موگورا تائجی….حسنین جمال
وہ گیم دیکھی ہے آپ نے وہ جو بچوں کے پلے لینڈز میں اکثر موجود ہوتی ہے۔ جس میں ایک چھوٹی سی میز کے اندر دس گول خانے بنے ہوتے ہیں، ہر خانے میں سے ایک کارٹون سر نکالتا ہے اور اسے فوراً نرم سا فوم کا ہتھوڑا مار کے واپس اندر بھیجنا ہوتا ہے؟ اسے جاپان میں ”موگورا تائجی‘‘ کہتے ہیں۔ 1976ء میں اسے ایجاد کرنے والے کا خیال تھا کہ بس دوسری آرکیڈ گیمز کی طرح یہ بھی ایک عام سی گیم ہو گی اور لڑکے بالے اسے کھیل کے خوش ہو جایا کریں گے لیکن نتیجہ اس سے ہٹ کے تھا، آتے ساتھ ہی یہ گیم سوپر ہٹ بن گئی۔ لوگ اسے کھیل کے ٹینشن اتارنے لگے اور یہ پوری دنیا میں ”وھیک اے مول‘‘ کے نام سے مشہور ہو گئی۔ ہوتا اصل میں یہ ہے کہ دماغ اور ہاتھوں کا آئیڈیل تال میل اس کھیل کے لیے ضروری ہوتا ہے۔ بندہ مکمل کنسنٹریشن کے بغیر اسے نہیں کھیل سکتا۔ آپ جیسے جیسے سر اٹھانے والے کارٹونوں کے سروں پہ ہتھوڑا مار کے انہیں نیچے دبائیں گے‘ ویسے ویسے آپ کے سکور میں اضافہ ہوتا جائے گا‘ اور اسی رفتار سے گیم بھی تیز ہونا شروع ہو جائے گی۔ پہلے خانے میں سر نکلا اسے دبایا تو آٹھویں میں نکل آیا، اسے دبایا تو پانچویں میں نکل آیا، اسے دبایا تو آگے پیچھے ساتویں اور دوسرے میں نکل آیا۔ بس سروں کو دباتے جائیں اور تھرل بڑھتا جائے گا۔ جہاں آپ سے چوک ہوئی اور کوئی سر دبنے سے رہ گیا بس وہ کارٹون آپ کو شکست دلوانے کا سبب بن جائے گا۔ تو اس گیم کی سائیکی ایک اتھاریٹیرین دماغ کے جیسی ہے اور ساتھ ساتھ وہ بندے کو ہلنے بھی نہیں دیتی، کوئی اور سوچ بھی اس دوران پاس نہیں پھٹک سکتی کیونکہ بندہ کھیلنے میں پوری طرح انوالو ہو جاتا ہے۔ تو ایک عمومی طاقت پسند پریشان دماغ کے لیے اس کھیل سے بڑی کوئی نعمت نہیں ہے۔ نتیجتاً یہ کہ آج بھی ہر پلے لینڈ میں نت نئی چینجز کے ساتھ سب سے پہلے لگائی جاتی ہے لیکن بیسک آئیڈیا وہی ہوتا ہے، ایک ساتھ کئی سر دبانے ہوتے ہیں۔
الیکشن ہو گئے، تحریک انصاف جیت گئی، وضعدار لوگ جو پہلے پی ٹی آئی کے مخالف تھے وہ اب مبارک باد دے رہے ہیں، انتخابی نتائج کو بڑے کھلے دل سے قبول کر رہے ہیں اور جمہوریت کی خوبصورتی پر بات کر رہے ہیں۔ نہ جانے کیوں مجھ سے کھل کے مبارک باد نہیں دی جا رہی۔ مجھے لگتا ہے کہ میں ایسا کچھ لکھوں گا تو وہ جھوٹ ہو گا۔ کسی ایک بندے کو بھی اصولاً میری نیک تمناؤں کی ضرورت نہیں ہے اور نہ ہی انہیں اس سے کچھ فرق پڑنا چاہئے۔ ہاں یہ ہو سکتا ہے کہ ایک مبارک باد ایسی دی جائے جو کسی بھی تہوار کے موقع پر دی جاتی ہے۔ اور ایسی مبارک باد بہرحال کھلے دل سے دینا ممکن ہے اور وہ ‘ٹو ہوم اٹ مے کنسرن‘ کے تمام تقاضے بھی دل و جان سے پورے کرتی ہے۔ جیسے ”ان تمام اداروں اور عوام کو تحریک انصاف کی فتح مبارک جو اسے ووٹ کے ذریعے جتوانا چاہتے تھے‘‘۔ کھیل کا نیا مرحلہ مبارک ہو۔
