میلادا لنبی ﷺ کی شرعی حیثیت …(آخری قسط)…مفتی منیب الرحمٰن
شیخ الحدیث علامہ غلام رسول سعیدی نے شرح صحیح مسلم ‘ جلد :3‘ ص:169تا190میں میلادالنبیﷺکے موضوع پر تفصیلی گفتگو کی ہے۔انہوںنے احناف کے مسلَّمہ اکابر علامہ ابن عابدین شامی کی ”شَرحُ الْمَوْلِد لِابْنِ حَجربحوالہ: جواہر البحار‘ جلد:3‘ص:340‘‘ اورملاّ علی قاری کی ”اَلْمَوْلِدُالرَّوِی فیِ الْمَوْلدِالنَّبَوِی‘ص:7-8‘‘ کے حوالے سے ثابت کیا کہ یہ اکابرِ اُمّت بھی میلادالنبی ﷺ کے جواز کے قائل تھے۔
نیٹ پر ایک سعودی عالم نے عید میلاد النبی ﷺ کی نفی کے لیے یہ موقف اختیار کیا کہ احادیثِ مبارکہ میں صرف عیدین ‘یعنی عید الفطر اور عید الاضحی کا ذکر ہے ‘ کسی اور عید کا ذکر نہیں ہے ‘ ان کی خدمت میں دو احادیثِ مبارکہ پیش کی جارہی ہیں:
(1)”حضرت ابوہریرہ بیان کرتے ہیں: میں نے رسول اکرمؐ کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا: یومِ جمعہ عید ہے ‘سو اپنی عید کے دن روزہ نہ رکھو ‘ سوائے اس کے کہ اُس سے ایک دن پہلے یا ایک دن بعد کو ملا کر رکھو‘‘ (المستدرک للحاکم:1595‘ مسند احمد:8025)۔
(2)”حضرت نعمان بن بشیر بیان کرتے ہیں: رسول اللہ ﷺ عیدین اور جمعہ میں (پہلی رکعت میں )سورۃ الاعلیٰ اور(دوسری رکعت میں) سورۃ الغاشیہ پڑھتے تھے اور کبھی جمعے کے دن عید واقع ہوجاتی تو آپ ﷺ جمعہ اور عید دونوں کے خطبات میں یہ دو سورتیں پڑھتے تھے‘ ابو عوانہ کے الفاظ یہ ہیں:کبھی ایک دن میں دو عیدیں جمع ہوجاتیں (یعنی ایک یومِ عید اور دوسرا یومِ جمعہ )‘‘ (مسند احمد:18409)۔
ان دونوں احادیث میں رسول اکرمؐ نے یومِ جمعہ کو یومِ عید قرار دیا ہے ‘لہٰذا یہ کہنا کہ عیدین کے علاوہ کسی اور دن کے لیے عید کا کوئی تصور نہیں ہے ‘درست نہیں ہے؛ چنانچہ گزشتہ کالم میں ہم نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حوالے سے نزولِ مائدہ کو عید قرار دیے جانے کا ثبوت سورۂ مائدہ کے حوالے سے درج کیا ۔
برصغیر کی مسلّمہ دینی وعلمی شخصیت شاہ ولی اﷲ محدّث دہلوی ”اَلدُّ رُالثَّمِیْن فِیْ مُبَشَّرَاۃِ النَّبِیِ الْاَمِیْن‘‘میں لکھتے ہیں:
”میلاد کا اہتمام میرے والد گرامی(شاہ عبدالرحیم ) فرماتے تھے کہ میں یومِ میلاد کے موقعہ پر کھاناپکوایاکرتاتھا۔اتفاق سے ایک سال کوئی چیز میسر نہ آسکی کہ کھاناپکواؤں ‘ صرف بھنے ہوئے چنے موجود تھے؛چنانچہ یہی چنے میں نے لوگوں میں تقسیم کیے۔خواب میں دیکھاکہ آنحضرتﷺتشریف فرماہیں‘یہی چنے آپ کے سامنے رکھے ہیں اورآپ نہایت خوش اور مسرور دکھائی دے رہے ہیں‘‘ (رسائل ِ شاہ ولی اﷲ دہلوی: 254) یعنی میلاد کایہ اہتمام رسول اکرم ﷺکی نظرمیں محبوب تھا۔
