کوئی تین سال قبل سرگودھا کے قریب ایک گائوں میں جلسے سے خطاب کرنا تھا۔ جلسے کا اہتمام میاں ظہور الحق مرحوم کے سکول میں تھا۔ وہاں مجھے لوگوں نے بتلایا کہ میاں صاحب نے اپنے گائوں میں ہائی سکول قائم کر کے اہل علاقہ کے بچوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنا شروع کیا۔ اس سکول میںبچوں کی تعلیم اور اسلامی تربیت پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے۔ ہزاروں بچے یہاں سے فارغ التحصیل ہو چکے ہیں۔ جب میں میاں صاحب کی وفات پر ان کے جنازے میں شامل تھا تو میاں صاحب کے ہشاش بشاش چہرے پر مجھے علم کے صدقہ جاریہ کا نور واضح نظر آ رہا تھا۔ جنازے سے پہلے مسجد کے ایک جانب میاں صاحب کی میت پڑی تھی اور ان کا بیٹا میاں عامر محمود محراب کے پاس اگلی صف میں بیٹھا ہاتھ پھیلائے اپنے اللہ سے باپ کی مغفرت کی دعا کر رہا تھا۔ میں میاں عامر صاحب سے ملا اور مجھے میاں ظہور الحق صاحب کا سکول یاد آ گیا اور ساتھ اللہ کے رسولؐ کا یہ فرمان کہ بندہ جب حساب کتاب کے لئے اپنے رب کے سامنے پیش ہو گا تو اس کے قدم اپنی جگہ سے ہل نہ پائیں گے جب تک وہ تین سوالوں کا جواب نہ دے لے گا۔ پہلا سوال یہ ہو گا کہ تجھے عمر دی تھی کہاں گزاری۔ اسی طرح ایک دوسری حدیث میں ہے، مرنے کے ساتھ ہی بندے کے اعمال کے بدلے کا سلسلہ فوراً ختم ہو جاتا ہے۔ ہاں ایسے علم کا عمل کہ جس سے لوگ فائدہ حاصل کرتے رہیں، اس کا بدلہ (ثواب)جاری رہتا ہے۔
اس لحاظ سے میاں ظہور الحق مرحوم خوش قسمت تھے کہ زندگی انہوں نے علم پروری میں گزاری۔ اپنے گائوں سے سکول کی صورت میں جس کار خیر کی بنیاد رکھی۔ ان کے بیٹے میاں عامر محمود نے انہی بنیادوں پرسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کی بلند و بالا ایسی علمی عمارات بنا دیں کہ جہاں سے لاکھوں طلبہ اور طالبات علم کے نور سے منور ہوئے، ہو رہے ہیں اور جب تک ہوتے رہیں گے اور پھر ان سے آگے جہاں جہاں یہ علم کا نور پھیلتا جائے گا میاں ظہور الحق کے حق میں صدقہ جاریہ بن کر ان کی قبر کو نور سے منور کرتا اور وسعت پیدا کرتا چلا جائے گا۔ حضورؐ نے یہ بھی فرمایا کہ اولاد جو اپنے ماں باپ کے لئے دعا کرتی ہے وہ بھی ماں باپ کے لئے نفع کا باعث بنتی ہے۔ یہ دعا کہ اے میرے رب میرے ماں باپ کو بخش دے، اللہ تعالیٰ نے نماز کا حصہ بنا دی ہے۔ بیٹے کی تربیت جو ماں باپ کے ہاتھوں ہوئی، اس کا ہر عمل ماں باپ کے لئے صدقہ جاریہ ہے۔ یوں میاں عامر محمود کے اٹھے ہوئے ہاتھ اور عاجزی کا انداز مجھے محترم میاں ظہور الحق مرحوم کی خوش قسمتی کی نوید دے رہا تھا۔
میاں ظہور الحق رحمہ اللہ ماڈل ٹائون کی مسجد میں فجر کی نماز باجماعت ادا کرتے، جس روز فوت ہوئے اس روز بھی فجر کی نماز انہوں نے مسجد میں ادا کی، یعنی آخر وقت تک نماز کی پابندی اور علم کے اداروں کی وسعت۔ اس پر میں محترم میاں عامر محمود سے عرض کر رہا تھا کہ عبادت ‘خدمت خلق اور علم کے نور میں گزری زندگی میں جب سفید بال آ جاتے ہیں توحضورؐ نے فرمایا یہ سفید بال قیامت کے دن نور بن جائیں گے۔ ان کی خدمت خلق کی گواہی محترم ظہور الحق صاحب کے دوست مولانا فضل الرحمن بن محمد دے رہے تھے ۔وہ بھی کوئی اسّی سال کے قریب ہیں۔ میاں عامر صاحب نے اپنے والد کے جنازے کے لئے اپنے والد کے دوست کا انتخاب کیا جنہوں نے مسنون دعائیں پڑھ کر آہ و زاری سے مغفرت طلب کر کے دوستی کا حق ادا کر دیا۔ میں سوچ رہا تھا، آخری روانگی اور رخصتی کا اہتمام بیٹے نے خوب دانائی سے کیا ہے، ایسی دانائی بھی اللہ کے فضل سے ہی ممکن ہے۔
