منتخب کردہ کالم

ایک مکالمہ …رئوف طاہر

ایک مکالمہ …رئوف طاہر

قواعد و ضوابط کے حوالے سے چیئرمین جناب رضا ربانی کی ناراضی بجا کہ سینیٹ کے بند کمرے کے اجلاس (In Camera Session) کی کارروائی کے بعض حصے میڈیا میں کیسے آ گئے؟ ایسے اجلاسوں کی کارروائی ”امانت‘‘ ہوتی ہے اور ارکان پارلیمنٹ کا سو فیصد استحقاق۔ (سابق چیئرمین سینیٹ جناب نیئر بخاری کے بقول‘ ایسے کسی اجلاس میں تو پارلیمنٹ کا سٹاف بھی موجود نہیں ہوتا) چیئرمین سینیٹ نے معاملے کا جائزہ لینے اور ذمہ داروں کے تعین کے لیے‘ اسے ایوان کی بزنس ایڈوائزری کمیٹی کے سپرد کرنے کا اعلان بھی کیا۔ ”ماہرین‘‘ کے بقول اجلاس کے حوالے سے مجموعی تاثر کے بیان کی حد تک تو بات درست تھی (اور ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور کی میڈیا بریفنگ بھی اسی حد تک رہی) لیکن میڈیا میں آرمی چیف اور بعض ارکان سینیٹ کے مابین مکالموں کی لفظ بہ لفظ تفصیل تک آ گئی تھی۔
منگل کے روز آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی ڈی جی آئی ایس آئی جنرل نوید مختار‘ ڈی جی ملٹری آپریشنز میجر جنرل ساحر شمشاد مرزا‘ ڈی جی ملٹری انٹیلی جنس میجر جنرل عاصم منیر اور ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور کے ہمراہ پارلیمنٹ کے ایوان بالا میں آمد اور بند کمرے کے اجلاس میں گفتگو‘ پاکستان کی پارلیمانی تاریخ کا نہایت اہم واقعہ تھا۔ اس سے پہلے 2 مئی 2011ء کے واقعۂ ایبٹ آباد پر (جس میں چار امریکی ہیلی کاپٹر پاکستان کی فضائی حدود کو پامال کرتے ہوئے اسامہ بن لادن کی قیام گاہ پر اترے‘ اسے ہلاک کیا اور اس کی لاش اپنے ساتھ لے گئے) پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے مشترکہ اجلاس کی مثال موجود تھی‘ جو دس گھنٹے جاری رہا۔ آرمی چیف جنرل کیانی اور آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل شجاع پاشا کو تند وتیز سوالات کا سامنا تھا۔ چوہدری نثار علی خاں کے ساتھ تلخی پر جنرل پاشا نے استعفے کی پیشکش بھی کر دی تھی۔
لیکن سینیٹ کے 19 دسمبر کے اس اجلاس میں ماحول دوستانہ تھا اور بے تکلفانہ مکالمہ ساڑھے چار گھنٹے پر محیط ہو گیا تھا جس میں ”فریقین‘‘ نے دل کھول کر سامنے رکھ دیئے‘ ہارٹ ٹو ہارٹ مکالمہ…یہ ”اِینی شیٹو‘‘ خود آرمی چیف کی طرف سے تھا جس کا اظہار گزشتہ دنوں سینیٹ ڈیفنس کمیٹی کے ساتھ جی ایچ کیو میں ہونے والی ملاقات میں کیا گیا۔ اس ملاقات میں جنرل نے آئین سے وفاداری اور جمہور کی حکمرانی کے حوالے سے اپنی بے لاگ کمٹمنٹ کا اعادہ کیا تھا۔ 6 ستمبر کو یوم دفاع کی تقریب سمیت متعدد مواقع پر بھی‘ وہ یہی بات کہتے رہے تھے۔ گزشتہ سال (نومبر 2016ئ) میں وہ آرمی چیف بنے‘ تو ان سے دیرینہ شناسائی رکھنے والے بعض احباب کا کہنا تھا کہ جنرل صاحب اسی ”سیاسی اپروچ‘‘ کے حامل رہے ہیں‘ یہ ان کی سوچی سمجھی رائے رہی ہے کہ ہمارے اکثر و بیشتر مسائل کا سبب‘ اداروں کا اپنی آئینی حدود سے تجاوز ہے۔ جنرل مشرف کے دور میں بھی‘ جب وہ جونیئر افسر تھے‘ دوستوں کے ساتھ بے تکلف گفتگو میں انہی خیالات کا اظہار کیا کرتے۔ 13 ماہ قبل انہوں نے پاک فوج کی کمان ایسے حالات میں سنبھالی جب ”سول‘ ملٹری ریلیشن شپ‘‘ کے حوالے سے دیرینہ مسائل ہمارے قومی مباحثے کا اہم موضوع تھے۔ ان کے علاوہ ڈان لیکس‘ پاناما‘ ضربِ عضب اور ایسا میڈیا جہاں بعض ریٹائرڈ عسکری دانشوروں کے علاوہ کچھ سویلین میڈیا پرسنز بھی اظہار خیال کر رہے تھے۔