شیخ عبداللہ بن محمد بن عبدالوہاب نجدی” مختصر سیرۃ الرسول ‘‘ میں لکھتے ہیں: ”ثُوَیبہ ابولہب کی باندی تھی ‘ جب نبی کریم ﷺ کی ولادت ہوئی‘تواس نے اپنے آقا کو بھتیجے کی ولادت کی خوشخبری سنائی‘اس خوشی میں ابولہب نے انگلی کے اشارے سے اُسے آزادکردیا‘ بعدمیں ثُوَیبہ نے آپ ﷺکو دودھ بھی پلایا۔ابولہب کی وفات کے بعد کسی نے اسے خواب میں دیکھا اور پوچھاکہ تمہارے ساتھ کیاسلوک ہوا؟اس نے بتایا: تم سے جدا ہونے کے بعد عذاب میں مبتلاہوں‘ مگرہرپیرکے دن انگلی سے ٹھنڈک ملتی ہے۔پس مقامِ غور ہے کہ جب ابولہب جیسے دشمن ِ رسول کافرکو ولادتِ محمد بن عبداللہ کی خوشی منانے پر جہنم میں راحت مل سکتی ہے‘ تو ایک مسلمان کومحمد رّسول اللہﷺکی ولادت کی خوشی منانے پر بے پایاں اجرکیوں نہیں ملے گا؟‘‘یہ عبارت کاخلاصہ ہے۔ امام محمد بن اسماعیل بخاری نے بھی قدرِاختصار کے ساتھ اسی واقعہ کو بیان کیا ہے‘‘(صحیح بخاری:5101)۔
علامہ سعیدی نے علمائے دیوبند کے شیخِ طریقت حاجی امداداللہ مہاجر مکی کا یہ قول نقل کیا: ”اور مَشرَب فقیر کا یہ ہے کہ محفلِ مَولِد میں شریک ہوتاہوں‘بلکہ ذریعۂ برکات سمجھ کرہرسال منعقد کرتاہے اورقیام میں لطف ولذت پاتاہوں‘‘(فیصلہ ہفت مسئلہ:05)… وہ مزید لکھتے ہیں: ”ہمارے علماء مَولِد شریف میں بہت تنازعہ کرتے ہیں‘تاہم علماء جواز کی طرف بھی گئے ہیں‘جب صورت جواز کی موجود ہے‘پھر کیوں ایسا تشدد کرتے ہیں اور ہمارے واسطے اِتَّباعِ حرمین کافی ہے‘البتہ وقت قیام کے اعتقاد تولُّد کا نہ کرنا چاہیے‘اگر احتمالِ تشریف آوری کیا جاوے ‘ مُضائقہ(حرج)نہیں‘کیونکہ عالم خَلق مقید بہ زمان ومکان ہے ‘لیکن عالَم اَمر دونوں سے پاک ہے ‘ پس قدم رنجا فرمانا ذاتِ بابرکات کا بعید نہیں ‘‘…وہ مزید لکھتے ہیں: ”مولِد شریف تمام اہلِ حرمین کرتے ہیں‘ اسی قدر ہمارے واسطے حجت کافی ہے اور حضرتِ رسالت پناہ کا ذکر کیسے مذموم ہوسکتاہے؟ البتہ جو زیادتیاں لوگوں نے اختراع کی ہیں ‘ نہ چاہئیں اور قیام کے بارے میں کچھ نہیں کہتا‘ہاں مجھ کو ایک کیفیت‘ قیام میں حاصل ہوتی ہے‘‘…وہ مزید لکھتے ہیں: ”اگر کسی عمل میںغیر مشروع عوارض(خارجی امور)لاحق ہوں ‘ تو اُن عوارض کو دور کرنا چاہیے‘نہ یہ کہ اصل عمل سے انکار کردیا جائے‘ایسے امور سے انکار کرنا خیر کثیر سے بازرکھنا ہے‘ جیسے قیام ِمولِد شریف‘اگر بوجہ آنے نام آنحضرت کے کوئی شخص تعظیماً قیام کرے تو اس میں کیا خرابی ہے؟‘جب کوئی آتاہے تولوگ اس کی تعظیم کے واسطے کھڑے ہوجاتے ہیں‘اگر سردارِ عالَم وعالمیاں(رُوحی فداہُ)کے اسمِ گرامی کی تعظیم کی گئی تو کیا گناہ ہوا‘‘(شمائمِ امدادیہ:47,50,68)۔
