں۔ اب چودھری صاحب کے زیر حراست انتخابی حریف کے ”غیر سیاسی‘‘ بچے، اپنے باپ کی انتخابی مہم چلا رہے ہیں اور چودھری صاحب کا ناک میں دم کئے ہوئے ہیں۔
آزاد امیدوار کے طور پر چودھری صاحب نے اپنے لئے ”جیپ‘‘ کا انتخابی نشان پسند کیا تھا (نکتہ وروں نے اس میں بھی نکتہ آفرینی کا سامان ڈھونڈ لیا) کئی اور مردانِ آزادی کو بھی یہی نشان الاٹ ہو گیا۔ ان میں آخری دن مسلم لیگ (ن) کا ٹکٹ واپس کرکے، اسے Ditch کرنے والے سیاسی وارداتیے بھی تھے۔ ہمیں سب سے زیادہ حیرت اپنے آبائی علاقے ہارون آباد کے شوکت بسرا پر ہوئی۔ بھٹو اور بے نظیر کے جیالے نے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں، ٹاک شوز میں بھی وہ جذباتی ہو جاتے تھے لیکن اب انہوں نے بھی اپنے نئے سیاسی سفر کے لیے ”جیپ‘‘ کا انتخاب کیا ہے۔ پیپلز پارٹی پنجاب کے صدر منظور وٹو کے بارے میں ہم معلوم نہیں کر سکے کہ کس نشان پر الیکشن لڑ رہے ہیں۔ اپنے صاحبزادے اور صاحبزادی کو پی ٹی آئی کے ٹکٹ دلوا کر وہ خود آزاد امیدوار ہیں۔ آصف زرداری گزشتہ شب ایک انٹرویو میں بتا رہے تھے کہ کہنے والوں نے وٹو صاحب سے کہا کہ اس عمر میں آپ شاید آخری الیکشن لڑ رہے ہیں، پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر ہار جائیں گے یا ہروا دیئے جائیں گے۔ اس رسوائی سے بچنا ہے تو آزاد امیدوار کے طور پر الیکشن لڑیں… ”یہ ہروا دینے والی بات کس نے کہی؟‘‘ زرداری صاحب نے مسکراتے ہوئے جواب دیا، ”اللہ جانے کس نے کہی‘‘۔
بہت سے مردانِ آزاد کے ایک ہی ٹکٹ پر الیکشن لڑنے (یا لڑوانے) کی حکمتِ عملی ماضی میں بھی بروئے کار آتی رہی، یہ الگ بات کہ یہ تند و تیز سیاسی لہر میں ڈوب جاتی رہی۔ صدر فاروق لغاری نے فروری 1997ء کے الیکشن میں اپنے چالیس رفقا ”تانگے‘‘ کے انتخابی نشان پر میدان میں اتارے تھے۔ یہ تمام نواز شریف کی سیلابی لہر کی نذر ہو گئے۔ اکتوبر 2002ء کے الیکشن میں ڈکٹیٹر نے اپنی قاف لیگ کے علاوہ کچھ امیدوار ”چاند‘‘ کے نشان پر کھڑے کئے تھے، ان میں سے بیشتر بے نام و نشان رہے۔
اب ”جیپ‘‘ کا انتخابی نشان ہے۔ بزلہ سنج حامد ولید اس ”جیپ پالٹکس‘‘ کو ”چیپ پالٹکس‘‘ قرار دیتے ہیں۔ ”پائنا‘‘ کے سیمینار میں جناب ایس ایم ظفر نے قانونی نکتہ اٹھایا، آزاد امیدواروں میں سے ہر ایک کو الگ الگ انتخابی نشان ملنا چاہئے۔ ایک سے زائد امیدواروں کو ایک ہی انتخابی نشان صرف اس صورت میں مل سکتا ہے کہ وہ کسی ایک سیاسی جماعت کے امیدوار ہوں۔ یہ ”جیپ‘‘ والے کس کے امیدوار ہیں؟
