مکافاتِ عمل…ھارون الرشید
”اے ابنِ آدم! ایک میری چاہت ہے اور ایک تیری چاہت ہے‘ ہوگا تو وہی جومیری چاہت ہے‘ پس اگر تونے سپرد کردیا‘ اپنے آپ کو اس کے‘ جو میری چاہت ہے‘ تو میں تمہیں دوں گا‘ وہ بھی جوتیری چاہت ہے‘ اگر تو نے مخالفت کی‘ اس کی جو میری چاہت ہے‘ تو میں تمہیں تھکا دوں گا‘ اس میں جو تیری چاہت ہے‘ پھر ہوگا وہی جو میری چاہت ہے‘‘۔
حدیثِ قدسی ہے یہ حدیث قدسی۔ قرآنِ کریم کا حصّہ نہیں مگر الفاظ اسی پروردگار کے۔ زندگی‘ کائنات‘ انسان اور موت و حیات کا جو خالق ہے۔ منکرینِ حدیث کو چھوڑیے۔ اللہ اور اس کے رسولؐ پر‘ جن کا پختہ ایمان ہے‘ وہ جانتے ہیں کہ احادیث کے مجموعے معتبر نہ ہوتے تو مدینہ منّورہ کے مکین امام مالک بن انسؒ انہیں قبول نہ کرتے۔ امام ابوحنیفہ رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ، جن کی ذکاوت ضرب المثل ہے۔ امام شافعیؒ ،عمر بھر جنہوں نے جھوٹی تو کیا سچی قسم بھی نہ کھائی۔ امام احمد بن حنبلؒ ،کوہسار کی طرح ابتلا میں برسوں جو سروقد کھڑے رہے۔
اتنی ہی ناطق گواہی تاریخ کی ہے۔ قدرت کے دائمی قوانین سے جو ہم آہنگ ہے‘ وہی شاد و ظفرمند ہے۔ اتنی ہی بڑی گواہی خود نفس انسانی میں رکھی گئی۔ جتنی مطابقت کسی کے قول و فعل میں ہوتی ہے۔ اس کے عمل میں‘ جس نے علم‘ ریاضت اور غوروفکر کی راہ چن لی ہو‘ اتنا ہی آسودہ وہ ہوا کرتا ہے۔ آنے والی ہزاروں نسلوں کے لیے‘ کامل نمونہ عمل سرکارؐ چھوڑ گئے۔ اللہ کی آخری کتاب میں‘ جس نے جی لگایا‘ساتھ ہی سیرت سرور عالمؐ میں‘ زندگی کے جنگلوں‘ سمندروں اور صحرائوں سے وہ سرخرو گزر ے گا۔ جس میں جتنا رنگ عالی جنابؐ کا تھا‘ اتنا ہی وہ رفعت پذیر ہوا۔ اپنی عقل پر‘ جسے ناز تھا‘ اپنی فضیلت اور اپنی دانائی پر‘ اپنی شمشیر اور شجاعت کے ساتھ وہ کاٹے ہوئے درخت کی طرح پڑا تھا‘ سیزر۔ شیکسپیئر نے بیان کیا ہے‘ اس کی لاش پر کھڑے انطونی نے کہا ”All thy greatness, glories and trumphs are shrunk to this little measure‘‘۔ ”یہ ہے تمہاری تمام تر عظمت‘ خیرہ کن فتوحات اور ظفرمندیوں کا انجام؟‘‘ ایک اور بات بھی شیکسپیئر نے کہی تھی ” دوام صرف محبت کو ہوتا ہے۔‘‘ اس بے مثال شاعر حافظ شیراز نے کہا تھا۔
از ما بجز حکایتِ مہر و وفا مپرس
قصّۂ سکندرو دارا ناخواندہ ایم
بلّھے شاہ کا قول یہ ہے: علموں بس کریں او یار / اکّو الف تیرے درکار۔ اقبالؔ نے کہا تھا۔
کیا ہے میں نے متاعِ غرور کا سودا