آج میرا ملک علم دشمن دہشت گردوں کی دھمکیوں کی زد میں ہے۔ علم کے ادارے مجبوراً بند کرنا پڑتے ہیں۔ دہشت گرد اس سے خوش ہوتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں ہمیں ایک دن کے لئے بھی علم کے نور سے طلباء کو محروم نہیں کرنا چاہئے۔ سکیورٹی کا خیال اور اہتمام ضرور ہو مگر ادارے کچھ دنوں کے لئے بند کرنا مناسب نہیں۔ ان علم دشمن، خارجی دہشت گردوں کو کون سمجھائے کہ اللہ کے آخری رسول حضرت محمد کریمﷺ کے پاس حضرت جبریلؑ آئے، غار حرا میں آئے، اللہ کا پیغام لے کر آئے، قرآن لے کر آئے، انہوں نے حضورؐ سے کوئی بات نہیں کی، کوئی کلام نہیں کیا، گفتگو نہیں کی، سلام نہیں کیا، اپنی بانہوں کے حلقے میں حضورؐ کو لیا، بازوئوں کو پھیلا کر حضورؐ کو سینے سے لگایا، محبت و الفت اور اپنائیت کے ساتھ قدرے دبایا اور پہلا لفظ اپنی زبان سے نکال کر حضورؐ سے تقاضا کیا! ”اِقْرَا‘‘ پڑھئے… اللہ اللہ! میرے حضورؐ نے پڑھنا شروع کر دیا اور اسلام کا آغاز ہو گیا، کیا پڑھا، قارئین کرام! ملاحظہ ہو:
”اپنے اس رب کے نام کے ساتھ پڑھئے جس نے پیدا کیا۔ انسان کو جمے ہوئے خون سے بنایا، پڑھئے! کیونکہ آپ کا رب سب سے بڑھ کر کرم فرمانے والا ہے، جس نے قلم کے ساتھ تعلیم کو آگے بڑھایا، انسان کو وہ وہ علم دیا کہ جسے وہ جانتا نہ تھا۔‘‘ (سورہ علق)
جی ہاں! پہلی وحی کا آغاز ”اِقْرَا‘‘ سے، اللہ کی طرف سے آنے والا پہلا لفظ ”اِقْرَا‘‘ ،”اِقْرَا‘‘ کی اس قدر اہمیت کہ حضرت جبریل ؑنے حضورؐ سے پہلی ملاقات کی تو السلام علیکم کے بجائے ملاقات کا آغاز ”اِقْرَا‘‘ سے کیا۔ حضور نبی کریمؐ کی زبان مبارک سے جو پہلا لفظ نکلا وہ ”اِقْرَا‘‘ ہے۔ تیسری آیت کا آغاز پھر ”اِقْرَا‘‘ سے، چوتھی آیت میں تعلیم اور قلم کا تذکرہ ہے، پانچویں آیت میں پھر تعلیم کی بات ہے۔ لاعلمی سے علم کے حصول کی بات ہے، یعنی پہلی وحی پانچ آیات پر مشتمل ہے، پانچ آیتوں میں تعلیم اور اس سے متعلق علم کے الفاظ کی تعداد دیکھی جائے تو وہ چھ بنتی ہے، تعداد ملاحظہ ہو!
(1)”اِقْرَا‘‘، (2)”اِقْرَا‘‘، (3)عَلَّمَ، (4)اَلْقَلَمْ، (5)عَلَّمَ، (6)یَعْلَمَ
مندرجہ بالا چھ الفاظ میں سے دوالفاظ ”اِقْرَا‘‘ اور ”عَلَّمَ‘‘ دو دو بار ہیں۔ یعنی پڑھنا اور علم حاصل کرنا… یہ تکرار کے ساتھ آئے ہیں۔ یہ ہے اسلام کی پہلی وحی اور پھر وقفہ ہے۔
حضرت عبداللہ بن عباسؓ بتاتے ہیں کہ پہلی وحی کے بعد وقفہ چالیس دنوں کا تھا (الروض الانف: 420\1) معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے علم اور اس کی اہمیت پر غور وفکر کے لئے وقفہ دیا۔ اپنے پیارے رسولؐ کو وقت دیا کہ وہ علم اور تعلیم کی اہمیت پر تدبر فرمائیں۔ اقرا اور قلم کی عظمت پر سوچ بچار کریں۔ اللہ تعالیٰ نے چالیس دن عنایت فرمائے تاکہ اللہ کے آخری رسولؐ خوب غوروفکر کریں۔ اللہ کے رسولؐ کے غوروفکر کا انداز یہ تھا کہ آپؐ چادر اوڑھ لیتے اور لیٹ جاتے۔ خوب غوروفکر فرماتے، چادر اوڑھ کر اور لیٹ کر غوروفکر کرنا یہ حضورؐ کا انداز تھا۔ اللہ کو یہ انداز بہت پسند ہے۔ مولا کریم نے اس انداز کا تذکرہ اپنی کتاب میں ایک دوسرے مقام پر یوں کیا ہے!
