منتخب کردہ کالم

میاں شریف بنام نواز شریف…سہیل وڑائچ

میاں شریف بنام نواز شریف…سہیل وڑائچ

(خاص پرائیویٹ) 786/92
ازمکافات نگر
13 جولائی 2017 بمطابق
18 شوال المکرم 1438 ھ
جان ِ پدر!!
سلام کے بعد ڈھیر ساری دعائیں۔ وفاق اخبار والے مصطفی صادق نے مجھے ابھی آ کر اطلاع دی ہے کہ تمہارے دشمن پھر سے متحرک ہو گئے ہیں اور جے آئی ٹی نے ہمارے سارے خاندان کے خلاف فیصلہ دے دیا ہے۔ میں نے یہ سنتے ہی مصطفی صادق سے یہ خط لکھوانا شروع کر دیا ہے۔ اسے خط نہ سمجھنا اسے برنگ سمجھنا بلکہ تار کا درجہ دینا اور اس میں‘ میں جو بھی ہدایات لکھ رہا ہوں ان پر اسی طرح ہو بہو عمل کرنا جس طرح میری زندگی میں تم بطور وزیراعظم کیا کرتے تھے۔ تمہیں یاد تو ہو گا کہ رفیق تارڑ کو صدر بنانے کا مشورہ میں نے ہی دیا تھا اور وہ آج تک ہمارا وفادار ہے‘ جبکہ تم نے میاں اظہر کو گورنر بنایا مگر یہ معاملہ چل نہ سکا۔ لوگوں کے بارے میں میری رائے ہمیشہ بہتر رہی لیکن تم کئی بار سادگی میں دھوکہ کھا جاتے ہو۔ مجھے مکافات نگر کے باخبر ذرائع نے بتایا ہے کہ تمہاری کابینہ کے اندر ہی کئی لوگ وزارت عظمیٰ کے امیدوار بنے بیٹھے ہیں۔ کئی ایک نے تو ”اِدھر اُدھر رابطے کر کے یہ یقین دہانی بھی کروا دی ہے کہ ہم تابعدار اور وفادار رہیں گے‘‘۔
پیارے بیٹے!
کل جنرل غلام جیلانی‘ جنرل حمید گل‘ مختار مسعود اور انور زاہد صاحب محلہ صنعت کاراں میں آئے ہوئے تھے۔ تھوڑی دیر بعد جنرل ضیاء الحق بھی ہنستے ہنستے وہاں آ گئے۔ تمہیں پتہ ہے کہ یہ سارے تمہارے دعاگو ہیں اور تمہارے اقتدار میں طوالت کی تدبیریں بتاتے رہتے ہیں۔ ان سب کا اجماع ہے کہ جے آئی ٹی کی رپورٹ دراصل ریاست کی تمہارے خلاف چارج شیٹ ہے اس لئے مشورہ یہ ہے کہ آپ کو کسی بھی صورت ملک کی اسٹیبلشمنٹ سے تعلقات خراب نہیں کرنے چاہئیں‘ خارجہ اور داخلہ پالیسی پر ان کی ہر بات پر سر جھکا دو۔ تمہارے سارے سرپرستوں کی یہی پختہ رائے ہے۔ میں تمہاری ہدایت اور رہنمائی کیلئے اس حوالے سے یہ پنجابی شعر بھی لکھ رہا ہوں
طوطیا من موطیا‘ توں اُوس گلی نہ جا
ایس گلی دے جٹ بھیڑے‘ تے لیندے پھائیاں پا
دوسری بات یہ ہے کہ ہمارے خاندان نے ہمیشہ عدلیہ کا احترام کیا ہے۔ ہمارے عدلیہ سے مثالی تعلقات رہے ہیں۔ جسٹس افضل لون‘ جسٹس خلیل الرحمان اور جسٹس رفیق تارڑ تو ہمارے فیملی ممبر جیسے تھے۔ جسٹس فضلی کا بھی ہمارے خاندان سے ایسا ہی تعلق رہا۔ جسٹس ملک قیوم اور جسٹس راشد عزیز بھی ہمارے گہرے تعلق والے تھے۔ مجھے لگتا ہے کہ تم لوگوں نے خاندانی روایات سے انحراف کرتے ہوئے اپنے تعلقات کو بگاڑ لیا ہے۔ اب بھی فوراً جسٹس رمدے سے مشورہ کرو‘ وہ تمہیں صحیح اور صائب مشورہ دیں گے۔
نواز پُتر!