بہار ہو کہ خزاں لاالہ الااللہ
جیسا کہ عرض کیا تھا‘ اصل میں یہ حضرت سلطان باہوؒ کی زمین تھی۔ فارسی میں ان کا کلام اسی بحر اور اسی قافیے میں ہے۔ وہ نادر ِروزگار آدمی ساڑھے تین سو برس سے جو مٹی اوڑھے سو رہا ہے‘ مگر آج بھی اس کے طفیل پنجاب میں اجالا ہے۔ آج بھی پنجابی شاعری‘ جس سے رہائی نہیں پاسکی‘ شاید کبھی نہ پا سکے۔ پہلی اینٹ تو خیر فریدالدین شکرگنجؒ نے رکھی تھی۔ اس میں مگر کیا کلام کہ سلطان باہو بھی ایک عظیم سکالر تھے‘ ایک سچے درویش۔ بلّھے شاہ‘ خواجہ غلام فرید‘ میاں محمد بخش‘ پھر اور بھی اٹھے‘ چھوٹی یا بڑی قندیل‘ مگر چراغ انہی کے چراغ سے جلے۔
ہمارے عصر کے عارف نے یہ کہا تھا: راہِ محبت میں پہلا قدم ہی شہادت کا قدم ہوتا ہے۔ کل پرسوں ایک جملہ کسی کا پڑھا‘ غالباً جناب دیوان اقبال کا ”لکڑی کے ایک ٹکڑے کی طرح‘ اگر میں نے خود کو تقدیر کے سپرد نہیں کردیا ہو تو میں قصوروار ہوں۔‘‘
ارادہ و اختیار آدمی کو بخشا گیا ہے۔ جدوجہد اسے کرنا ہوتی ہے مگر وہ مادرپدر آزاد نہیں۔
صنوبر باغ میں آزاد بھی ہے پابہ گل بھی ہے
انہی پابندیوں میں حاصل آزادی کو تو کر لے
حضورِ سرورِ کائنات‘ اقبالؔ نے شکایت کی تھی۔ من اے میرامم از تو داد خواہم / مرا یاراں غزل خوانے شمر دند۔ اے امتّوں کے سردار‘ آپؐ سے میں شکایت کرتا ہوں کہ یاروں نے مجھے غزل خوانوں میں سے ایک سمجھ لیا۔ میر تقی میرؔ بھی‘ وہ شاعر آئندہ زمانوں کے لیے جس نے راہ تراشی‘ محض ایک شاعر نہ تھا۔ کیا بات کہہ گیا ہے۔
زندگی کی رہ میں چل لیکن ذرا بچ بچ کے چل
یوں سمجھ لے کوئی مینا خانہ بارِدوش ہے
خدا کی بستی دکاں نہیں ہے‘ چراگاہ نہیںہے۔ خواہشات کا غلام بن کر‘ آدمی اگر جانور ہو جائے تو انجام بھی اس کا جانور ایسا ہی ہوگا۔ مصّور‘ مفکر‘ ادیب اور سیاست کار حنیف رامے پہ واصف علی واصف بگڑے تھے۔ کہا: آپ فرعون کی زندگی اور موسیٰ کی موت چاہتے ہیں۔اللہ کی دنیا‘مکافاتِ عمل کی دنیا ہے۔جو بویا ہے‘ وہ کاٹنا پڑتا ہے۔ کسی میں اس کے لیے کبھی کوئی استثنیٰ تھا اور نہ ہوگا۔ ابتلا بجائے خود بری نہیں۔ نواب زادہ نصراللہ خان کہا کرتے۔ ”یزید نہیں‘ مسلمان حسین ابن علیؓ سے اکتسابِ نور کرتے ہیں۔‘‘ امام حسینؓ آج بھی زندہ ہیں۔ سحر سے شام‘ اور شام سے سحرتک‘ دنیا بھر میں علی ابن ابی طالبؓ اور سیدہ فاطمتہ الزہرہؓ کے فرزند کا ذکر رہتا ہے۔ یہ ٹیلی ویژن کے واعظ؟ آج مرے کل دوسرا دن۔ایک زمانہ ان کے ذکر سے گونجتا رہا۔ فیض احمد فیضؔ اب تحلیل ہوتے جا رہے ہیں۔ میر صاحب زندہ رہیں گے۔ منصور آفاق نے فلک آسا شہتیروں پہ احمد فراز کے نام کی قندیل اٹھا رکھی ہے‘ فردوس بریں کی رفعتوں سے میر صاحب اس پہ ہنستے ہیں۔
مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتا ہے
ا ترسوں کی بات ہے‘ میر صاحب کو خواب میں دیکھا‘ بشّاش اور خورسند۔ بولے: یہ منصور آفاق کون ہے۔ عرض کیا: ایک دیوانہ ہے‘ فرمایا: بکارِ خویش ہوشیار ہے کیا؟ عرض کیا کہ بالکل نہیں۔ اس کا حال استاد ابراہیم ذوق کے شعر کے مصداق ہے۔
میں پا شکستہ جا نہ سکا قافلے تلک
آتی اگرچہ دیر صدائے جرس رہی
ارشاد کیا: ایک شعر میرا بھی اسے سنا دینا۔ ”مستند ہے میرا فرمایا ہوا/ سارے عالم پہ ہوں میں چھایا ہوا‘‘ عرض کیا۔ نصیحت کا کوئی کلمہ کہیے۔ فرمایا: میرا دیوان کیا نہیں دیکھتے‘ جلی حروف سے‘ اس میں رقم ہے۔
لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام
آفاق کی اس کار گہِ شیشہ گری کا
کہنے لگے‘ کرّہ خاک پہ آج کل اس قدر شوروغوغا کیوں ہے‘ خاص طور پہ حکیم الاّمت علامہ محمد اقبالؔ کے شہر میں۔ عرض کیا: انہی سے آپ کیوں نہیں پوچھ لیتے۔ کہا: یہاں پہنچ کر وہ خلوت پسند ہوگئے۔ شاذ ہی بات کرتے ہیں۔ فرماتے ہیں کہ بہشت بریں جب پوری طرح آباد ہوجائے گی‘ تب مشاعرے برپا کریں گے‘ تبھی مباحثے اورمذاکرے بھی۔ فی الحال تو میں لاہور کے ایک بھٹکے ہوئے کشمیری فرزند کے باب میں پریشان ہوں۔ میرے تردماغ قبیلے کو بدنام کرتا ہے۔ دعا کرتا رہتا ہوں لیکن اثر نہیں کرتی۔ من مانی پہ تلا ہے‘ مرنے کی ٹھانی ہے۔ میر صاحب کے بقول ”دانائے راز ‘‘سے انہوں نے کہا آپ اسے پیغام کیوں نہیں بھیجتے۔ فرمایا:اقبالؔ نے حیرت سے مجھے دیکھا اور کہا: میر صاحب‘ آپ کے زمانے میں ایسا کوئی حکمران موجود تھا‘ معقول مشورے پر جس نے کبھی عمل کیا ہو؟ خوشامدیوں اور چھچھوروں میں حکمران گھرے رہتے ہیں‘ پیغمبروں کی بات بھی ان پہ اثر نہیں کرتی‘ مجھ ناچیز کی بساط کیا۔
”اے ابنِ آدم! ایک میری چاہت ہے اور ایک تیری چاہت ہے‘ ہوگا تو وہی جومیری چاہت ہے‘ پس اگر تونے سپرد کردیا‘ اپنے آپ کو اس کے‘ جو میری چاہت ہے‘ تو میں تمہیں دوں گا‘ وہ بھی جوتیری چاہت ہے‘ اگر تو نے مخالفت کی‘ اس کی جو میری چاہت ہے‘ تو میں تمہیں تھکا دوں گا‘ اس میں جو تیری چاہت ہے‘ پھر ہوگا وہی جو میری چاہت ہے‘‘۔