منتخب کردہ کالم

میجر جنرل ضیاالحق کی عدالت! (غیر فوجی کالم) صولت مرزا

رائج الوقت جمہوریت میں سیاست کے رنگ نرالے ہیں۔ برسرِ اقتدار ہوں تو سرکاری من و سلویٰ کا کوئی حساب کتاب نہیں اور اپوزیشن سے وابستگی بھی اب نقصان کا سودا نہیں ہے۔ وہ دن گئے جب اپوزیشن ہر وقت حکومتِ وقت کو رخصت کرنے کے لیے جدوجہد میں مصروف رہتی تھی۔ قائدِ حزبِ اختلاف خورشید شاہ صاحب نے حال ہی میں اقرار کیا کہ تاریخی دھرنے کے دوران وزیر اعظم نواز شریف مستعفی ہونے کا فیصلہ کر چکے تھے‘ یہ سابق صدر آصف زرداری کی پیپلز پارٹی تھی جس کی حمایت کی بدولت شریف حکومت بچ گئی۔ یہ اور بات ہے کہ بعض مسلم لیگی رہنمائوں نے خورشید شاہ صاحب کے دعوے کی تردید کرتے ہوئے اسے خام خیالی قرار دیا۔ تاہم یہ حقیقت ہے کہ وطنِ عزیز میں رائج پارلیمانی نظام میں برسرِ اقتدار اور حزبِ اختلاف میں فی الحال دوستانہ ماحول ہے۔ سب پانامہ کیس کے فیصلہ کا انتظار کر رہے ہیں‘ جس کے بعد مستقبل کا سیاسی منظرنامہ واضح ہو سکے گا۔ انتظار کی گھڑیاں طویل ہو رہی ہے اور سیاسی اکابرین کی بے چینی بڑھ رہی ہے۔ ایسے ماحول میں وقت گزاری کے لیے صفِ اول کی سیاسی جماعتوں کو ریٹائرڈ آرمی چیفس کی یاد ستانے لگی ہے۔ برسرِ اقتدار مسلم لیگ (نواز) نے روز ِاول سے جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف احتجاج جاری رکھا ہوا ہے۔ کبھی کبھار بعض وزرا سربکف حالت میں بیانات جاری کرتے ہیں۔ یہ تشویشناک طرزِ عمل دیکھ کر گھبراہٹ ہوتی ہے کہ شاید جنرل مشرف ن لیگ کے لیے دوبارہ حقیقی خطرہ بن رہے ہیں۔ دوسری جانب پیپلز پارٹی نے جنرل محمد ضیاالحق کو اپنے بیانات میں زندہ رکھنے کی قسم اٹھا رکھی ہے۔ چند روز قبل بیرسٹر اعتزاز احسن نے یہ اعلان فرمایا کہ پیپلز پارٹی جنرل ضیاالحق کا ٹرائل کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ انہوں نے سپریم کورٹ سے درخواست کی کہ سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل کے حوالے سے دائر ریفرنس کی جلد سماعت کی جائے۔ تحریک انصاف کو گرچہ تاخیر سے خیال آیا؛ تاہم اس نے ایک اور ریٹائرڈ آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی پر کمند ڈالنے کی کوشش کی۔ تحریک انصاف کے سینئر رہنما نعیم الحق نے الزام لگایا کہ 2013 کے انتخابات میں اس وقت کے آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی مبینہ دھاندلی میں شریک تھے۔ یوں تین بڑی سیاسی جماعتوں نے فی کس ایک ریٹائرڈ آرمی چیف کو وسیع تر سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے نشانے پر رکھا ہوا ہے۔ کم از کم میڈیا ٹرائل کی حد تک تینوں جماعتیں خاصی سرگرم ہیں۔ تحریک انصاف منفی ردِ عمل کے خوف سے خاموش ہو گئی ہے۔ شیر اور تیر کی مانند بلے والے بھی وفاقی سطح پر برسر اقتدار آنے کے بعد کھل کر اپنی سیاسی خواہشات کی تکمیل کر سکتے ہیں۔
