منتخب کردہ کالم

مولانا کا یومِ جدوجہد!….رؤف طاہر

مولانا کا یومِ جدوجہد!….رؤف طاہر

مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح اور حسین شہید سہروردی‘ محفوظ نہ رہے‘ تو بیچارے ”مولانا‘‘کیا بیچتے ہیں؟ بانیٔ پاکستان کی ہمشیرہ محترمہ 2جنوری1965ء کے صدارتی انتخاب میں پاکستان کے پہلے آمر کے مقابل‘ حزب اختلاف کی امید وار تھیں۔ انتخابی مہم کی ویڈیو کلپس یوٹیوب پر ملاحظہ کی جاسکتی ہیں‘ جن میں فیلڈمارشل صاحب کی ہر تقریر میں کچھ اس طرح کے الفاظ ہوتے: اپوزیشن توقع رکھتی ہے کہ ہم پھر ہندوستان کے غلام ہوجائیں‘ یہ کہتی ہے کہ پاکستان ‘انڈیا کوبیچ دو‘ اس کا غلام بنادو۔ ایوب خان کوتو پھر بھی کچھ احتیاط ملحوظ رہتی‘ اس کے وزراء کو تو اخلاقیات کی ادنیٰ سی قدر کا لحاظ بھی نہ ہوتا۔
حسین شہید سہروردی مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان رابطے کا مضبوط ترین پُل تھے۔ بنگالی نژاد لیڈراِدھر بھی کم پاپولر نہ تھے ‘1956ء کے آئین کی منظوری کے بعد وزیر اعظم بھی رہے‘ نواب زادہ نصر اللہ خان سمیت مغربی پاکستان کے سیاسی لیڈروں کی لمبی فہرست تھی‘ جو عوامی لیگ سے وابستہ تھی۔ حسین شہید سہروردی کا شمارملک کے نامور وکلا میںہوتا تھا؛ چنانچہ سیاسی دوروں کے علاوہ اپنی پیشہ وارانہ مصروفیات کے سلسلے میں بھی مغربی پاکستان آ تے رہتے۔ جنوری1962ء میں ڈھاکا سے کراچی آئے ہوئے تھے کہ سکیورٹی آف پاکستان ایکٹ کے تحت بغیر مقدمہ چلائے ایک سال کے لیے نظر بند کردیئے گئے۔ لاہور ہائیکورٹ میں حبس بے جا کی درخواست دائر کی گئی تو نیا آرڈیننس آگیا‘ سکیورٹی ایکٹ کے گرفتار شدگان کو عدالتی ریلیف سے محروم کردیا گیا۔ سقوط مشرقی پاکستان کے بعد بھٹو صاحب کے نئے پاکستان میں سیاسی مخالفین کے خلاف ڈیفنس آف پاکستان رولز کے تحت مقدمات روزکا معمول تھے۔
گزشتہ بدھ کی سہ پہر اسلام آباد الیکشن کمیشن کے سامنے احتجاجی مظاہرے سے مولانا کے خطاب پر (تاحال) کوئی قانونی کارروائی توعمل میں نہیں آئی؛ البتہ ہمارے کچھ تجزیہ کار اور تبصرہ نگار دوستوں نے انہیں سان پر رکھ لیا ہے ۔وہ اسے مولانا کے غصے کا ردعمل قرار دے رہے ہیں۔ اپنے خطاب میں مولانا نے کہا: ہم اس 14اگست کو ‘یوم جدو جہد‘ کے طور پر منائیں گے ۔ان کا زور جشن ِ آزادی کی بجائے یوم جدوجہد پر تھا۔ ان مقاصد کے لیے جدوجہد ‘جو قیام پاکستان کے 71سال بعد بھی تشنۂ تکمیل ہیں‘اوران میں آزادانہ رائے دہی کے ذریعے اپنے حکمرانوں کا انتخاب بھی تھا۔ قائد اعظمؒ نے اپنے خطابات میں اس کے لیے ”مسلم ڈیموکریسی‘‘ کی اصطلاح استعمال فرمائی۔ قیام پاکستان کے بعد دستور ساز اسمبلی میں بانیانِ پاکستان نے قرار دادِ مقاصد کی صورت میں اس کے خدوخال واضح کردیئے‘اس میں خدائے بزرگ وبرتر کو ریاستِ پاکستان کا مقتدرِ اعلیٰ تسلیم کرتے ہوئے ‘ اس اقتدارِ اعلیٰ کو ایک مقدس امانت قرار دیا گیا‘ جسے عوام کے منتخب نمائندے استعمال کریں گے۔(ظاہر ہے‘ یہ نمائندے عوام کی آزادانہ رائے سے منتخب ہوں گے اور یوں مملکتِ خداداد میں کسی بھی نوع کی سیاسی وغیر سیاسی آمریت کا پتہ کاٹ دیا گیا)
