میری دوسری محبت…خالد مسعود خان
یوسفی صاحب رخصت ہوئے اور اردو کا نثری مزاح یتیم ہو گیا۔ محبت ایک ایسا مشکل کام ہے جو آپ کے اختیار میں نہیں۔ بعض لوگوں کو محبت کی ہڑک ہوتی ہے اور وہ ملتان سے لاہور ٹرین کے سفر میں چار پانچ بار محبت کے تجربے سے گزر سکتے ہیں‘ لیکن اس عاجز کے نزدیک یہ محبت نہیں محبت کی فوٹو کاپی ہے‘ جو ایک بٹن دبا کر درجنوں کی تعداد میں نکالی جا سکتی ہے۔ میرے ایک دوست کا خیال تھا کہ میں محبت کرنے سے بالکل عاری شخص ہوں۔ اس نے ایک بار پوچھا کہ کیا میں نے کبھی محبت کی؟ میں نے کہا: دو بار (یہ پرانی بات ہے، 1986 سے پہلے کی) وہ بڑا حیران ہو ا۔ یہ اس کے لیے بالکل خلاف توقع جواب تھا۔ اس کا منہ حیرانی سے کھلا رہ گیا۔ میں نے کہا، جی ہاں! دو بار۔ ایک بار لڑکپن میں شفیق الرحمان سے اور دوسری بار جوانی میں،مشتاق احمد یوسفی کے ساتھ۔
ہم لوگ اردو نثر کے مزاح کے حوالے سے ‘عہدِ یوسفی‘ میں جی رہے تھے۔ اخبارات میں آیا ہے کہ ‘عہد یوسفی‘ کا اختتام ہوا‘ لیکن ایمانداری کی بات ہے کم از کم مجھے اس جملے سے اختلاف ہے۔ ہم عہدِ یوسفی میں جی رہے تھے۔ ہم عہدِ یوسفی میں جی رہے ہیں اور جب تک مشتاق احمد یوسفی کی پانچ کتابیں میری لائبریری کی تیسری الماری کے پہلے خانے میں موجود ہیں عہدِ یوسفی بھلا کیسے اختتام پذیر ہو سکتا ہے؟ اردو نثر کے ایک بہت بڑے نام مرحوم مختار مسعود‘ نے بیروت میں موجود ایک زیرِ زمین آبی محل کا تذکرہ کیا تھا۔ میں کیا لکھوں؟ ان کے نثر پڑھنے کی چیز ہے بیان کرنے کی نہیں۔ پھر لکھا کہ سنا ہے بیروت کی خانہ جنگی میں ہونے والی بمباری اور دھماکوں کے نتیجے میں یہ محل منہدم ہو گیا ہے۔ انہوں نے اس انہدام پر افسوس اور تاسف کا اظہار کرنے کے بجائے لکھا کہ ”مسافر کو کوئی ملال نہیں۔ مسافر جب چاہتا ہے یادوں کا دریچہ کھولتا ہے اور اس محل کی سیر کر لیتا ہے‘‘ سو ہمارے ساتھ بھی یہی معاملہ ہے۔ جب چاہیں گے، چراغ تلے، خاکم بدھن، زرگزشت، آبِ گم یا شامِ شعرِ یاراں اٹھائیں گے اور اپنے تئیں یوسفی صاحب کے ساتھ ان کے عہد میں سانس لیں گے کہ ان کے چلے جانے کے بعد بھی ان کا عہد ختم نہیں ہوا۔ بھلا ایسی تحریروں کی موجودگی میں ان کا عہد کیسے ختم ہو سکتا ہے؟
میری یوسفی صاحب سے کل تین ملاقاتیں ہوئیں۔ اور بھلا تین بھی کیسے؟ دو تو بس ہاتھ ملانے اور حال چال پوچھنے پر مبنی تھیں۔ ملاقات تو بس ایک تھی۔ فیصل آباد کے چناب کلب کے پرانے کمروں والے یونٹ میں تب نئے کمرے نہیں بنے تھے۔ میں مشاعرے کے سلسلے میں فیصل آباد آیا تھا۔ استقبالیہ والے نے مجھے پہچان لیا اور بتایا کہ مشتاق یوسفی صاحب بالائی منزل کے فلاں کمرے میں ٹھہرے ہوئے ہیں۔ میں نے اپنا بیگ کمرے میں رکھا اور مشتاق یوسفی صاحب کے کمرے کے دروازے پر دستک دی۔ جواب ملا: آ جائیں! میں اندر چلا گیا۔ مجھے بے حد خوشی ہوئی کہ مجھے یوسفی صاحب نے پہچان لیا۔ حیرانی بھی ہوئی کہ ایسی مسجع و مقفع اردو لکھنے والے اتنے بڑے لکھاری کو مجھ جیسے نالائق کی نہ صرف شکل بلکہ نام بھی یاد ہے۔ میں ایک ڈیڑھ گھنٹہ ان کے ساتھ بیٹھا رہا۔ اس دوران ان کے میزبان بھی آ گئے۔ ہم ان سے چھوٹے چھوٹے سوال کر کے ان کی گفتگو سنتے رہے اور لطف لیتے رہے۔ یک سطری جملے ان کی خصوصی پہچان تھے۔ ایسے ایسے جملے کہ محض ایک سطر میں سمو جانے والے یہ جملے پورے پورے صفحے پر بھاری۔ وہ شام میری زندگی کی یادگار ترین شام تھی۔