تین سابق آرمی چیفس میں سے جنرل ضیا الحق اس دنیا میں نہیں ہیں۔ کم ازکم ان کے حوالے سے پیپلز پارٹی کی تازہ ترین موقف پر حیرانی کا اظہار کیا جا سکتا ہے۔ سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلے کی رو سے پھانسی دی گئی تھی۔ یہ متفقہ فیصلہ نہیں تھا۔ بھٹو صاحب کی رحلت کے بعد ان کی صاحبزادی بے نظیر بھٹو صاحبہ وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر فائز رہیں۔ لیکن انہوں نے کبھی ٹرائل وغیرہ کی بات نہیں کی۔ اب اپریل 2017 میں اچانک یہ خیال اس بات کی نشاندہی کر رہا ہے کہ سابق صدر آصف زرداری کی پیپلز پارٹی عوام کو درپیش حقیقی مسائل سے پہلوتہی کے مرض میں مبتلا ہو گئی ہے۔ پسماندہ علاقوں میں موجود ووٹروں کے جذبات بھڑکانے کے لیے ایک نان ایشو درکار ہے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ تیر والے سوچ رہے ہوں کہ ریٹائرڈ آرمی چیف کے ٹرائل کی دوڑ میں وہ کہیں مسلم لیگ (نواز) سے پیچھے نہ رہ جائیں۔ لطف کی بات یہ ہے کہ نجی ٹی وی چینلز کے سامنے یہ مطالبہ ایک ایسی شخصیت نے کیا‘ جنہیں ماضی بعید میں ایک وکیل کی حیثیت سے جنرل محمد ضیا الحق کی عدالت میں پیش ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔
یہ قصہ اٹک سازش کیس کا ہے۔ 1973 میں آرمی اور ایئرفورس کے متعدد افسر بغاوت کے الزام میں گرفتار کیے گیے تھے۔ آرمی کے افسروں کے لیے فیلڈ جنرل کورٹ مارشل تاریخی قلعے اٹک میں ترتیب دیا گیا۔ میجر جنرل ضیاالحق کی سربراہی میں قائم مقام عدالت میں بریگیڈیئر (بعد میں لیفٹیننٹ جنرل) جہانداد خان اور برگیڈیئر( بعد میں میجر جنرل) رحمت علی شاہ بخاری سمیت متعدد افسر شامل تھے۔ مجھے آئی ایس پی آر کی جانب سے دو صحافیوں محمد عزیر صاحب (اے پی پی) رمضان عادل صاحب (پی پی آئی) کو فنی معاونت کے لیے تعینات کیا گیا تھا۔ میں عدالت میں پیشی والے دن علی الصبح راولپنڈی سے اٹک قلعے جایا کرتا تھا۔ سفر کے لیے ایک بزرگ ترین سرکاری جیپ تھی۔ اس میں سوار ہو کر آئی ایس پی آر کے جونیئر ترین لیفٹینٹ کو اہم ترین فوجی مقدمے کی صحافتی قلم بندی کا فریضہ انجام دینا تھا۔ عدالتی کارروائی کے بعد پریس ریلیز تیار کرکے عدالت کے کسی ایک رکن سے منظوری حاصل کرنے کے بعد واپس آئی ایس پی آر بروقت آمد کے احکامات تھے۔ ڈرافٹ پریس ریلیز کا پہلے آئی ایس پی آر کے سربراہ برگیڈیئر فضل الرحمن جائزہ لیتے اس کے بعد یہ پی آئی ڈی میں پرنسپل انفارمیشن آفیسر افضال زیدی صاحب کے حضور پیش کیا جاتا تھا‘ جو اعلی ترین سطح پر منظوری کے بعد اسے میڈیا میں ریلیز کر دیتے تھے۔
اٹک قلعے میں میجر جنرل ضیاالحق کی عدالت میں ایک جانب ملزمان کی صورت میں پاک آرمی کے چنیدہ افسر تھے۔ ان میں سے کئی بھارتی قید سے سرنگ کھود کر فرار ہوئے تھے۔ کچھ جنگی ہیروز بھی تھے۔ ان پر الزام تھا کہ انہوں نے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے خلاف بغاوت کا منصوبہ بنایا تھا۔ استغاثہ کے مطابق بغاوت پر آمادہ آرمی افسروں کا خیال تھا کہ سقوطِ ڈھاکہ میں پیپلز پارٹی کے بانی نے منفی کردار ادا کیا‘ جس کے باعث بھارتیوں اور باغیوں کو مذموم عزائم کی تکمیل میں بھرپور مدد ملی۔ مقدمہ کی کارروائی روزانہ کی بنیاد پر جاری ہوتی تھی۔ ملزمان کے وکلا میں شیخ منظور قادر صاحب، ایس ایم ظفر صاحب، اعجاز حسین بٹالوی صاحب اور بیرسٹر اعتزاز احسن صاحب ایسے صفِ اول کے وکلا بھی شامل تھے۔ عدالت کا ماحول بے حد دوستانہ تھا۔ تمام وکلا عدالت میں ادب و احترام کے تمام تقاضوں پر عمل پیرا تھے۔ میجر جنرل ضیاالحق بھی انتہائی انکساری کے ساتھ سینئر وکلا سے رہنمائی کے طالب دکھائی دیتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ وکلا کی جانب سے افواج میں کربنگ کی روایت کو دلیل کے طور پر پیش کیا گیا تو انگلش ڈکشنریوں کی مدد سے مختلف معانی زیرِ بحث آئے اور اس حوالے سے میجر جنرل محمد ضیاالحق نے دلچسپ پیرائے میں ملزمان کے وکلا کے استدلال کو متعدد شواہد سے بظاہر تقویت دی۔ ملزمان کے وکلا اصرار کر رہے تھے کہ گرفتار آرمی افسر بغاوت کا منصوبہ نہیں بنا رہے تھے۔ وہ محض کربنگ میں مصروف تھے۔ اٹک قلعے میں عدالتی کارروائی کے بعد ظہرانے کا انتظام بھی تھا‘ جس میں فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کے تمام ممبران، اسثتغاثہ اور ملزمان کے وکلا اور ہم تین لکھاری بھی عموماً شرکت کرتے تھے۔ ظہرانے کی میز پر بھی مرکزِ نگاہ میجر جنرل محمد ضیا الحق تھے۔ بیرسٹر اعتزاز احسن بھی اپنی دلنشین گفتگو سے آف دی کورٹ چھائے رہتے تھے۔ بعد میں فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کا فیصلہ آیا تو صرف میجر طارق پرویز بری ہوئے‘ باقی تمام ملزمان کو طویل المدت سزائیں سنائی گئیں۔ سزا یافتہ آرمی افسر جیلوں میں منتقل ہو گئے۔ میجر جنرل ضیاالحق کچھ مدت کے لیے میڈیا میں لا پتہ رہے۔ بعد ازاں انہیں لفٹیننٹ جنرل کے رینک پر ترقی دے کر ملتان کور کی کمان دی گئی۔ بھٹو صاحب نے جنرل ٹکا خان کی ریٹائرمنٹ کے بعد انہیں چیف آف آرمی سٹاف تعینات کر دیا۔ اس کے بعد جو کچھ بھی ہوا وہ تاریخ ہے۔ عام انتخابات کے بعد مبینہ دھاندلی کے خلاف ملک گیر ہنگامے پھوٹ پڑے۔ بھٹو صاحب کے حکم پر لاہور اور کراچی میں مارشل لا لگا دیا گیا‘ جس کو چیف آف آرمی سٹاف نے بعد ازاں ملک گیر حیثیت دے دی اور صاحبِ اقتدار ہو گئے۔
واقعات کا طویل سلسلہ ہے۔ بدقسمتی سے صفِ اول کی سیاسی جماعتیں کئی دہائیاں گزرنے کے باوجود الٹا پھرنے کا طرز عمل اپنانے پر مصر ہیں۔ ریٹائرڈ آرمی چیفس کے عدالتی یا میڈیا ٹرائل سے کیا حاصل ہو گا؟ سیاست میں وقت گزاری کے لئے اور بھی مشاغل ہیں۔ یہ وتیرہ اب ترک کر دینا چاہیے کہ حاضر سروس آٓرمی چیف کے واری صدقے اور ریٹائرمنٹ کے بعد ٹرائل کا پہاڑہ گنگنانا شروع کر دیا جائے۔ حال ہی میں گورنر سندھ محمد زبیر صاحب نے ایک اجتماع میں تقریر کرتے ہوئے جنرل (ر) راحیل شریف کی شخصیت کو متنازعہ بنانے کی کوشش کی۔ ایسے بیان کا کیا فائدہ جس کی وضاحت کے لیے مزید کئی بیانات درکار ہوں۔ 2018 کے متوقع عام انتخابات میں اب تھوڑا عرصہ ہی رہ گیا ہے۔ مناسب ہو گا کہ سیاسی قائدین عوام کو درپیش مسائل کے حل کے لیے ٹھوس اقدامات پر اپنی توجہ مرکوز رکھیں۔ ریٹائرڈ آرمی چیفس کا ٹرائل تاریخ لکھنے والوں پر چھوڑ دیں۔ وہ بہتر انداز میں کسی تعصب کے بغیر ان کے ادوار کا جائزہ لے سکتے ہیں۔