1992 ء کے ورلڈ کپ کے فائنل میچ کے موقع پر بنگلہ دیش کے دفاتر اور فیکٹریوں میں عمومی طور پر کام معطل تھا اور سب کی نگاہیں میچ کے ایک ایک لمحے پر لگی تھیں،جیسے ہی انگلینڈ کا آخری کھلاڑی آئوٹ ہوا تو بنگلہ دیش میں لوگ خوشی سے بے قابوہو گئے اور یہ کوئی لفاظی یا خیالی منظر نامہ نہیں بلکہ بنگلہ دیش کے طول و عرض میں وہ منا ظر آج بھی اس سچائی کے گواہ ہیںکہ بنگلہ دیش کے مسلمانوں کی جانب سے اسلامی بھائی چارے اور ایمانی جوش و جذبہ سے منایا جانے والا جشن ڈھاکہ اور نئی دہلی میں بیٹھی ہوئی بھارتی حکومت اور خفیہ ایجنسیوں کو تڑپا کر رکھ گیا۔ یہ منا ظر اسے برداشت نہیں ہو رہا تھے کہ یہ کیا ہو رہا ہے، ہم نے بنگلہ دیش بنایا تو اس لئے تھا کہ وہ ہمیشہ ہمارا مطیع اور فرمانبردار بن کر رہے گا، ہمارے ہی اشاروں پر ناچے گا لیکن یہ تو کانٹا بن کر ہمیں ہی چبھنا شروع ہو گیا ہے اور لگ رہا ہے کہ آگے چل کر یہ مصیبت بن کر ہمارے گلے میں ہی پھنس جائے گا۔ اور یہی جذبات23 مارچ کو بنگلہ دیش اور بھارت کے میچ کے دوران پاکستانیوں کے تھے۔ اگر ہمارے بنگلہ دیشی بھائی جیت جاتے تو جشن کے ویسے ہی منا ظر پاکستان بھر میں دیکھنے کو ملنے تھے۔یہ اسلامی اخوت ہے۔ یہ کلمہ پاک کا ورد ہے۔ انہیں مومنوں کے دلوں سے کیسے نکالا جا سکتا ہے؟۔
بھارت کوسب سے پہلا دکھ اور تکلیف تو بنگلہ دیش بننے کے تیسرے سال اس وقت ہوا جب 1974ء میں شیخ مجیب الرحمان اس کے ہاتھوں سے پھسل کر پاکستان کے ساتھ معاہدے کی میز پر جا بیٹھے جس میں دونوں ملکوں نے ماضی کی تمام تلخیوں کو فراموش کرنے اور دیرپا قریبی تعلقات قائم کرنے کا عہد کیا اور یہی وہ معاہدہ تھا جو شیخ مجیب اور ان کے خاندان کے قتل کا باعث بنا کیونکہ پاکستان کے قریب ہونے کے جرم پر بھارتی ایجنسیوں نے مجیب کو ہٹانے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ ان تک پہنچنے والی اطلاعات کے منظر میں وہ دیکھ رہے تھے کہ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنانے کے عمل میں ا ن کی ساری عمر کی محنت اور کوششیں رائیگاں چلی جائیں گی۔
بھارتی خفیہ اداروں نے بنگلہ دیش کی فوج میں موجود اپنے لوگوں کو شیخ مجیب مخالف سوچ رکھنے والے فوجی افسران سے رابطے بڑھانے کا ٹاسک دے دیا اور ان کی نفرت کو مزید ہوا دینے کے لیے1972ء میں قائم کی گئی نئی” جاتیو راکھی باہنی‘‘(National Vanguards) کا ہوا دکھاکر مزید اشتعال دلانے کا عمل شروع کرا دیا۔شیخ مجیب بھارت کی نیتوں کو اچھی طرح جانتا تھا اور اسے یقین تھا کہ بہت جلد بھارت مسلم بنگلہ دیش کو بھی برداشت نہیں کر سکے گا اور اسے اپنے اندر ضم کرنے کی کوشش کرے گا۔ اپنے اس خدشے کا اظہار انہوں نے پاکستان سے لندن پہنچنے کے بعد جنوری1972ء میں امریکہ کے ٹائم میگزین کے نمائندے Dan Coggin سے آف دی ریکارڈ گفتگو میں کر دیا تھا۔ اس وقت امریکی حکام نے کوگن کی اس بات کو سنجیدگی سے نہ لیا لیکن مجیب بھارتیوں کی نیتوں کو جانتا تھا ا س لئے ا س نے ایک ایک قدم سوچ سمجھ کر اٹھانا شروع کر دیا لیکن وہ یہ بھول گیا کہ اس کے دائیں بائیں وہی لوگ ہیں جو عرصہ تک بھارت کی مہمان نوازی کے نشے میں مد ہوش ہو کر غیر بنگالیوں کے قتل عام سے لطف اندوز ہوتے رہے ہیں۔ اپریل1974ء میں پاکستان سے سب تلخیاں بھلانے کا معاہدہ کرنے کے جرم عظیم پر بھارت نے 15 اگست1975ء کی صبح اپنے یوم آزادی کی مناسبت سے شیخ مجیب کو قتل کروا کر اپنے رستے کی سب سے بڑی رکاوٹ کو دور کر لیا۔
