منتخب کردہ کالم

مینڈیٹ کے احترام کی بات ……رئوف طاہر

سپریم کورٹ میں یہ مضاربہ سکینڈل میں مفتی ثاقب کی سزا کے خلاف اپیل کی سماعت تھی۔ مضاربت کے نام پر شہریوں کے دو کروڑ 65 لاکھ روپے ہڑپ کر جانے کا کیس‘ جس میں ٹرائل کورٹ نے ملزم کو ایک لاکھ جرمانہ اور ایک سال قید کی سزا سنائی تھی۔ جناب جسٹس دوست محمد خان کا کہنا تھا‘ میں حیران ہوں کہ اتنے بڑے گھپلے میں اتنی کم سزا سنائی گئی‘ اس میں تو چودہ سال کی سزا ہونی چاہیے تھی۔ سماعت کے دوران ”نظام‘‘ کی بات ہوئی تو عدالتِ عظمی کے معزز جج کے ریمارکس تھے‘ پاکستان میں کوئی نظام نہیں۔ یہ نظام کی ناکامی ہی تو ہے کہ لاہور (این اے 120) میں کالعدم جماعتوں کو بھی الیکشن لڑنے کی کھلی چھوٹ تھی۔ عالمی مرتبت جج نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ ان کالعدم جماعتوں پر کس کی چھتری تھی؟
اسی روز لاہور میں احمد بلال محبوب کے ‘پلڈاٹ‘ کے زیر اہتمام ”پنجاب میں نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد پر ورکشاپ تھی۔ ان پانچ چھ ماہ میں یہ اس سلسلے کی چوتھی ڈسکشن تھی۔ احمد بلال محبوب کے ”افتتاحیہ‘‘ کے ساتھ شروع ہونے والی اس محفل غور و فکر کا اختتام سابق وزیر داخلہ جنرل (ر) معین الدین حیدر کے خطاب کے ساتھ ہوا۔ شامی صاحب روزِ اول سے اس کی سٹیئرنگ کمیٹی کے رکن ہیں۔ شاید ہی کوئی میٹنگ ہو جس میں حاضرین ان کے دانش پاروں سے فیضیاب نہ ہوتے ہوں۔ ماہرین کے اظہارِ خیال کے بعد سوال جواب کا سیشن بھی تبصروں اور تجزیوں ہی کی ایک صورت ہوتی ہے۔ نیشنل ایکشن پلان کے 20 نکاتی ایجنڈے کے ایک ایک نکتے پر عملدرآمد کی رپورٹ پیش ہوئی اور اس حوالے سے پنجاب کی کارکردگی بحیثیتِ مجموعی اطمینان بخش قرار پائی۔
اس بار نیشنل ایکشن پلان کے حوالے سے پنجاب اسمبلی کی سٹینڈنگ کمیٹی برائے امورِ داخلہ خصوصی طور پر مدعو تھِی‘ سپیکر رانا محمد اقبال مہمان خصوصی تھے۔ وہ کسی ”اہم تر‘‘ مصروفیت کے باعث تشریف نہ لا سکے۔ البتہ سٹینڈنگ کمیٹی کے ارکان اپنے چیئرمین مخدوم سید محمد مسعود عالم کے ساتھ موجود تھے۔ انہیں اپنی بے اختیاری کے اعتراف میں کوئی عار نہ تھی۔ انگریزی زبان سے استفادہ کیا جائے تو یہ ایک Toothlessکمیٹی تھی۔ شامی صاحب کو حیرت تھی کہ ملک کی قدیم ترین اسمبلی کو اب تک اپنی کمیٹیوں کو بااختیار کرنے کی توفیق نصیب نہیں ہوئی۔ (پنجاب اسمبلی 1935ء میں (انگریز کا دور) قائم ہوئی تھی۔ یاد آیا 1985ء میں جنرل ضیاء الحق اس کی پچاس سالہ تقریبات کے سلسلے میں منعقدہ خصوصی اجلاس میں تشریف لائے تھے۔ میاں نواز شریف کی پہلی وزارت اعلیٰ میں یہ غیر جماعتی اسمبلی تھی۔ ایم آر ڈی نے ان انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا لیکن فیصل آباد سے پیپلز پارٹی کا جیالا فضل حسین راہی آزاد حیثیت میں الیکشن لڑ کر پنجاب اسمبلی میں پہنچ گیا تھا۔ ضیاء الحق کی تقریر کے دوران وہ اپنے جیالے پن پر قابو نہ رکھ سکا۔ اس ”بد تہذیبی‘‘ پر سارجنٹ ایٹ آرمز اسے اٹھا کر ایوان سے باہر لے گئے) شامی صاحب کا کہنا تھا کہ قومی اسمبلی اور سینیٹ میں سٹینڈنگ کمیٹیاں تو بہت حد تک فعال اور موثر ہیں لیکن ملک کے سب سے بڑے صوبے کی اسمبلی میں کمیٹیوں کی کسمپرسی افسوسناک ہے۔