ہم نے جب سے شعور سنبھالا ‘ 14اگست کے یوم آزادی اور 23مارچ کے یوم پاکستان پر سیاسی قیادت کے جوبیانات اور پیغامات پڑھتے ‘ سنتے آرہے ہیں‘ ان میں پاکستان کے بنیادی مقاصد کے لیے جدوجہد کے عزم کااظہار بھی ہوتا ہے۔ بعض احباب اسے ”یومِ تجدید ِ عہد‘‘ کا عنوان بھی دیتے ہیں‘ استعمار کے عزائم کو ناکام بنانے‘ غیروں کی اقتصادی غلامی سے نجات حاصل کرنے اور استحصالی نظام کا شکنجہ توڑنے کی جدوجہد کا عزم۔ اپنے لڑکپن میں ہم اس طرح کے الفاظ بھی سنتے رہے‘گور ے چلے گئے۔ اب ہمیں ان کے جانشین ”کالے انگریزوں‘‘ سے آزادی حاصل کرنا ہے۔ تو کیا یہ سب کچھ14اگست کی نفی ہوتاہے؟گزشتہ روز جناب سراج الحق نے فرمایا‘ 14اگست 1947ء کو پاکستان ایک واضح مقصد اور نصب العین کے لیے بناتھا کہ انسانوں پر انسانوں کی خدائی نہ ہواور اللہ کا نظام غالب ہو‘لیکن گزشتہ70برسوں سے مختلف ناموں سے یہاںوہی طبقہ مسلط ہے‘ جو ایسٹ انڈیا کمپنی کا تسلسل ہے۔(اور ہمیں اس سے نجات کے لیے جدوجہد کرنا ہے)
قیام پاکستان سے قبل برصغیر میں مسلمانوں کے محفوظ مستقبل کے حوالے سے کس کی کیا سوچ تھی‘ یہ سب تاریخ کا حصہ ہے۔ 14اگست1947ء کے ساتھ یہ باب بند ہوچکا ۔ خود بانیٔ پاکستان نے خالق دینا ہال کراچی میں آل انڈیا مسلم لیگ کے آخری اجلاس سے خطاب میں نئی سیاست کی بات کی۔ خلیق الزمان چودھری پاکستان مسلم لیگ کے کنوینئر مقرر ہوئے‘ انڈین مسلم لیگ کی ذمہ داری نواب محمد اسماعیل خان کے سپرد ہوئی۔ ادھر کے مسلمانوں کے لیے قائد اعظم کا پیغام تھا کہ ہندوستان کے آئین وقانون کی حدود میں اپنا سیاسی کردار ادا کریں ۔ ادھر پاکستان میں نئی سیاست کرنے کا حق ان مسلمانوں کے لیے بھی تھا ‘جنہیں تقسیم برصغیر سے اختلاف رہاتھا۔
مولانا کے فکری اجداد نے قیام پاکستان کی مخالفت کی اور ان کے سیاسی مؤقف کو برصغیر کے مسلمانوں کی عظیم اکثریت نے مسترد کردیا‘ لیکن ان کی استعمار دشمنی اور تحریک آزادی میں ان کی قربانیاں بھی تو تاریخ کا حصہ ہیں‘ اور یہ بھی کہ مولانا کاسارا دیوبندی مکتب ِفکر‘قیام پاکستان کا مخالف نہیں تھا۔ تقسیم کی مخالف جمعیت علماء ہند کے مقابل مسلم لیگ کی مؤید جمعیت علماء اسلام بھی دیوبندی اکابر پر ہی مشتمل تھی۔ 14اگست1947ء کو کراچی میں قومی پرچم لہرانے والے مولانا شبیر احمد عثمانی اور ڈھاکہ میں مولانا ظفراحمد عثمانی بھی اسی مکتب فکر سے تعلق رکھتے تھے۔ قائد اعظم کا جنازہ بھی تو مولانا شبیر احمد عثمانی ہی نے پڑھا یا تھا۔
