مولانا عبیداللہ کی طرح کا کوئی شخص اب لاہور تو کیا پاکستان بھر میں بھی شاید ہی موجود ہو۔ ایسے لوگ کتابوں میں ملتے ہیں یا روایتوں میں۔ یہ جو منہ سے پھول جھڑنے کا محاورہ ہے، بہت سوں کے بارے میں استعمال کیا جاتا ہے، لیکن اگر سو فیصد کسی پر منطبق ہوتا تھا تو وہ مولانا تھے۔ ان کے پاس بیٹھ جائیں تو اٹھنے کو جی نہیں چاہتا تھا۔ بات سے بات نکالتے، شعر پر شعر سناتے چلے جاتے۔ اردو تو کیا عربی اور فارسی بھی ان کے گھر کی باندیاں تھیں۔ ضرب الامثال اور محاورے ان کو ازبر تھے۔ قدم قدم پر اپنے والد صاحب کا حوالہ دیتے اور ماحول معطر کر دیتے۔ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی کے ذخیرہء افکار سے بھی ان کا استفادہ کم نہیں تھا، ان کے والد مفتی محمد حسن نے ان ہی سے فیض پایا اور ایک عالم کو اپنا گرویدہ بنایا تھا۔ ان کی مجلس میں ہر شے بھول جاتی، بس خدا یاد رہ جاتا۔ آخرت کا ذکر ہوتا اور اس دنیا کا تذکرہ جہاں اس دنیا کے بعد قدم رکھنا ہے اور مستقل طور پر قیام کرنا ہے۔ ایمان کو بچا بچا کر قبر تک لے جانے کی تلقین بس ان پر ختم تھی۔ کچھ عرصہ پہلے تک مہینے، دو مہینے میں ہمارے دفتر تشریف لاتے اور در و دیوار کو منور کرتے چلے جاتے۔ سیاست سے انہیں کوئی رغبت نہیں تھی۔ اہلِ اقتدار سے کوئی تعلق جوڑنے کا شوق تھا، نہ اہل اختلاف سے۔ کسی مسلک، کسی مکتب فکر کی تنقیص بھی ان کی مجلس میں ممکن نہیں تھی۔ اختلاف کا بیان بڑی احتیاط سے ہوتا۔
مفتی محمد حسن کی صحبت سے استفادے کا موقع تو نہیں ملا، لیکن ان کی قائم کردہ جامعہ اشرفیہ سب کے سامنے ہے۔ یہ ایک ایسی دینی درسگاہ ہے، جس کے طلبہ جتھے بنا کر مخالفین سے متّھا نہیں لگاتے۔ انہیں دلوں کو جوڑنے کا درس دیا جاتا ہے توڑنے کا نہیں۔ مفتی صاحب مرحوم کے بعد ادارے کی نظامت ان کے بڑے بیٹے (مولانا) عبیداللہ کے سپرد ہوئی، ان کے دو چھوٹے بھائی مولانا عبدالرحمن اشرفی اور مولانا فضل الرحیم ان کے دست و بازو تھے۔ اپنے بلند مرتبت والد کو انہوں نے نگاہوں سے اوجھل نہیں ہونے دیا۔ اپنے آپ کو کسی فرقے تک محدود نہیں کیا۔ فرقہ بازی ان کے ہاں حرام رہی۔ مولانا عبدالرحمن چند برس پہلے اللہ کو پیارے ہو گئے تھے، مولانا عبیداللہ اب ان سے جا ملے ہیں۔ ان کی مسند پر اب مولانا فضل الرحیم کے سائے میں ان کے صاحبزادے جلوہ افروز ہیں اور ان کے نقوش قدم کی حفاظت کر رہے ہیں۔
مولانا عبیداللہ نے پچانوے برس اس دنیا میں گزارے اور کچھ عرصہ پہلے تک ضعف ان پر غلبہ نہیں پا سکا تھا۔ وہ حدیث پڑھاتے تھے، حافظ قرآن تھے، فقہ کے غواص تھے، تلاوت کرتے تو یوں معلوم ہوتا قرآن نازل ہو رہا ہے۔ قاری نظر آتا ہے، حقیقت میں ہے قرآن۔ انہوں نے ہزاروں شاگرد دنیائے اسلام کو عطا کئے:
رہِ یار ہم نے قدم قدم تجھے یادگار بنا دیا
