منتخب کردہ کالم

میجر اسحاق اور اسحاق ڈار۔۔۔مزمل سہروردی

میجر اسحاق اور اسحاق ڈار۔۔۔مزمل سہروردی

مزمل سہروردی

ایک عجیب سی بے چینی ہے۔ کنفیوژن ہے۔ ابہام ہے۔ دکھ ہے۔ کرب ہے۔ محبت بھی ہے۔ نفرت بھی ہے۔ فخر بھی ہے۔ پشیمانی بھی ہے۔ کچھ سمجھ نہیں آرہا۔ ایک طرف میجر اسحاق کا نماز جنازہ ہے۔دوسری طرف اسحاق ڈار کی لندن سے چھٹی کی درخواست ہے۔ عجیب حسن اتفاق ہے دونوں کا نام اسحاق ہے۔ ایک نے وطن کے لیے جان دے دی ہے۔ دوسرا وطن سے بھاگ گیا ہے اور جان چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہے۔

ایک طرف میجر اسحاق کے معصوم بیٹے کی ہیلی کاپٹر میں اپنے والد کے جسد خاکی کے ساتھ تصویر۔ اس کی غمزدہ بیوہ جس کے سہاگ نے مادر وطن کے لیے اپنی جان قربان کر دی ہے۔ ہمیں ان جوانوں پر فخر ہے کہ یہ ہماری حفاظت کے لیے اپنی جان دے رہے ہیں۔

جس دن میجر اسحاق کا جنازہ لاہور میں ہوا ہے۔ اس دن میاں نواز شریف بھی لاہور میں تھے۔ بلاول بھی لاہور میں تھے۔ لیکن دونوں اس جنازہ میں شریک نہیں ہوئے۔ بلاول لاہور میں ایک شادی میں شریک تھے۔ نواز شریف بھی جاتی عمرہ میں تھے۔ یہ درست ہے کہ شہباز شریف شریک ہوئے۔ خواجہ سعد رفیق شریک ہوئے۔ لیکن یہ کافی نہیں ہے۔ وزیر اعظم کو شریک ہونا چاہیے۔ ساری سیاسی لیڈر شپ کو شریک ہونا چاہیے تاکہ ہم سرحد پر دشمن کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر کھڑے نوجوان کو پیغام دے سکیںکہ ہم تمھارے ساتھ ہیں۔

جو چپ رہے گی زباں خنجر لہو پکارے گا آستیں کا

دوسری طرف اپنے اسحاق ڈار ہیں۔ پاکستان سے نہیں وزارت سے پیار ہے۔ بستر علالت پر بھی وزارت چھوڑنے پر تیار نہیں ہیں‘حکومت پاکستان میں علاج لندن میں‘ دولت بیرون ملک۔ سیاست پاکستان میں عیاشی بیرون ملک۔ نہ خود پاکستان رہنے کو تیار۔ نہ بچے پاکستان رہنے کو تیار۔ نہ اپنی کوئی جائیداد پاکستان میں نہ بچوں کی کوئی جائیداد پاکستان میں۔

ایک نے جوان غمزدہ بیوہ چھوڑ دی ہے۔ کم سن بچہ چھوڑ دیا ہے۔ بوڑھے والدین چھوڑ دئے ہیں۔ غمگین بہنیں روتی چھوڑ دی ہیں۔ دوسرا عمر کے اس حصہ میں شادی کی افواہوں کی زد میں ہے۔ ایک قربانی کی عظیم لازوال داستان۔ دوسرا بے حسی کا نشان ہے۔ ایک پر قوم کو فخر۔ دوسرے کے ساتھی بھی اس سے پشیمان۔

ہمیں پاک فوج کے سیاسی کردار کے حوالے سے شدید اختلاف ہو سکتا ہے۔ لیکن ملک کی حفاظت کے لیے جب جب پاک فوج جرات و بہادری شجاعت کی داستان رقم کرتے ہیں۔ سر فخر سے بلند ہو جاتا ہے۔ سب داغ دھل جاتے ہیں۔ ان کی داستانیں سبز ہلالی پرچم کو سربلند رکھنے کے عزم کو مزید مستحکم کر دیتی ہیں۔

جہاں تک اسحاق ڈار کی چھٹی کی درخواست کا تعلق ہے۔ سیاسی حکومتیں جب ذاتی مفادات کی دلدل میں پھنس جاتی ہیں تو ایسا ہی ہوتا ہے۔ جب افراد اہم ہوجاتے ہیں تو عقل ختم ہو جاتی ہے۔ کیا مسلم لیگ (ن) کو یہ سمجھ نہیں آرہی کہ اسحاق ڈار اب ایک سیاسی بوجھ ہیں۔ یہ بوجھ اٹھانے کی اب مسلم لیگ (ن) متحمل نہیں ہو سکتی۔ اب انھیں وزارت سے رخصت ہو جانا چاہیے۔ اگر وہ و اقعی بیمار ہیں جس کے حوالہ سے کافی شکوک و شبہات موجود ہیں۔ لیکن پھر بھی اگر یہ مان لیا جائے کہ وہ بیمار ہیں تو وزارت سے رخصت لینا ایک مضحکہ خیز بات ہے۔ انھیں استعفیٰ دینا چاہیے۔ جب تندرست ہو جائیں تو واپس آ سکتے ہیں۔ سمجھ نہیں آتی کہ اسپتال میں بطو وزیر علاج کروانے میں کیا منطق ہے۔