25 جولائی کے عام انتخابات کے لیے انتخابی مہم کا آغاز ہو چکا۔ اب اس میں صرف تین ہفتے باقی ہیں۔ اس کے باوجود سیاسی و صحافتی حلقوں میں یہ سوال موجود ہے کہ کیا انتخابات اسی تاریخ کو ہو جائیں گے۔ جناب ظفر کا کہنا تھا: یہ ایک بار ملتوی ہو گئے تو شاید ان کا دوبارہ انعقاد جلدی نہ ہو سکے۔ اور یہ بھی کہ ایک بار ملتوی ہونے کے بعد یہ جب بھی ہوئے، ناقابلِ اعتماد ہوں گے… وہ اس یقینی خدشے کا اظہار بھی کر رہے تھے کہ انتخابات کا التوا، ملک کو سنگین سیاسی بحران سے دوچار کر دے گا۔ موضوعِ زیر بحث کے حوالے سے ان کا کہنا تھا: یہ عالمی مبصرین کے کہنے سے، چیف الیکشن کمشنر، آرمی چیف، عزت مآب چیف جسٹس یا نگرانوں کی یقین دہانیوں سے ”قابل اعتماد‘‘ نہیں بنیں گے‘ اس کے لیے اصل چیز عوام کا تاثر ہو گا۔ زبانِ خلق ہی نقارہ ٔ خدا ہو گی۔
جسٹس (ر) فقیر محمد کھوکھر، 2007ء میں جسٹس خلیل الرحمن رمدے والے بنچ میں شامل تھے جس نے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کے خلاف 9 مارچ کے صدارتی حکم کو کالعدم قرار دے کر، چیف کی بحالی کا حکم صادر کیا تھا۔ جسٹس فقیر محمد کھوکھر کے اختلافی نوٹ میں ان کے اپنے دلائل تھے۔ اپنے خطبۂ صدارت میں انہوں نے بھی انتخابات کے بروقت اور قابل اعتماد انعقاد پر زور دیا۔ انہوں نے یہاں دو دلچسپ واقعات بھی بیان کئے جن کے وہ عینی شاہد تھے… بے نظیر کی دوسری حکومت کی برطرفی کے بعد، فاروق لغاری کے ایوانِ صدر میں ایک رائے 90 دن کی بجائے، اڑھائی تین سال کے بعد نئے انتخابات کرانے کی بھی تھی۔ ہمیں یاد آیا، انہی دنوں ایک دینی سیاسی جماعت کے امیر نئے انتخابات سے قبل، نئی ووٹرز لسٹوں، نئی حلقہ بندیوں اور نئے کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈوں کی تیاری کا مطالبہ کر رہے تھے۔ ایک پریس کانفرنس ہم نے نہایت ادب و احترام سے عرض کیا کہ 90 دن میں نئے انتخابات کا انعقاد آئینی تقاضہ ہے۔ آپ جو وسیع و عریض ایجنڈا تجویز کر رہے ہیں، یہ اس دوران کیسے ممکن ہو گا؟ امیرِ محترم کو اعتراف تھا کہ اس کے لیے کم از کم دو اڑھائی سال درکار ہوں گے اور یہ مدت سپریم کورٹ سے حاصل کی جا سکتی ہے۔ جسٹس فقیر محمد کھوکھر، نگران وزیر اعظم ملک معراج خالد کے ذاتی دوستوں میں شمار ہوتے تھے۔ ان کے بقول ملک صاحب 80 روز کے اندر انتخابات کے انعقاد پر مصر تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ انتخابات، خدانخواستہ کسی بد ترین آفتِ ارضی و سماوی ، یہاں تک کہ پاک بھارت جنگ کی صورت میں بھی ملتوی نہیں ہونے چاہئیں۔ وہ انتخابات کے لیے اعلان کردہ تاریخ،6 فروری سے ایک دن بھی آگے نہیں جائیں گے اور استعفیٰ دے کر گھر چلے جائیں گے۔ انتخابات کے التوا کی خواہش دم توڑ گئی۔ التوا کا مطالبہ کرنے والی جماعت نے بائیکاٹ کا اعلان کر دیا۔ ایک اور اہم بات جسٹس کھوکھر نے 2013ء کے انتخابات کے حوالے سے بتائی۔ یہ کہ آرمی چیف جنرل کیانی نے تمام ایجنسیوں کے سربراہوں کو بلایا اور انہیں ہدایت کی کہ الیکشن میں کوئی مداخلت نہ ہو اور انہوں نے اس پر عمل درآمد بھی کروایا۔ جسٹس کھوکھر انہیں پاکستان کی تاریخ کے ”موسٹ فیئر الیکشن‘‘ قرار دے رہے تھے۔