جنرل پرویز مشرف نے اقتدار پر قبضہ کیا تو ہمارے ادارے پر گویا پہاڑ ٹوٹ پڑے۔ آمدنی اور اخراجات میں توازن قائم رکھنا ممکن نہ رہا۔ جان کے لالے پڑے ہوئے تھے اور ہم ہر روز آمدنی میں اضافے کی تدبیریں سوچتے تھے۔ کبھی ایک منصوبہ بناتے، کبھی دوسرا۔ آستین میں سانپ سرایت کئے ہوئے تھے، ان کی کوشش تھی کہ اقتدار کا سارا غیظ و غضب ہماری طرف متوجہ ہو جائے۔ ایک دن مولانا عبیداللہ تشریف لائے پوچھا کہ حالات کیسے ہیں؟ جواب دیا، بہت مخدوش، دعا فرمائیے۔ کچھ تفصیل بیان کی تو کہنے لگے، میری شادی ہوئی تو تنخواہ (شاید) تیس روپے تھی۔ والد صاحب مدرسے کے مہتمم تھے، ان کے حکم کے بغیر اضافہ ممکن نہیں تھا۔ ان کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ موجودہ تنخواہ میں گزر اوقات مشکل ہو رہی ہے۔ بات سن لی لیکن کوئی جواب نہیں دیا۔ کچھ دیر بیٹھ کر خالی ہاتھ واپس آ گیا۔ چند روز بعد پھر گزارش کی، لیکن پھر اسے لائق اعتنا نہ سمجھا گیا۔ چند روز اور گزر گئے، ایک دن مجلس میں حاضر تھا، میری طرف دیکھے بغیر فرمانے لگے، لوگ بھی خوب ہیں، جس بات پر اختیار ہے وہ کرتے نہیں ہیں اور جس پر اختیار نہیں ہے، اس کا تقاضا کرتے چلے جاتے ہیں۔ اخراجات کم کرنے کا اختیار ہے، جبکہ آمدنی میں اضافہ اختیار میں نہیں ہے۔ اخراجات میں کمی کی طرف توجہ نہیں کرتے اور آمدنی میں اضافے کے تقاضے کر رہے ہیں۔ مولانا عبیداللہ یہ واقعہ سنا کر کہنے لگے‘ میں نے سمجھ لیا کہ جواب مل گیا ہے۔ وہاں سے واپس آ کر اپنے اخراجات کا جائزہ لینا شروع کیا، اور جہاں جہاں کٹوتی ممکن تھی کر ڈالی، یوں ایک ہی لمحے میں خوش حال ہو گیا کہ اخراجات کے مقابلے میں آمدنی زیادہ ہو گئی تھی یا یہ کہئے کہ کم نہیں رہی تھی۔
مولانا کے رخصت ہوتے ہی ہم سر جوڑ کر بیٹھ گئے رفقاء کو بتایا کہ مولانا عبید اللہ مسئلہ حل کر گئے ہیں۔ آمدنی میں اضافے کی تدبیریں تو کامیاب نہیں ہو پا رہیں مستقبل میں اس حوالے سے کوئی بات یقین کے ساتھ نہیں کہی جا سکتی اس لئے اخراجات میں کمی کرنا ہو گی۔ مارکیٹنگ اور حسابات کے وہی ذمہ دار جو اخراجات میں کمی کی بات سن کر نفی میں سر ہلا دیتے تھے‘ خاموش ہو گئے۔ چند روز میں ماہانہ اخراجات میں کئی لاکھ کی کمی کر دی گئی… بہت سی دوسری کٹوتیوں کے ساتھ ساتھ ایک خاص حد سے زیادہ تنخواہ کو بھی پچیس فیصد کم کرنے کا فیصلہ ہوا۔ کارکنوں کا اجلاسِ عام طلب کر کے اس کی منظوری لی گئی۔ یہ پچیس فی صد کٹوتی ایک عرصہ تک جاری رہی، اسے ادارے نے اپنے ذمے قرض قرار دے لیا۔ حالات بہتر ہوئے تو قرض کی یہ رقم ادا کر دی گئی اور سابقہ تنخواہیں بھی بحال ہو گئیں۔
مولانا عبیداللہ نے بجٹ کو متوازن کرنے کا جو راستہ دکھایا، وہ افراد اور اداروں ہی کے نہیں، ملکوں اور قوموں کے حق میں بھی نسخہء کیمیا ہے۔ قومی المیہ ہے کہ ہم نے اپنے اخراجات میں بے تحاشہ اضافہ کر لیا ہے، اور انہیں پورا کرنے کے لئے کشکول اٹھائے پھر رہے ہیں۔ آمدنی کو اخراجات کے برابر لانا تو آسان نہیںہوتا، لیکن اخراجات کو تو آمدنی کے مطابق کرنے میں کوئی بڑی مشکل درپیش نہیں ہونی چاہئے۔ مولانا عبیداللہ کی یہی ایک بات اگر پلّے باندھ لی جائے تو ہمارے اندھیرے جگمگا اُٹھیں گے۔