میں بہت کم آٹو گراف لیتا ہوں۔ بلکہ اب ایک عرصہ سے تو یہ کام بالکل ترک کر دیا ہے۔ پرانی آٹو گراف پڑی ہے۔ اس میں ہاکی کے کھلاڑیوں کے دستخط ہیں۔ رشید جونیئر، شہباز شیخ، سلیم شیروانی اور اصلاح الدین وغیرہ جن کے نام بھی اب نئی نسل کو نہیں آتے۔ میںنے ایک صاف سا کاغذ لیا اور یوسفی صاحب کے آگے کر دیا۔ انہوں نے میرا نام لکھا اور دستخط کر دیئے۔ خوبصورت تحریر لکھنے والے نے نہایت خوشخط تحریر میں یہ سب کچھ لکھا۔ میں نے کاغذ چار تہہ کر کے اپنے پرس میں رکھ لیا۔ یہ تحریر میرے پرس میں کئی سال پڑی رہی جب پرس بدلا تو اسے پرانے پرس سے نکالنے کے بجائے پرانے پرس سمیٹ اپنی سائیڈ ٹیبل کے دراز میں رکھ دیا۔ اس پرس میں ایک اور تحریر بھی تھی۔ میری اہلیہ نے مجھے ایک نظم لکھ کر بھجوائی تھی۔ وہ بھی اسی خانے میں تھی۔
میں برطانیہ تھا کہ ایک سلسلے میں میرے شناختی کارڈ کی ضرورت پڑی۔وہ دراز میں تھا۔ میری اہلیہ نے فون پر شناختی کارڈ کا پوچھا میں نے بتایا کہ وہ دراز میں ہے۔ اس کی تلاش میں میری اہلیہ نے پرانا پرس کھولا تو اس میں اس کی بھیجی ہوئی گلابی کاغذ پر تحریر نظم اور یوسفی صاحب کے آٹو گراف اکٹھے پڑے تھے۔ میں برطانیہ سے واپس آیا تو میری اہلیہ نے کہاکہ آپ نے میری نظم برسوں سے سنبھال رکھی ہے؟ پھر پوچھا: یوسفی کے دستخط کب سے اس پرس میں ہیں؟ میں نے کہا: تمہاری نظم سے بھی دو چار سال پہلے کے۔ یوسفی صاحب سے میری محبت کا اسے اندازہ تھا۔ کہنے لگی: مجھے بڑی خوشی ہوئی کہ میری نظم کو آپ نے یوسفی صاحب کے آٹو گراف کے ساتھ رکھا ہوا ہے۔ پرسوں دراز کھول کر دونوں تحریریں دوبارہ پڑھیں اور پھر دونوں کو پرانی تہوں کے مطابق تہہ کیا۔ پرس کے اسی خانے میںرکھا اور دراز کو تالا لگا دیا۔ ایسا پہلی بار نہیں ہوا۔
یوسفی صاحب کے چند ”ون لائنرز‘‘ یعنی ایک سطری جملے
٭ مرد کی آنکھ اور عورت کی زبان کا دم سب سے آخر میں نکلتا ہے۔
٭ دشمنوں کے حسب عداوت تین درجے ہیں، دشمن، جانی دشمن اور رشتے دار۔
٭مسلمان کسی ایسے جانور کو محبت سے نہیں پالتے جسے ذبح کر کے کھا نہ سکیں۔
٭ محبت اندھی ہوتی ہے۔ چنانچہ عورت کے لیے خوبصورت ہونا ضروری نہیں، بس مرد کا نابینا ہونا کافی ہے۔
٭ بڑھاپے کی شادی اور بینک کی چوکیداری میں زرا فرق نہیں۔ سوتے میں بھی ایک آنکھ کھلی رکھنی پڑتی ہے۔
٭آدمی ایک بار پروفیسر ہو جائے تو عمر بھر پروفیسر ہی رہتا ہے، خواہ بعد میں سمجھداری کی باتیں ہی کیوں نہ کرنے لگ جائے۔
٭ اختصار ظرافت اور زنانہ لباس کی جان ہے۔
٭گالی، گنتی، سرگوشی اور گندہ لطیفہ اپنی مادری زبان میں ہی مزہ دیتا ہے۔
٭انسان واحد حیوان ہے جو اپنا زہر دل میں رکھتا ہے۔
٭مرد عشق و عاشقی صرف ایک ہی مرتبہ کرتا ہے۔ دوسری مرتبہ عیاشی اور اس کے بعد نری بدمعاشی۔
٭قبر کھودنے والا ہر میت پر آنسو بہانے بیٹھ جائے تو روتے روتے اندھا ہو جائے۔
٭تماشے میں جان تماشائی کی تالی سے پڑتی ہے مداری کی ڈگڈگی سے نہیں۔
٭جس بات کو کہنے اور سننے والا دونوں ہی جھوٹ سمجھیں اس کا گناہ نہیں ہوتا۔
٭فرضی بیماریوں کے لیے یونانی دوائیں تیر بہدف ہوتی ہیں۔
٭جس دن بچے کی جیب سے فضول چیزوں کے بجائے پیسے برآمد ہوں تو سمجھ لینا چاہئے کہ اب اسے بے فکری کی نیند کبھی نصیب نہیں ہو گی۔
٭ادب اور صحافت میں ضمیر فروش سے بھی زیادہ مفید طلب ایک اور قبیلہ ہوتا ہے جسے مافی الضمیر فروش کہنا چاہئے۔
اب اس آخری جملے کے بعد بھلا کیا لکھا جا سکتا ہے سوائے اس کے کہ رب کائنات مشتاق احمد یوسفی صاحب کی ”خطائوں سے درگزر فرمائے، ان کے لئے آسانیاں پیدا کرے اور انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ ہمیں اپنے رحمن اور رحیم رب سے اسی کا یقین ہے۔