1971ء سے بھارت دنیا بھرکو یہ یقین دلانے کی کوششوں میں جتا ہوا ہے کہ پاکستانی فوج نے تیس لاکھ بنگالیوں کو قتل کیا ہے
۔۔۔اس جھوٹ کا اندازہ اس سے لگایئے کہ جب مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ نے آزادی کاا علان کیا تو اس حصے میں پاکستان کی کل دو ڈویژن ( بیس ہزار فوج) موجود تھی۔ اندازہ کیجئے کہ اس چھوٹی سی فوج کے پاس مشرقی پاکستان کی وسیع سرحدوں، ندی نالوں، دریائوں اور اپنی فوجی چھائونیوں کی حفاظت کے ساتھ ساتھ مشرقی پاکستان کے اندر نگرانی، سرکاری اور غیر سرکاری اہم عما رتوں اور سفارت کاروں کی حفاظت کے ساتھ ساتھ مقیم پاکستانیوں اور ان کی فیملیوں کی دیکھ بھال اور امن و مان بحال کرنے کی ذمہ داریاں بھی تھیں۔ یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ اس قدر کم تعداد کی فوج اس قدر بڑے پیمانے پر قتل و غارت کرسکے؟ سقوط ڈھاکہ سے چار ماہ پہلے اگست میں پاکستان سے مزید چودہ ہزار فوجی بھیجے گئے تھے جس سے فوج کی یہ تعداد کل چونتیس ہزار ہو گئی تھی۔ ستم دیکھئے کہ آج تک ہمارے سیا ستدان اور میڈیا کے ستم ظریفوں کا مضبوط گروپ یہی باور کرائے جا رہا ہے کہ نوے ہزار فوجی جنگی قیدی بنائے گئے تھے۔ خدا کی پناہ! جھوٹ کی بھی کوئی حد ہوتی ہے اور جھوٹوں کیلئے شرم وحیا کی بھی۔۔۔۔یاد رکھیں مشرقی پاکستان میں دسمبر1971ء میں پاکستان کی فوج کی کل تعداد چونتیس ہزار سے بھی کم تھی کیونکہ ان میں سے بہت سے افسر اور جوان دفاع وطن کی خاطر شہید ہو چکے تھے۔
بھارت حسینہ واجد کو اقتدار کی ضمانت دیتے ہوئے بنگلہ دیش میں پاکستانی فوجیوں کے خلاف عوامی عدالت کے نام پر علامتی سزائوں کا ڈرامہ رچانے سے پہلے1971 ء میں مشرقی پاکستان کے حالات بارے شرمیلا بوس کی کتاب Dead Reckoning کا مطالعہ کرے جس میں بھارت، عوامی لیگ اور حسینہ واجد کے جھوٹوں کا پردہ چاک کرتے ہو ئے ایک ایک دن کے ثبوت دیتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ سب بھارت کی نفرت انگیز جذبات بھڑکانے کی کہانیاں ہیں۔ حمود الرحمان کمیشن رپورٹ میں ہلاک کئے گئے افراد کی کل تعداد چھبیس ہزار بتائی گئی ہے۔ رچرڈ سیسن اور لیو ای روز کی بنگلہ دیش کی آزادی پر مشترکہ طور پر لکھی جانے والی کتاب War and Secession اورGarry bassنے اپنی کتابThe blood Telegramمیں واضح طور پر لکھا ہے کہ بھارت پاکستان کی فوج کے ہاتھوں بنگالیوں کے قتل عام کو جس قدر بڑھا چڑھا کر پیش کر رہا ہے وہ بالکل غلط اور جھوٹ ہے۔۔۔بلکہ بہت سے بنگالی جو اس وقت بھارتی فوجیوں کے ہمراہ مکتی باہنی میں شامل تھے، بڑے فخر سے بتاتے ہیں کہ چالیس ہزار سے زائد غیر بنگالیوں کو اپنے ہاتھوں سے قتل کیااور امریکی قونصلیٹ کی وہ رپورٹ کون جھٹلائے گا، جس کے مطابق چھیاسٹھ ہزار سے زائد غیر بنگالی بھارتی فوج کی زیر کمان مکتی باہنی نے قتل کئے ۔
دنیا بھر کا میڈیا اب تسلیم کرر ہا ہے کہ حسینہ واجد کی بھارت کے سامنے حیثیت ا یسٹ انڈیا کمپنی کی ایک ریا ست کے حکمران سے زیادہ نہیں۔۔ اور ۔بنگلہ دیش کے مسلمان تو سوچنے پر مجبور ہو رہے ہیں کہ یہ کیسی آزادی ہے جو بتوں کے پائوں چاٹنے کا درس دے رہی ہے