یہ بجاکہ مولانا کے والد مفتی محمود کانگریس کی حامی جمعیت علماء ہند سے وابستہ تھے‘ لیکن تب دیوبند کے علما ء میں ان کی حیثیت Back Bencherسے زیادہ کیا تھی؟ ناقدین مفتی صاحب سے منسوب ایک فقرے کا عموماً حوالہ دیتے ہیں ”ہم پاکستان بنانے کے گناہ میں شریک نہیں تھے‘‘ مفتی صاحب نے یہ بات کب اور کہاں کہی؟ کہا جاتا ہے کہ چودھری ظہور الٰہی شہیدکے ہاں سیاسی رہنمائوں کے اجلاس میں معروف مسلم لیگی رہنما ملک محمد قاسم (مرحوم) پاکستان کے حالات کی سنگینی پر کچھ زیادہ ہی جذباتی ہوگئے۔ ( وہ عموماً جذباتی ہوجاتے تھے) اور فرمایا:یوں لگتا ہے ‘جیسے ہم نے پاکستان بنا کر کوئی گناہ کیا ہو۔ اس پر مفتی صاحب نے ہنستے ہوئے کہا ”خدا کا شکر ہے‘ ہم اس گناہ میں شریک نہیں تھے‘‘ اتنی سی بات تھی‘ جسے افسانہ کردیا۔1972ء میں مفتی صاحب صوبہ سرحد میں نیشنل عوامی پارٹی اور جمعیت علماء اسلام کی مخلوط حکومت کے سربراہ بنے‘ تو پہلا اعلان جو کیا‘ وہ صوبے میں اُردو کو سرکاری زبان بنانے کا تھا۔(یہی اعلان بلوچستان میں عطااللہ مینگل کی حکومت نے کیا‘ وہاں بھی نیپ اور جمعیت کی مخلوط حکومت تھی۔ بھٹو صاحب کی پیپلز پارٹی کی حکومت نے سندھ میں سندھی کو سرکاری زبان بنانے کا اعلان کیا تھا‘ جس پر سندھ کئی روز لسانی فساد کا شکار رہا) 1973ء کے آئین کو اسلامی رنگ دینے میں مفتی صاحب کی سعی وکاوش سے کسے انکار ہوگا؟ پی این اے کی تحریک نظام مصطفی(1977ء )کی قیادت کا اعزاز بھی مفتی صاحب ہی کے حصے میں آیا تھا۔
ہم مولانا کے ترجما ن ہیں‘ نہ وکیل‘ ہم یہ کالم لکھ رہے ہیں‘ تو ضروری نہیں کہ ہمیں ان کے طرزِ سیاست سے سوفیصد اتفاق ہو۔مختلف ادوار میں ان کی سیاسی حکمت عملی سے اختلاف کا حق بھی اپنی جگہ۔مشرف دور میں17ویں ترمیم کی منظوری میں مولانا کی زیر قیادت مجلس عمل کا کردار بھی محل نظر تھا‘ لیکن مولانا اور ان کی جماعت کا یہ احسان ہی کیا کم ہے کہ ایسے عالم میں جب ان کے مکتب فکر کے بعض نوجوانوں نے ہتھیاروں کے ذریعے ” تبدیلی‘‘ کی حکمت عملی اختیار کرلی تھی(تحریک طالبان پاکستان)مولانا اور ان کی جماعت نے نہ صرف ان کی تائید سے انکار کیا‘ بلکہ1973ء کے آئین سے وابستگی اور وفا داری میں زرہ برابر فرق نہ آنے دیا۔ بلوچستان میں ”ناراض بلوچوں‘‘ کی مسلح کارروائیوں کے مقابل بھی‘ وہ پاکستان کی بات کرتے رہے۔مولانا اپنے ہی برگشتہ نوجوانوں کے دہشت گردحملوں کی ز د میں بھی آئے‘ لیکن اپنے سیاسی مؤقف (آئین کے مطابق تبدیلی)سے دستبردار نہ ہوئے۔اس کے باوجود وہ اپنی حب الوطنی کا سرٹیفکیٹ کہاں سے لائیں‘ اور کیوں لائیں؟؟