مجھے امید ہے کہ لندن کے اسپتال میں انھیں وزیر ہونے کی وجہ سے کوئی پروٹوکول حاصل نہیں ہو گا۔ اگر علاج پاکستانی خرچ پر ہو رہا ہے تو یہ الگ بات ہے۔ ویسے تو یہ بھی کوئی راز کی بات نہیں ہے کہ اسحاق ڈار کیوں اہم ہیں۔ وہ نواز شریف کے سمدھی ہیں۔ لیکن وہ جب سمدھی نہیں تھے تب بھی اہم تھے۔ وہ رازدان ہیں۔ اور ایک کمزور رازدان ہیں۔ جلدی اگل دیتے ہیں۔ لیکن اب تو انھیں باہر نکال دیا گیا ہے۔ پھر بھی ان کی قربانی مشکل کیوں ہے۔ کیوں ان کے لیے ن لیگ اپنی سیاست کی قربانی دینے کے لیے تیار ہے۔

مجھے افسوس تو شاہد خاقان عباسی پر بھی ہے۔ چلو ہم نے برداشت کر لیا کہ وہ ملک کے منتخب وزیر اعظم ہوتے ہوئے بھی یہ کہتے ہیں کہ نواز شریف میرے وزیر اعظم ہیں۔ لیکن یہ کیا وہ اب اسحاق ڈار پر بھی خاموش ہیں۔ کم ازکم انھیں تو نواز شریف اور ان کے اہل خانہ کے سامنے یہ اسٹینڈ لینا چاہیے کہ صاحب بس کر دیں۔ اسحاق ڈار کو جانے دیں۔ اتنی ضد اچھی نہیں ہوتی۔

افسوس کی بات تو یہ ہے کہ ہم چند دن بعد میجر اسحاق کو بھول جائیں گے۔ ہمیں اس کا نام بھی یاد نہیں رہے گا۔کیونکہ اس سے پہلے بھی سیکڑوں نہیں ہزاروں نوجوانوں نے میجر اسحاق کی طرح مادر وطن کے لیے اپنی جانوں کی قربانی دی ہے۔ ہزاروں بوڑھے ماں باپ آج بھی ان شہدا کی یاد میں روز روتے ہیں۔ ان ہزاروں گھروں میں نہ ختم ہونے والا سوگ آج بھی جاری ہے۔

سوال یہ بھی ہے کہ فوج کے یہ جوان ملک و قوم کی حفاظت کی قسم کھاتے ہیں۔ اوراپنی جان کا نذرانہ دیکر اس قسم کو نبھاتے ہیں۔ اور یہ سیاستدان بھی ملک و قوم کی خدمت کی قسم کھاتے ہیں لیکن اپنی قسم بھول جاتے ہیں۔ مادر وطن سے غداری کرتے ہیں۔ اس کا خون چوستے ہیں۔ اس کی دولت لوٹتے ہیں۔اپنے بچوں کو بیرون ملک سیٹ کرتے ہیں۔ دولت بیرون ملک منتقل کرتے ہیں۔ اثاثے باہر رکھتے ہیں۔ ایک ان جوانوں کی قسم ہے اور ایک ان سیاستدانوں کی قسم ہے۔ کتنا فرق ہے دونوں قسموں میں۔

میں مانتا ہوں کہ ایسا نہیں ہے کہ پاک فوج میں سب ٹھیک ہے۔ وہاں بھی ایسی مثالیں ہیں۔جن پر انگلیاں اٹھائی جا سکتی ہیں۔ لیکن پھر بھی فوج نے بطور ایک ادارہ اپنی ساکھ قائم رکھی ہے۔ فوج میں شفاف ترقی کا ایک قابل تقلید نظام موجود ہے۔ احتساب کا بھی ایک ایسا نظام موجود ہے۔ جہاں کھلے عام کچھ نہیں ہو سکتا۔ یہ درست ہے کہ فوج نے اپنی جائز مراعات میں اضافہ کیا ہے۔ یہ اضافہ عدلیہ نے بھی کیا ہے۔ کیا ہی اچھا ہو سیاستدان بھی اپنی جائز مراعات میں اضافہ کر لیں اور چور دروازے بند کرنے پر توجہ دیں۔

دوسری طرف سیاسی جماعتیں اپنے اندر نہ تو احتساب کا کوئی نظام بنانے کے لیے تیار ہیں۔ بلکہ یہ کہنا بھی غلط نہ ہو گا کہ سیاسی جماعتیں احتساب کی ہر کارروائی کو اپنے لیے انتقامی کارروائی سمجھتی ہیں۔ ان کے خیال میں سیاستدانوں کو ہر قسم کے احتساب سے مبرا ہونا چاہیے۔ اب یہ کیسے ممکن ہے یہ الگ سوال ہے۔

کیا ہماری سیاسی جماعتیں میجر اسحاق جیسے جوانوں کے خون کے قرض کے جواب میں یہ اعلان کر سکتی ہیں کہ وہ اپنی بیرون ملک موجود تمام جائیدادیں اثاثے اور دولت واپس پاکستان لے آئیں گے۔ اپنے بچوں کو پاکستان لے آئیں گے۔ ان کا جینا مرنا پاکستان ہو گا۔ علاج پاکستان میں ہو گا۔ قبر پاکستان میں ہو گی۔ لیکن یہ سب خواب ہے۔ ممکن نہیں۔ کیونکہ ایک طرف میجر اسحاق اور ایک طرف اسحاق ڈار ہے۔ دونوں ہی پاکستان کے بیٹے ہیں۔ لیکن ایک نے ملک کے لیے جان دے دی۔ دوسرا چھٹی پر۔