”کیا شک ہے کہ آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں اور رات دن کے ادل بدل میں (سائنسی انداز میں) سوچنے والوں کے لئے یقینا بہت سی نشانیاں ہیں۔ ایسے لوگ اللہ کا کھڑے، بیٹھے ذکر کرتے ہیں اور اپنے پہلوئوں کے بل لیٹے لیٹے یاد کرتے ہیں اور کائنات کی پیدائش کے بارے میں غوروفکر کرتے ہیں۔‘‘ (آل عمران: 191)
قارئین کرام! ثابت ہوا کہ پہلو کے بَل لیٹ کر غوروفکر کرنا اللہ کے خصوصی بندوں کا طریقہ ہے اور حضرت محمد کریمؐ تو اپنے اللہ کے ایسے خصوصی بندے ہیں جو مولا کریم کے حبیب اور خلیل ہیں۔ رات کے پچھلے پہر غوروفکر کرنا بڑا خصوصی وقت ہوتا ہے کہ رات کی خاموشی اور سناٹے میں غوروفکر کا مزہ ہی اور ہوتا ہے۔ حضورؐ اس وقت اٹھتے تھے۔ مندرجہ بالا آیات کی تلاوت تہجد کے وقت کرتے تھے(بخاری4570-71) جی ہاں! پہلی وحی میں انسان کی پیدائش پر غوروفکر کی دعوت تھی تو مندرجہ بالا آیات میں کائنات کے راز معلوم کرنے کے لئے سائنس کے ہر شعبے میں غوروفکر کی دعوت ہے۔ ثابت ہوا کہ
(1)میڈیکل کی تعلیم بھی اِقْرَاہے۔
(2)انجینئرنگ کی تعلیم بھی اِقْرَاہے۔
(3)فلکیات کی تعلیم بھی اِقْرَاہے۔
(4)ہوابازی کی تعلیم بھی اِقْرَاہے۔
(5)زمین سے متعلق اور جیالوجی وغیرہ کی تعلیم بھی اِقْرَا ہے۔
(6)جغرافیہ اِقْرَاہے۔
(7)سائنس کے تمام شعبوں کی تفہیم اِقْرَا ہے۔
قارئین کرام! ہمارے حضورؐ چالیس دن تک غوروفکر فرماتے رہے، کھڑے بیٹھے بھی غور فرماتے مگر حضورؐ غور چادر اوڑھ کر اور لیٹ کر فرماتے۔ اپنے پہلو پر کروٹ بدل کر غور فرماتے۔ پہلو پر لیٹنے کا انداز یہ تھا کہ حضورؐ اپنے دائیں پہلو پر لیٹتے۔ اپنادایاں ہاتھ دائیں رخسار مبارک کے نیچے بچھاتے اور بایاں ہاتھ مبارک اپنے بائیں پہلو پر دراز فرما لیتے۔ جی ہاں! چادر کے اندر ہمارے حضورؐ ایسا انداز اختیار فرما کر لیٹتے اور غوروفکر فرماتے۔ اللہ تعالیٰ کو یہ انداز بہت پسند تھا چنانچہ چالیس دن پورے ہوئے تو مولا کریم نے اپنے حبیب کو مخاطب فرمایا اور چادر کے تذکرے سے مخاطب فرمایا!
یَاَیُّھَا الْمُدَّثِّر… اے کمبل اوڑھنے والے دوبارہ مخاطب فرمایا تو پھر اسی انداز سے… مگر اب آپؐ چادر اوڑھے ہوئے تھے، لہٰذا اب چادر والے کو اک نئے انداز سے یوں مخاطب فرمایا!
یَاَیُّھَا الْمُزَّمِّل…اے چادر اوڑھنے والے۔
قارئین کرام! معلوم ہوا علمی غوروفکر اللہ تعالیٰ کو انتہائی محبوب ہے، لہٰذا اللہ کے محبوب جو غوروفکر فرما رہے تھے اللہ نے انہیں مخاطب فرمایا تو انتہائی محبت اور پیارسے مخاطب فرمایا۔ الغرض! چالیس دن کا وقفہ علمی غوروفکرکا تھا۔ یہ غوروفکر حضورؐ کی مبارک چادر میں لپٹا ہوا تھا۔ میں اس مبارک چادر کو علم کی چادر کہوں گا۔ اس بابرکت چادر کو وحی کی چادر کہوں گا۔ لہٰذا علم کی بابرکت چادر میری قوم کے بچوں پر سایہ فگن رہنی چاہئے۔ علم کا دروازہ کھلا رہنا چاہئے۔ محترم ظہور الحق جیسے لوگ مبارک لوگ ہیں جو علم کا دروازہ کھول کر گئے ہیں۔ ہم اسے کھلا رکھیں گے تو جنت کا دروازہ بھی کھلا ہوا پائیں گے۔ حضورؐ نے فرمایا! باپ جنت کا درمیانی دروازہ ہے۔ میاں عامر محمود کو یہ دروازہ مبارک ہو۔ دنیا میں علم کا دروازہ آخرت میں جنت کا دروازہ ہے (ان شاء اللہ