میں مبارک باد اس لیے نہیں دے پا رہا کہ میرے سامنے اپنے پیدا ہونے سے لے کر آج تک کا سارا سیاسی کھیل موجود ہے۔ میں جب بھی حساب کتاب کرنے بیٹھتا ہوں تو مجھے مبارک باد کے اصل مستحق یاد آ جاتے ہیں۔ تاریخ ہمارے یہاں اپنے آپ کو دہرا نہیں رہی بلکہ ایک ہی قسم کی تاریخ پہلے دن سے لے کر آج تک چلی آتی ہے۔ کھیل بھی خود ہی بنانا ہے اور سر اٹھاتے ہی اسے دبا بھی دینا ہے۔ وھیک اے مول اور ہماری ڈیموکریسی اب مترادفات بن چکے ہیں۔ ادھر ہارڈ کور گیم ہوتی ہے ادھر بھی ہارڈ کور گیم ہوتی ہے۔ ادھر بھی پوری کنسنٹریشن سے کھیلا جاتا ہے، ادھر بھی پوری باریکی سے کام ہوتے ہیں، ادھر بھی کھیلنے والا کوئی ایک غلطی افورڈ نہیں کر سکتا، ادھر بھی غلطی کا چانس نشتہ، ادھر بھی کارٹونوں کی اوقات دل لگی سے زیادہ نہیں ہوتی… خیر جانے دیں، ادھر اُدھر کی استھائی کے ساتھ راگ اٹھانا آسان ہوتا ہے‘ انترہ بٹھانا بعد میں مشکل ہو جاتا ہے۔ وھیک اے مول پہ ایک بات اور یاد آ گئی۔ اب اسے محاورے کے طور پہ بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ کمپیوٹر پروگرامنگ کرنے والوں میں اسے تب استعمال کیا جاتا ہے جب ایک بگ (خرابی) دور کیا جائے اور اس کے نتیجے میں دوسرا بگ آ جائے، دوسرا ختم کریں تو اس سے پیدا ہونے والی کمپلیکیشن کے بعد تیسرا… علی ہٰذا القیاس، مطلب بگ جب مرے نہ اور بار بار جگہ بدل بدل کر مکھڑا دکھلاتا رہے تو وہ صورتحال وھیک اے مول کہلاتی ہے۔
ایک بڑا ہی پیارا دوست مردان میں رہتا ہے۔ اس دن کہنے لگا کہ یار حسنین! یقین کرو میری والدہ نے، میری بہنوں نے کبھی آج تک ووٹ نہیں ڈالا، ہم لوگوں نے کبھی ضرورت بھی نہیں سمجھی لیکن اس بار میں ترلے منتیں کر کے انہیں زبردستی ووٹ ڈالنے لے کر گیا۔ میری ماں کہتی تھی کہ بیٹا اگر عمران خان نے جیتنا ہے تو وہ ہمارے دو ووٹوں سے نہیں جیتے گا، اسے بہت بندے ووٹ ڈالنے آئیں گے، ہمارے دو ووٹ آخر کس کام آئیں گے؟ وہ اپنی والدہ کو یقین دلاتا رہا کہ اگر فرق پڑا تو یقین کیجیے آپ لوگوں کے دو ووٹ بھی اسے جتوا سکتے ہیں اور پھر وہی ہوا۔ اس پولنگ بوتھ پہ جیتنے والے امیدوار کی لیڈ صرف دو ووٹوں ہی کی تھی۔ لیکن یہی پُرجوش صورتحال ایک بہت بڑی مایوسی میں بدل سکتی ہے اور اس کی وجہ آف کورس وہی وھیک اے مول والا معاملہ ہے۔