علمائے دیوبند کے مُسَلمَّہ پیشوا علامہ اشرف علی تھانوی نے اس آخری جملے پر حاشیے میں لکھا ہے: ” البتہ اصرار کرنا کہ تارکین سے نفرت کرنازیادتی ہے‘‘(امدادالمشتاق:68)۔اس عبارت سے ہمیں اتفاق ہے ‘ کیونکہ کسی مستحب یا پسندیدہ امر کو ترک کرنے پر ملامت کرنا اسے واجب قرار دینا ہے اور یہ درست نہیں ہے ۔ اس حاشیے پر علامہ غلام رسول سعیدی نے یہ اضافہ کیاہے : ”اور میں کہتا ہوں کہ اس سے بھی بڑی زیادتی یہ ہے کہ محفلِ میلاد کو ”بدعتِ سَیِّئَہ‘‘ قرار دیا جائے اور میلاد شریف کرنے والوں سے نفرت کی جائے اور انہیں اہلِ بدعت کے نام سے پکارا جائے‘‘۔
ہمارا مَوقِف بھی یہی ہے کہ فی نفسہٖ میلادالنبیؐؐ جائز‘بلکہ مستحسن ہے ‘ لیکن میلادالنبی کے عنوان سے قائم مجالس اور جلوسوں کو ہر قسم کی بدعات‘ مُنکَرات اور خرافات سے پاک ہوناچاہیے‘ تاکہ چند لوگوں کی بے اعتدالیوں کی بنا پر ایک مستحسن امر کے خلاف منفی پروپیگنڈے کا جواز نہ مل سکے۔مشہور اہلحدیث عالِم علامہ وحیدالزمان لکھتے ہیں: ”اس حدیث(یعنی رسول اللہ کے پیرکا روزہ رکھنے) سے ایک جماعتِ علماء نے آپ کی ولادت کی خوشی ‘یعنی مجلسِ میلاد کرنے کا جوازثابت کیاہے اورحق یہ ہے کہ اگراس مجلس میں آپ ﷺکی ولادت کے مقاصداوردنیاکی رہنمائی کے لیے آپ کی ضرورت اورامورِرسالت کی حقیقت کوبالکل صحیح طریقہ پر اس لیے بیان کیاجائے کہ لوگوں میں اس حقیقت کاچرچا ہواورسننے والے یہ ارادہ کرکے سُنیں کہ ہم کو اپنی زندگیاں اُسوۂ رسول کے مطابق گزارنا ہیںاور ایسی مجالس میں کوئی بدعت نہ ہو‘تومبارک ہیں ایسی مجلسیں اور حق کے طالب ہیں ان میں حصہ لینے والے‘ بہرحال یہ ضرور ہے کہ یہ مجلسیں عہدِ صحابہ میں نہ تھیں‘‘(لغات الحدیث‘ جلد:3ص:119)۔یہ بات درست ہے کہ موجودہ ہیئت پر جو مجالسِ میلادالنبی ؐ منعقد ہوتی ہیں یا جلوس کا شعار ہے ‘ یہ جدید دور کی معروف اَقدار ہیں اور دین کے بہت سے شعبوں میں ہم نے دورِ جدید کے شِعار اور اَقدار کو اپنایا ہے‘ مثلاً : مُصحفِ مبارک میں سورتوں کے نام‘ آیات کی علامات‘ اِعراب لگاناوغیرہ۔ کتبِ احادیث بھی دوسری صدی ہجری میں یااس کے بعد مرتب ہوئیں ۔ قرآن وحدیث کو سمجھنے کے لیے تمام معاون علوم بعد میں ایجاد اور مُدَوَّن ہوئے ‘عالی شان مساجدا ور مدارس قائم ہوئے ‘ دینی لٹریچر کی جدید اندازمیں نشرواشاعت کا انتظام ہوااورکسی نظریے سے وابستگی کے اظہار کے لیے یا کسی غلط بات کے ردّ اوراس پر احتجاج ریکارڈ کرانے کے لیے جلوس نکالنے کی روش قائم ہوئی۔ قریباً تمام مکاتبِ فکر نے دینی مقاصد کے لیے جلوس نکالے‘ مثلاً: شوکتِ اسلام ‘ نفاذِ شریعت ‘ ناموسِ رسالت اور عظمتِ صحابہ وغیرہ کے نام پر جلوس نکالے جاتے رہے ہیں اور یہ تمام سرگرمیاں دین اور مقاصدِدین سے تعلق رکھتی ہیں اور انہیں اس دورمیں قبولِ عام مل چکا ‘ اسی طرح دینی جماعتوں کاقیام‘ تبلیغی اجتماعات کاانعقاد‘ افتتاحِ بخاری یا ختم ِبخاری کی تقریبات ‘ مدارس کے سالانہ جلسے یا پچاس سالہ اورڈیڑھ سوسالہ جشن‘ سیرت النبی ﷺکے جلسوںکاانعقاد‘ انٹرنیٹ پردرسِ قرآن اورالیکٹرانک وسوشل میڈیا کا دین کے ابلاغ کے لیے استعمال وغیرہ ۔ مقامِ حیرت ہے کہ اس طرح کی تمام سرگرمیوں پر کبھی کسی نے کوئی فتویٰ صادر نہیں کیا‘ توصرف محافل وجلوسِ میلادالنبی ؐ کو ہدفِ تنقید بنانا یا بدعت قرار دینا انتہائی زیادتی ہے۔
میلادالنبیﷺکو بدعت قرار دینے والوں کا کام آسان ہے کہ وہ فتویٰ دے کر اپنے فرض سے سبکدوش ہوجاتے ہیں ‘ لیکن میرا درد اِس سے سوا ہے۔میری خواہش ہے کہ ان مجالس کو دینی تعلیم وتربیت کا مؤثر ذریعہ بنانا چاہیے اور محبت ِ رسولﷺکاثمر اطاعت واتباعِ نبوی کی صورت میں ظاہر ہوناچاہیے۔پیشہ وَر واعظین‘ موضوع روایات بیان کرکے لوگوں کی عقیدت کو اپنی دنیاسنوارنے کے لیے ابھارتے ہیں اوراِسے ذہنی سرور کا ذریعہ بنالیاگیا ہے۔خیر کاکام اس انداز سے ہوناچاہیے کہ اُس کے مثبت نتائج برآمد ہوں‘ لاؤڈ سپیکر کا استعمال بقدرِضرورت اور مناسب وقت تک ہو‘یہ نہ ہو کہ لاؤڈ سپیکر کے شور سے لوگوں میں بیزاری اور نفرت پیداکی جائے‘کسی اور کی غلط رَوِش کو اپنے لیے جواز نہ بنایاجائے۔چراغاں کے لیے بجلی کا استعمال قانون کے دائرے میں ہونا چاہیے ‘ناجائز طریقے اختیار کرکے اُسے سعادت یا باعثِ اجرسمجھنا غیر شرعی فعل ہے‘اﷲفرماتاہے : ”اے ایمان والو ! (اللہ کی راہ میں ) اپنی پاکیزہ کمائی میں سے او ر اُن چیزوں میں سے خرچ کروجوہم نے تمہارے لیے زمین سے نکالی ہیں‘اور ناقص چیزیں خرچ کرنے کا اِرادہ نہ کرو ‘ جن کو تم خود بھی چشم پوشی کیے بغیر(خوشدلی سے کبھی) نہ لو‘‘(بقرہ:267)۔مالِ حرام کوحرام سمجھتے ہوئے اﷲکی راہ میں صدقہ کرنااوراس پراجرکی امیدکرناروحِ ایمان کے منافی ہے‘اسی طرح رسول اکرمؐ کی بارگاہ میں صلوٰۃ وسلام عرض کرنے کے لیے کھڑا ہونا آداب میں سے ہے ‘ پس جو خوشی سے کھڑا ہو ‘ الحمد للہ یہ سعادت ہے ‘ لیکن جو کسی عذر کے سبب یا بلاعذر کھڑا نہ ہو ‘ اُسے ملامت کرنا درست نہیں اور اسی طرح کھڑے ہونے والوں کو ملامت کرنا بھی نامناسب طرزِ عمل ہے ۔