پاک فوج کی سربراہی کا منصب جنرل قمر جاوید باجوہ نے منتخب وزیراعظم کو ”فل سمارٹ سلیوٹ‘‘ سے شروع کیا تھا۔ یہ برسوں بعد زندہ ہونے والی خوش کن روایت تھی۔ جنرل باجوہ کے پیش رو جنرل راحیل شریف‘ ضرب عضب کے خالق کے طور پر پاکستان کی عسکری تاریخ کے مقبول ترین منصب پر فائز ہو چکے تھے (اس میں ان کے ڈی جی آئی ایس پی آر کی پیشہ ورانہ مہارت کا دخل بھی کم نہ تھا) ریٹائرمنٹ سے آٹھ‘ دس ماہ قبل ہی ”توسیع‘‘ نہ لینے کا ان کا اعلان‘ دور کی کوڑی لانے والے کئی دانشوروں کے لیے معنی خیز تھا۔ کہا جاتا ہے‘ خود وزیراعظم کے بعض خیرخواہوں نے بھی ”توسیع‘‘ کی سفارش کی لیکن وہ تو زرداری؍گیلانی دور میں جنرل کیانی کی ایکسٹینشن کی بھی علانیہ مخالفت کر چکے تھے۔ دوسرا آئیڈیا ”فیلڈ مارشل‘‘ کے اعزاز کا تھا‘ وزیراعظم اس پر بھی آمادہ نہ ہوئے۔ لیکن جنرل کی رخصتی بڑے اعزاز کے ساتھ ہوئی۔ ان کے لیے پرائم منسٹر ہائوس میں خصوصی الوداعیے کا اہتمام کیا گیا تھا۔ ایوان صدر کی طرف سے بھی حسب استطاعت اس کا اہتمام ہوا۔ مریم نواز صاحبہ کے بقول‘ وزیراعظم نے اپنی تیسری ٹرم کے ان برسوں میں کچھ ”کمپرومائز‘‘ بھی کئے‘ ”کیا یہ کمپرومائز اپنی حکومت بچانے کے لیے تھے؟‘‘ مریم کو اس سے اتفاق نہیں‘ ان کے بقول یہ کمپرومائز اس لیے کئے گئے کہ ”سسٹم‘‘ چلتا رہے اور یوں ملک میں تعمیر و ترقی کا نیا سفر جاری رہے۔
قمر جاوید باجوہ وزیراعظم کی اپنی چوائس تھے۔ پہلا مسئلہ آئی ایس پی آر کے 29 اپریل کے ٹویٹ میں ڈان لیکس کی تحقیقاتی رپورٹ کو “Reject” کرنے پر پیدا ہوا۔ 10 مئی کو آئی ایس پی آر نے یہ ٹویٹ واپس لے لیا‘ نئے ٹویٹ میں وزیراعظم کے چیف ایگزیکٹو ہونے کی آئینی حیثیت کے ذکر کے ساتھ‘ اس کی اطاعت فرض قرار پائی تھی اور اس کے ساتھ یہ واشگاف اعلان بھی کہ پاک فوج آئینی و جمہوری عمل کی حامی ہے۔ ڈیڑھ‘ دو ہفتے بعد جی ایچ کیو میں منعقدہ سیمینار میں آرمی چیف نے نوجوان نسل کے سٹریٹ فارورڈ ہونے کا ذکر کرتے ہوئے خود اپنے صاحبزادے کی مثال دی‘ جس نے ان کے پہلے فیصلے (29 اپریل کے Rejected والے ٹویٹ) کو مقبول لیکن غلط قرار دیا جبکہ دوسرے فیصلے (10 مئی کے ٹویٹ) کو غیر مقبول لیکن درست قرار دیا تھا۔
منتخب پارلیمنٹ کے ایوان بالا کے ارکان اور آرمی چیف میں ساڑھے چار گھنٹے پر مشتمل انٹر ایکشن میں ملک کی داخلی و خارجی سلامتی کے معاملات اور ”سول ملٹری ایشوز‘‘ سمیت سب چیزوں پر کھل کے گفتگو ہوئی‘ بعض Tough اور Tricky سوالات بھی تھے‘ آرمی چیف نے کسی کبیدگیٔ خاطر کے بغیر جن کے جوابات دیئے۔ کہیں کہیں ان کی بذلہ سنجی اور شوخ مزاجی بھی بروئے کار آئی، مثلاً ایک موقع پر کہا: امید ہے کہ میرے جواب تحریک استحقاق کے زمرے میں نہیں آئیں گے۔ سینیٹرز کی اکثریت کے لیے یہ ایک خوشگوار تجربہ تھا۔ اس سے ”سول ملٹری ٹرسٹ ڈیفیسیٹ‘‘ کم کرنے میں کس حد تک مدد ملی؟ اس بارے میں البتہ ”فکر ہر کس بقدر ہمت اوست‘‘ والا معاملہ تھا۔
19 دسمبر کا سورج ملک کے سیاسی مستقبل کے حوالے سے بے یقینی اور بے اعتمادی کے گرد وغبار کو بھی اپنے ساتھ ہی لے گیا۔ آرمی چیف کی گفتگو میں صدارتی نظام کے حوالے سے ناپسندیدگی کا اظہار‘ پارلیمنٹ کی بالادستی کا اعلان اور آئین سے ماورا کسی کردار سے اظہارِ بیزاری ملک میں ”سسٹم‘‘ کے تسلسل کے لئے یقینا خوش آئند تھا۔ اسی شام ایوان بالا نے نئی مردم شماری کے حوالے سے حلقہ بندیوں کی آئینی ترمیم کی منظوری بھی دیدی‘ جس سے 2018ء میں عام انتخابات کے بروقت انعقاد کا یقین اور اعتماد پختہ ہوا۔
آرمی چیف کی طرف سے ریٹائرڈ عسکری دانشوروں سے اظہارِ لاتعلقی بھی ان کی گفتگو کا اہم نکتہ تھا۔ پاک فوج کے ان خود ساختہ ترجمانوں سے اظہار ہمدردی کے ساتھ یہ توقع بھی بے جا نہیں کہ وہ اپنے ”گراں قدر‘‘ خیالات کے اظہار میں آئندہ اپنی اس حقیقت کو مدنظر رکھیں گے۔