منتخب کردہ کالم

میئر لندن کا دورئہ پاکستان…صولت رضا

میئر لندن کا دورئہ پاکستان…صولت رضا
لندن کے میئر صادق خان حال ہی میں پاکستان کے دورے پر تشریف لائے۔ انہوں نے لاہور اور کراچی میں مصروف دن گزارے ۔ صادق خان واہگہ بارڈر کے راستے پاکستان داخل ہوئے۔ اُن کے بقول برطانوی وزارتِ خارجہ نے اُنہیں واہگہ کا راستہ اختیار کرنے سے گریز کامشورہ دیا تھا۔ یہ وہی راستہ ہے جو صادق خان کے آبائو اجداد نے اگست 1947ء میں آ زادی کے بعد بھارت سے پاکستان آنے کے لیے اختیار کیا تھا۔ بعد ازاں صادق خا ن صاحب کے والد امان خان برطانیہ چلے گئے۔ جہا ں انہوں نے بس ڈرائیور کی حیثیت سے زندگی کا نیا سفر شروع کیا۔ 8اکتوبر1970ء کو لندن کے علاقے ٹوٹنگ میں پیدا ہونے والے صاد ق خان کا شہر صرف لندن ہے۔ اُنہوں نے واہگہ سرحد پر بی بی سی نمائندے کے سوال نما فقرے ” ویلکم ہوم ‘‘ کے جواب میں پلٹ کرکہا کہ نہیں میرا ”ہوم ‘‘ جنوبی لندن ہے۔ یہ جواب قریب کھڑے لاہور کے میئر کرنل (ریٹائرڈ ) مبشر نے بھی سنا جو چندلمحے قبل یہ روایتی فقرہ صادق خان صاحب کو کہہ چکے تھے۔ صادق خان کا جواب برٹش میڈیا کے ذریعے دنیا بھر میں سنا، دیکھا اور پڑھا گیا۔ لیبر پارٹی سے تعلق رکھنے والے میئر صادق خان 2005ء سے2016ء تک برطانوی پارلیمنٹ کے ممبر بھی رہے ہیں ۔ اُن کا شمار اپنی جماعت کے متحرک اور صفِ اول کے رہنمائوں میں ہوتا ہے۔ چند سیاسی حلقے اُنہیں برطانیہ کے پہلے مسلمان وزیر اعظم کے طورپر بھی دیکھ رہے ہیں ۔ موجودہ حالات میںیہ بہت دور کی کوڑی ہے۔
صادق خان کے دورے میں نمایاں ہونے والے متعدد پیغامات غور طلب ہیں ۔ خاص طور سے ہمارے ایسے ملک کے لیے جہاں سیاسی قائدین اپنے بچپن سے ہی مغربی جمہوریت کے نظریاتی دلدادہ ہیں ۔ کیونکہ اُن کے خاندان میں اس کے سوا کسی اور نظام کی گنجائش نہیں ۔ یہ ہر سیاسی خاندان کا سماجی ، معاشی اور کسی حد تک قیمتی ذاتی ورثہ بن چکا ہے۔ مغربی جمہوریت کی سیاست میں نسل در نسل حکمرانی کے اسباب موجود رہتے ہیں ۔ محض پندرہ بیس فیصد ووٹرز کی حمایت سے اعلیٰ ترین منصب تک پہنچا جا سکتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جس معاشرے اور مملکت سے یہ نظام ہم نے اپنے لیے پسند کیا وہاں سیاست میں خاندان گردی کا وجود نہیں ہے۔ سیاسی رہنمائوں کی اولاد اگر میرٹ پر ہے تو انتخابی میدان میں اُتر سکتی ہے۔ ورنہ اپنے لیے معاشرے میں کوئی اور شعبہ منتخب کرتی ہے۔ یہ وہ بنیادی نکتہ ہے جس کے باعث مغربی جمہوریت میں ووٹرز (عوام) ہر صورت میں فوقیت رکھتے ہیں ۔ ہمارے ہاں یکے بعد دیگر ے سیاست کار برسوں سے مغربی جمہوریت کی آڑ لے کر وطن ِ عزیز کے وسائل کو دبوچے ہوئے ہیں ۔ خاص طور سے وفاقی اور صوبائی سطح پر محض دو تین سیاسی پارٹیوں کی اجارہ داری ہے جن کے سربراہ نسل در نسل کے اصول پر کاربند ہیں ۔ مغربی جمہوریت میں سیاسی قائدین کی مرحلہ وار تربیت کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ بلدیاتی ادارے جمہوریت کی اساس تصور ہوتے ہیں ۔ کوشش کی جاتی ہے کہ بلدیاتی سطح سے قیادت اعلیٰ ترین جمہوری اداروں کی جانب روا ں دواں رہے۔ بد قسمتی سے صفِ اول کی جماعتوں نے جن میں مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی سرِ فہرست ہیں ۔ گزشتہ دس گیارہ برسوں میں بلدیاتی اداروں کو ہر لحاظ سے ناکارہ بنا دیا ہے۔ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے اراکین کو ترقیاتی فنڈ ز عطا کیے جاتے ہیں۔ تاکہ وہ گلی محلے اور کوچہ و بازار میں توسیع اور مرمت کے ٹھیکے تقسیم کریں۔ یہ مکروہ انداز بلدیاتی نمائندوں کی اہمیت ختم کرنے کے لیے اختیار کیا گیا ہے۔ اِس طرز سیاست نے قومی اسمبلی کے اراکین کو ان کے اصل سیاسی کردار سے دور کر دیا ہے۔ قانون سازی کا مرحلہ آئے تو کئی روز تک کورم پورا نہیں ہوتاہے۔ وفاقی وزراء سینیٹ اور اسمبلی میں نہیں آتے۔ کبھی چیئر مین سینیٹ برہم ہیں تو اکثر سپیکر قومی اسمبلی خالی نشستوں کی جانب حسرت بھری نگاہ ڈال کر خاموش ہو جاتے ہیں۔
بات میئر لندن صادق خان سے شرو ع ہوئی تھی ۔ لندن بہت بڑا شہر ہے۔ وہاں دنیا کے مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے افراد مستقل قیام پذیر ہیں ۔ اس کے علاوہ ہزاروں افراد کی روزانہ آمدورفت کا سلسلہ بھی جاری رہتا ہے۔ یہ کیفیت کراچی اور کسی حد تک لاہور میں بھی ہو گئی ہے۔ اسلام آباد ، راولپنڈی ، فیصل آباد ، پشاور اورکوئٹہ سمیت دیگر چھوٹے بڑے شہروں میں عرصے سے ”بلدیاتی بابے ‘‘موجود ہیں ۔ لیکن اُن کی کارکردگی کا یہ حال ہے کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جناب جسٹس ثاقب نثار صاف پانی کی عدم دستیابی پر جواب طلبی کر رہے ہیں۔ انسان کی بنیادی ضرورت کی کمیابی کاجواب دہ کون ہے؟ سیاسی رہنماہوں یا کہ منتخب بلدیاتی نمائندے سب ایک دوسرے کو ذمہ دار ٹھہرانے کے بعد اپنی اپنی راہ لیتے ہیں ۔اب رہ گئے بے چارے عوام جو اہل و عیال سمیت سیوریج سے ملا پانی پینے پر مجبور ہیں ۔ چند روز تک چیف جسٹس کے احکامات اور ریمارکس کی بازگشت سنائی دے گی۔ اُس کے بعد وہی سیاسی چال بے ڈھنگی ۔ غریب آدمی کا قصور یہ ہے کہ وہ غریب گھرانے میں کیوں پیدا ہوا ہے۔ چیف جسٹس کا یہ تاریخی جملہ آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے کہ صوبے کہ منتخب چیف ایگزیکٹو (وزیر اعلیٰ) کو بھی وہی پانی پینا چاہیے جو عام آدمی کو میسر ہے۔ بات وہی ہے جو برسوں سے معاشرے میں رائج ہے کہ کلام ِ نرم و نازک بے اثر ۔ جب مغربی جمہوریت کے تابع سیاسی عزم میں عام آدمی کو محض انتخابی مزارع کا درجہ حاصل ہو تو اُس کی فلاح و بہبود کا چرچا زبانی جمع خرچ کے سوا کچھ نہیں ۔ وطن ِ عزیز کا بلدیاتی نظام سیاسی رہنمائوں نے جان بوجھ کرذاتی سیاست کی نذر کر دیا ہے۔ اب صرف ہم خیال ووٹرز کے علاقے میں ترقی اور فلاح و بہبود کے کرشماتی پروگرام جاری رہتے ہیں ۔ فنڈز میں کھابے اس کے علاوہ ہیں ۔ فنڈر کی بہتات دیکھ کرفرقہ واریت کے ”کاروباری‘‘ بھی میدان میں کود پڑتے ہیں ۔ شہروں اور قصبات کی حالت دیکھیں تو ، تعلیم ، صحت ، سیوریج اور ٹریفک کے لاتعداد معاملات سنگین لاپروائی کا شکار ہیں۔ میئر ہو ں یا ناظمِ شہر سب وفاقی اور صوبائی سیاسی حکمرانوں اور اپنی اپنی جماعت کے سربراہوں کی مدح سرائی میں مصروف ہیں ۔ بلدیاتی سطح پر قومی سیاست کے منفی اثرات عام شہری کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتے ہیں ۔ بدقسمتی سے یہ سلسلہ صرف جمہوری ادوار میں ہی رائج نہیںرہا ہے۔ مارشل لاء کے زمانے میں بھی ایسے ہی انداز اپنائے گئے۔ تاہم جمہوریت کی مکمل بحالی تک بلدیاتی سطح کی قیادت کو برتری حاصل رہی ۔ لہٰذا انہوں نے عوامی فلاح و بہبود کے ثمرات کو پہلے سے نظر انداز قصبات اور شہروں تک پہنچایا۔
وطن ِ عزیز کے بڑے شہروں میں لا تعداد مسائل کا انبار ہے۔ سب سے المناک پہلو یہ ہے کہ مراعات یافتہ اشرافیہ اور بے وسیلہ افراد کے مابین خلیج بڑھ رہی ہے۔ یہ خطر ناک منظر نامہ ہے۔ خاص طور سے بے وسیلہ افراد جن میںخط ِ غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے والے لاکھوں خاندان شامل ہیں، جان لیوا مسائل سے تنگ آکر شدت پسند بیانیہ کی جانب راغب ہو سکتے ہیں۔ وطن ِ عزیزمیں مغربی جمہوریت کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ بعض سیاسی قائدین اس حد تک آگے بڑھ گئے ہیں کہ وہ عدلیہ اور فوج کو بھی نشانے پر رکھے ہوئے ہیں۔ کاش وہ اپنی توانائیاں بنیادی مسائل کے حل پر بھی صرف کریں ۔ معلوم نہیں سیاسی قائدین کو مزید کس سانحے کا انتظار ہے۔ عوام کے صبر کی بھی حد ہوتی ہے۔ پینے کا پانی میسر نہیں۔ سیوریج تباہ ہو چکا ہے ۔ شہروں میں کچرے کے ڈھیر ہیں ۔ ہسپتال بد انتظامی کا شکار ہیں۔ٹریفک کا نظام تلپٹ ہے۔بے گھر افراد کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے ۔ تعلیمی ادارے بدحالی کا شکار ہیں۔ یہ تما م مسائل ایک مضبوط بلدیاتی نظام کا تقاضا کر رہے ہیں۔
مغربی جمہوریت کے دلدادہ سیاسی قائدین کو اپنی ضد چھوڑ کر بلدیاتی اداروں کو اختیار اور وسائل فراہم کرنے ہوں گے۔ میئر لندن صادق خان کا حالیہ دورہ پاکستان یہ پیغام دے رہا ہے کہ سیاسی قائدین نے اگر عوام کی فلاح و بہبود کو اپنی ترجیحات میں شامل کر لیا تووطن ِ عزیز کے شہروں کے میئر صاحبان بھی میئر لندن کی طرح وقار اور اعتماد کے ساتھ عوام اور میڈیا کا سامنا کر سکیں گے۔