ابھی ابھی سابق آئی جی چوہدری سردار محمد آیا تھا۔ اس نے تجویز دی ہے کہ موجودہ صورتحال میں سب سے بہتر یہ ہو گا کہ نواز خود چل کر عمران خان کے گھر بنی گالہ چلا جائے۔ اس حوالے سے چوہدری نثار اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ عمران اور تم مل بیٹھ کر الیکشن کا شیڈول طے کر لیں۔ عمران میں بڑی شرم اور حیا ہے۔ اگر اس کے گھر جائو گے تو وہ مان جائے گا۔ اسی طرح زرداری سے بھی معاملہ طے کیا جائے ۔باعزت راستہ صرف یہی ہے۔ میرے خیال میں متبادل وزیراعظم بنانے کا معاملہ کوئی فائدہ نہیں دے گا۔
متبادل وزیراعظم کے حوالے سے دیکھنا یہ ہے کہ اسحاق ڈار سینیٹر ہے‘ مریم ایم این اے نہیں ہے اور شہبازشریف صرف ایم پی اے ہے۔ متبادل امیدواروں میں احسن اقبال‘ خرم دستگیر‘ شاہد خاقان عباسی اور خواجہ آصف کے بارے میں بھی بات ہوئی۔ حمزہ کافی سمجھدار ہے۔ اگر موقع ملے تو سب سے پہلے اسے ترجیج دینی چاہیے۔ وہ خاندانی وقار کو بچانے کی کوشش کرے گا‘ لیکن حالات ایسے نہیں نظر آتے کہ اب ہمارے خاندان کو مرکز میں اقتدار لینے دیا جائے گا۔ اس لئے اب جانشین وزیراعظم کا انتخاب سوچ سمجھ کر کرنا۔ یہاں غلطی ہوئی تو مال و دولت اور سیاست سب کا خاتمہ ہو جائے گا۔ بہتر یہی ہو گا کہ براہ راست الیکشن کی طرف جایا جائے اور ساتھ ساتھ قانونی جنگ لڑی جائے۔
عزیزاز جان بیٹے!!
مجھے پتہ چلتا رہا ہے کہ جے آئی ٹی نے میرے بارے میں بڑے سوال اٹھائے ہیں انہیں آخر کیا حق پہنچتا تھا کہ وہ ایک مرے ہوئے شخص کی اس طرح توہین کریں۔ یہ جے آئی ٹی ضیاء الحق کے وقت بنتی تو وہ اسے ایسا مزہ چکھاتا کہ انہیں چھٹی کا دودھ یاد آ جاتا۔ دراصل اس میں ہمارے سارے دشمن اکٹھے ہو گئے تھے فی الحال ضرورت اس بات کی ہے کہ ایک قدم پیچھے ہٹا جائے‘ دوبارہ سے صف بندی کی جائے‘ اسٹیبلشمنٹ سے بگڑے تعلقات کو ٹھیک کیا جائے۔ بیرون ملک رابطے بہتر بنائے جائیں‘ عدل و انصاف کے لئے اپنے دوستوں اور ریٹائرڈ ججوں سے مدد مانگی جائے۔ رائے ونڈ بیٹھ کر سیاسی سرگرمیاں منظم کی جائیں۔ پارٹی قیادت شہبازشریف کے حوالے کی جائے اور سارا زور اس پر لگایا جائے کہ اگلے الیکشن میں زیادہ سے زیادہ نشستیں حاصل کی جائیں۔ کیونکہ ابھی چند دنوں بعد فارورڈ بلاک بننے کا خدشہ ہے۔ اراکین اسمبلی کے ساتھ ملاقاتیں بڑھائیں اور دوسری طرف ہر صوبے میں جلسے کریں یہ وقت ڈرنے کا نہیں‘ ڈٹ جانے کا ہے نہیں تو سیاست تو جائے گی ہی عزت و دولت‘ شہرت سب کچھ دائو پر لگ جائے گا۔
بخت آور بیٹے!!