پلڈاٹ کے اس اجلاس سے دو روز قبل لاہور میں ضمنی انتخاب ہوا تھا‘ جس میں دو نوزائیدہ جماعتوں کے ارکان بھی آزاد امیدوار کے طور پر میدان میں موجود تھے۔ بیس نکاتی نیشنل ایکشن پلان کے پانچ چھ نکات کالعدم تنظیموں‘ مذہبی تشدد‘ فرقہ واریت اور نفرت انگیز تقاریر (اور لٹریچر) کے حوالے سے ہیں اور این اے 120 میں مہینے بھر کی انتخابی مہم میں بے چارے نیشنل ایکشن پلان کا جو تماشا بنا‘ اس دوران جو تقاریر ہوئیں‘ جو لٹریچر پھیلایا گیا‘ اس سے چند سطور کا حوالہ بھی ہم مناسب نہیں سمجھتے۔ پلڈاٹ کے گزشتہ اجلاسوں میں پنجاب میں نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کے حوالے سے اطمینان (بلکہ تحسین) کا اظہار کیا جاتا رہا تھا۔ لیکن این اے 120 میں تو خود برسر اقتدار جماعت بے بسی اور بے کسی کی تصویر بنی ہوئی تھی۔ ”ناحق ہم مجبوروں پر یہ تہمت ہے مختاری کی‘‘ والی بات تھی (دوسرے مصرعے کے ساتھ شعر خود مکمل کر لیں) وہی بات وہی سوال جو عدالتِ عظمیٰ کے فاضل جج کے ریمارکس میں بھی موجود ہے ”ان کالعدم جماعتوں پر کس کی چھتری تھی‘‘؟ جنرل کیانی اور جنرل کرامت کی طرح ہمارے موجودہ آرمی چیف جناب قمر جاوید باجوہ بھی ”اپنے کام سے کام‘‘ رکھنے کی شہرت رکھتے ہیں۔ گزشتہ روز جی ایچ کیو میں پارلیمینٹیرینز کے ایک گروپ سے گفتگو میں فرمایا کہ پاناما سمیت کسی سیاسی معاملے سے ان کا کوئی تعلق نہیں۔ انہوں نے سابق وزیر اعظم نواز شریف اور موجودہ وزیر اعظم جناب شاہد خاقان عباسی سے اپنے خوشگوار تعلقات کا ذکر کیا‘ اور بتایا کہ این اے 120 میں بیگم کلثوم نواز کی جیت پر انہوں نے شہباز شریف کو مبارک باد کا پیغام بھی بھیجا ہے (یاد آیا‘ بیگم کلثوم نواز کی علالت کی خبر آئی تو جنرل صاحب نے خود میاں نواز شریف سے فون پر ان کی خیریت دریافت کی تھی) آرمی چیف کی یہ وضاحت ملک میں آئین کی کارفرمائی اور جمہوریت کے تسلسل میں یقین رکھنے والے تمام عناصر کے لیے یقین‘ اطمینان اور اعتماد کا باعث ہونی چاہیے۔ لیکن ایسی صورت حال پیدا ہی کیوں ہو کہ ہمارے آرمی چیف کو اس طرح وضاحتیں کرنی پڑیں؟
پاناما کیس جے آئی ٹی سے لے کر اب این اے 120 تک کتنے ہی قصے کہانیاں ہیں جو کہنے سننے میں آئے۔ رانا ثناء اللہ نے آرمی چیف کے حالیہ اظہارِ خیال کو سراہا ہے لیکن گردوغبار بہت پھیل چکا‘ حقائق کا صاف ستھرا چہرہ سامنے لانے اور دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کرنے کے لیے کسی کی یہ تجویز معقول ہے کہ جناب آرمی چیف این اے 120 کے معاملات کی فوری انکوائری کا حکم دیں۔
این اے 120 کے حوالے سے تبصروں اور تجزیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ تحریک انصاف کے سوشل میڈیا کے اس شوشے کو ہمارے بعض دوستوں نے سنجیدگی سے لے لیا (اور اسے اپنے کالموں کی زینت بھی بنا دیا) کہ جن 39 پولنگ سٹیشنوں پر بائیومیٹرک پولنگ ہوئی وہاں پی ٹی آئی جیت گئی۔ حقیقت یہ تھی کہ یہ بائیومیٹرک پولنگ محض آزمائشی تھی۔ یہاں اصل پولنگ وہی مینوئل تھی‘ جو باقی تمام پولنگ سٹیشنوں پر بھی ہوئی اور گنتی بھی انہی ووٹوں کی ہوئی۔ 29000 غیر تصدیق شدہ ووٹوں کا فسانہ بھی وہی ہے‘ جو این اے 122 کے (ایاز صادق والے) ضمنی انتخاب میں تخلیق کیا گیا۔ الیکشن کمشن وضاحت کر چکا کہ یہ بائیومیٹرک سسٹم سے پہلے والے شناختی کارڈ ہیں اور عدالتِ عالیہ کے حکم پر اس نے ان 29,000 ووٹوں کو مشتہر بھی کر دیا۔
بیگم کلثوم نواز سے خوفزدہ ان کے انتخابی حریف‘ انہیں مقابلے سے باہر کرنے کے لیے آخری حد تک گئے۔ ان کے کاغذات نامزدگی کی منظوری کے خلاف وہ ملک کی سب سے بڑی عدالت میں بھی پہنچے۔ بیگم صاحبہ کے حق میں فیصلہ دیتے ہوئے فاضل جج صاحبان کے ریمارکس تاریخ کا حصہ بن گئے۔ تین رکنی بنچ کے سربراہ جناب جسٹس گلزار احمد کا کہنا تھا: یہ معاملہ پاناما کیس سے مختلف ہے‘ وہاں معاملہ (میاں نواز شریف کے) کاغذات نامزدگی میں تنخواہ ظاہر نہ کرنے کا تھا۔ بیگم صاحبہ کے کیس میں ہو سکتا ہے کہ ان کے پاس اقامہ ہو لیکن انہیں تنخواہ تو نہیں مل رہی تھی جبکہ جناب جسٹس قاضی فائز عیسیٰ مینڈیٹ کے احترام کی بات کر رہے تھے‘ ووٹ کی حرمت اور تقدس کی بات‘ ”عوام نے فیصلہ دے دیا‘ ان کی رائے کا احترام کیا جائے‘‘۔ فیض یاد آئے؎
جیسے خوشبوئے زلفِ بہار آ گئی
جیسے پیغامِ دیدارِ یار آ گیا