عمران خان کی جیتنے کے بعد پہلی تقریر بڑی شاندار تھی۔ بہت پازیٹو جیسچر تھا، ووٹ دینے والے نوجوانوں کی بہت زیادہ توقعات ان سے وابستہ ہیں۔ بھارت سے تعلقات والی بات پہ انہوں نے وہی مؤقف اختیار کیا جو بی بی سی کے ہارڈ ٹاک میں کیا تھا‘ لیکن کیا وہ اپنی آئندہ پوزیشن پہ ہوتے ہوئے ایسے نازک قول قرار آخر تک نبھا پائیں گے؟ مطلب آپ ایک قدم آگے بڑھیں اور ہم دو قدم بڑھائیں گے… کیا ایسا آج تک کسی منتخب سیاسی حکومت کے دور میں ممکن ہوا ہے؟ نواز شریف اور جندال ملاقات، ‘مودی کا جو یار ہے غدار ہے‘ والے نعرے اور ہماری فریجائل + ڈیپینڈنٹ خارجہ پالیسی بنانے والوں کے لیے یہ قابل قبول ہو گا؟
عمران خان کے لیے تازہ ترین آزمائش پنجاب میں حکومت بنانا ہے، فرق پانچ چھ سیٹوں کا ہے، پیپلز پارٹی سے اتحاد نہ کرنے کا اعلان ہونے کے بعد آزاد امیدوار اور مسلم لیگ ق والے دو آپشن ان کے پاس ہیں۔ مان لیا حکومت بنا لی مگر اس کے بعد ایسی تگڑی اپوزیشن کے ساتھ صوبائی بلکہ قومی اسمبلی میں بھی عملی طور پہ کچھ کر پانا کیا ممکن ہو گا؟ کوئی شک نہیں کہ پنجاب فتح کرنا اور ادھر حکومت بنانا ہر بڑی جماعت کا خواب ہوتا ہے لیکن ایک خواب جو ٹرم پوری کرنے کی راہ میں رکاوٹ بنتا نظر آ رہا ہو اسے شرمندۂ تعبیر کرنے کے لیے بہت محتاط قدم اٹھانے کی ضرورت ہے۔ نواز لیگ جب پنجاب میں حکومت بنانے کا اعلان کرتی ہے تو وہ اپنا آخری پتہ کھیل رہی ہے، اگر ادھر بھی انہیں مایوسی ہوتی ہے تو اگلا راستہ شاید وہی ہو جس پہ عمران خان پچھلے پانچ سال سفر کرتے آئے ہیں۔ نواز لیگ کے پاس سیٹیں بھی زیادہ ہیں اور ساری معتوب سیاسی جماعتوں کی حمایت بھی… خیر سیاست اسی کا نام ہے، اہم بات یہ ہے کہ نواز لیگ ووٹ کو عزت دینے والا بیانیہ غیر محسوس طریقے سے کب بدلتی ہے، یہ دیکھنا ہو گا۔ وہ بیانیہ کامیاب نہیں ہو سکا، نوجوانوں کی امنگیں کچھ اور ہیں، شاید اس بیانیے کی گہرائی زیادہ تھی یا وہ اپنے وقت سے کچھ پہلے سامنے آ گیا۔ جو بھی ہو جب تک وہ نعرہ نواز لیگ کے ساتھ ہے‘ ان کے سارے ترقیاتی کاموں، لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کے دعووں، معیشت، ڈالر اور پٹرول کو شاندار طریقے سے کنٹرول کرنے سمیت ہر کارنامے پہ بھاری پڑتا رہے گا۔ سارے سٹنٹ ہو گئے، ناکامی مل گئی، یہ طے ہو گیا کہ فی الوقت اگر آگے بڑھنا ہے تو اس نعرے سے پیچھا چھڑانا ہو گا ورنہ بھلے عمران خان بھی وھیک اے مول کا شکار ہو جائیں، گیم کسی اور سمت تو جا سکتی ہے نواز لیگ کا خسارہ کم نہیں ہونے والا۔