پچھلی دفعہ 1999ء میں مارشل لا لگا تھا تو میں نے کیسے ایک طرف کلثوم کو متحرک کیا اور دوسری طرف سعودی عرب‘ لبنان اور امریکہ سے رابطے کر کے سارے خاندان کو صاف بچا لیا تھا۔ اب بھی اسی حکمت عملی کی ضرورت ہے یعنی محدود محاذ آرائی اور دوسری طرف مذاکرات۔ یہ دونوں کام اکٹھے چلیں گے تو تبھی اس بڑے بحران سے گلوخلاصی ہو گی ۔پہلے جان بچائیں پھر مال اور آخر میں سیاست۔ ان ترجیحات کو بالکل اسی طرح سے دیکھنا وگرنہ کوئی بڑا نقصان ہو جائے گا۔ کلثوم کو پھر سے آگے کریں‘ بھٹو بننے کا کوئی فائدہ نہیں جان بھی جائے گی اور سارا خاندان بھی مشکل میں پڑے گا۔ فی الحال مصلحت سے کام لینا ہی دانش مندی ہو گی۔
نواز!!
ذرا غور سے سنو! ابھی ابھی متین ہاشمی کا بیٹا سراج منیر آیا تھا۔ غصّے نہ ہونا! یہ آخری دنوں میں جتوئی کے ساتھ مل گیا تھا مگر مکافات نگر میں ہر روز میرے پاس آ کر تسلیمات بجا لاتا ہے۔ اس نے مشورہ دیا ہے کہ میں اور جنرل جیلانی‘ عمران خان کے والد اکرام اللہ نیازی اور شوکت خانم کے پاس محلہ انجینئراں جائیں اور جا کر شوکت خانم سے عمران کو کہلوائیں کہ ہماری عزت اس طرح خراب نہ کرے اب اسی کی باری ہے مگر وہ تحمل سے کام لے۔ ہمیں تباہی کے کنارے پہنچا کر اسے کیا مل جائے گا؟ جنرل جیلانی کا خیال ہے کہ یہ حربہ کارگر رہے گا اور ہم عمران خان کو کچھ ٹھنڈا کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ امید ہے محترمہ شوکت خانم بیٹے عمران کو سمجھا دیں گی۔
باقی رہ گئی طاقتور اور مقتدر قوتوں کی بات‘ جنرل ضیاء الحق اور حمید گل تمہارے ساتھ ہوتے تو یہ مسئلہ حل ہو جاتا۔ اب نیچے سب کچھ بدل چکا ہے بس تم ان قوتوں کو یہ شعر ضرور سنا دینا ؎
مَر مَر اک بناون شیشہ‘ مار وٹاّ اِک بھّن دے
دنیا اُتّے تھوڑے بندے قدر شناس سُخن دے
یعنی ہم مَر مَر کے شیشے جوڑیں اور لوگ پتھرائو کرتے ہیں‘ بہت ہی کم دانا لوگ ہوتے ہیں جو شاعری اور گفتگو کو صحیح طور پر سمجھ پاتے ہیں۔
کہنے کا مقصد یہ ہے کہ جمہوریت اور نظام پر سنگ برسانے سے سب کا نقصان ہو گا ‘ریاست کا سب سے زیادہ۔
والسلام محمد شریف (بقلم خود)

تیسرا آپشن … جاوید چودھری