پاکستانی میڈیا ان دنوں بلوچستان میں ایک بھارتی جاسوس کی گرفتاری پر اپنے خبرناموں کا پیٹ بھرنے میں مصروف ہے۔ جب ملک کے اندر خبریں ہی نہ رہیں‘ تو پھر ایک جاسوس کی گرفتاری کے حوالے سے ”تیار شدہ‘‘ خبروں پر ہی گزارا کرنا پڑتا ہے۔ جیسے بند معاشروں میں حکمرانوں کے بیٹے بیٹیوں کی شادیاں کئی کئی ہفتے خبروں کا موضوع بنی رہتی ہیں۔ کلبھوشن یادیو کی گرفتاری پر بھی رنگ برنگی خبروں سے نیوز پیجز بھرے جا رہے ہیں‘ جبکہ ٹیلی ویژن چینلز کے ٹاک شوز بھی بھارتی جاسوس کی خبروں پر یوں لپکتے ہیں‘ جیسے کسی سیاسی یا باراتی کھانے پر مہمان حملہ آور ہوتے ہیں۔ یہ 2016ء ہے۔ ایک جاسوس کی گرفتاری‘ جو عام حالات میں سنگل کالم خبر ہوا کرتی ہے‘ کبھی کبھار مخصوص حالات میں کئی کئی صفحات اور کئی کئی گھنٹوں کے ٹاک شوز کی بھوک مٹاتی رہتی ہے۔ کیوں نہ یاد کر لیا جائے کہ یہ جاسوس چیز کیا ہوتے ہیں؟ یہ بالکل اسی طرح ہوتے ہیں‘ جیسے کسی راہ چلتے کے پائوں پر کوئی چیونٹا کاٹ جائے۔ جب سے ریاستی نظام معرض وجود میں آیا ہے‘ ہر ریاست کے حکمران‘ مخالف ریاستوں میں جاسوس بھیجنے کا کاروبار کرتے ہیں۔ یہ جاسوس اکثر پکڑے جاتے ہیں‘ جس پر میزبان ملک کی حکومت شور مچاتی ہے اور تھوڑے دنوں میں اپنے اس رد عمل کو بھول بھال کر‘ معمول کے حالات میں رہنے لگتی ہے۔ جاسوس کی اہمیت اس وقت ہوتی ہے‘ جب دو ملکوں کے درمیان کسی موضوع پر تنازعہ چل رہا ہو یا اس میں کشیدگی اور تنائو میں شدید اضافہ ہو گیا ہو۔ ایسے حالات میں دونوں ملک ایک دوسرے پر طرح طرح کے الزامات لگاتے ہیں اور باہمی الزام تراشی کی بارش میں جاسوس کا اچانک پکڑے جانا ایک خبری دھماکے کی طرح ظاہر ہوتا ہے۔ یوں کسی جاسوس کی گرفتاری کی جو خبر سنگل کالم سرخی کے ساتھ وقت کی نذر ہو جاتی ہے‘ خاص حالات میں پورے میڈیا پر چھا جاتی ہے۔ اگر جاسوس کی گرفتاری میں بیک وقت دونوں ملکوں کی یکساں دلچسپی ہو‘ تو یہ خبر دونوں طرف کے میڈیا پر چھا جاتی ہے اور اگر معاملات یکطرفہ ہوں‘ تو جاسوس کو پکڑنے والے ملک کے میڈیا پر یہ خبر نمایاں ہو جاتی ہے اور جس ملک کا جاسوس پکڑا گیا ہو‘ اس کا میڈیا ایسی خبر کو دبانے یا تھوڑی جگہ میں ادھر ادھر کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ ان دنوں بھارتی میڈیا یقینی طور پر اس خبر کو دبا رہا ہو گا جبکہ ہمارا میڈیا اسے نمایاں طور سے پیش کر رہا ہے۔
میں پہلے عرض کر چکا ہوں کہ اگر دو ملکوں کے درمیان کشیدگی انتہا کو پہنچی ہوئی ہو‘ تو پھر ایک فریق کے جاسوس کا‘ دوسرے فریق کے علاقے میں پکڑے جانا دھماکہ خیز خبر ثابت ہوتا ہے اور دونوں فریقوں کا میڈیا اسے بڑھا چڑھا کے پیش کرتا ہے۔ اگر کشیدگی کی صورتحال نہ ہو تو کسی جاسوس کا گرفتار ہونا ایک معمولی سنگل کالمی خبر ہوتی ہے‘ جس پر کسی بھی فریق کو اس سے فائدہ اٹھانے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ ہم ایک بھارتی جاسوس کو گرفتار کر کے میڈیا پر دھمال کیوں ڈال رہے ہیں؟ اس وقت پاکستان اور بھارت دونوں ہی ایک دوسرے کو ٹکریں مارنے کے موڈ میں نہیں۔ میں اپنے طویل صحافتی تجربے کی بنا پر کہہ سکتا ہوں کہ دونوں فریق یعنی پاکستان اور بھارت‘ ان دنوں کشیدگی میں کمی کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ابھی ہمارے نیم وزیر خارجہ‘ بھارتی وزیر خارجہ سے نیپال میں ملاقات کر کے آئے ہیں اور کچھ دن پہلے بھارتی وزیر اعظم اور وزیر خارجہ دونوں باری باری پاکستان تو نہیں‘ لیکن رائیونڈ کے دورے ضرور کر کے گئے ہیں۔ ان دوروں کے دوران زبردست قسم کا خاندانی تبادلہء تحائف ہوا۔ عالمی اور علاقائی موضوعات پر بات چیت ہوئی۔ حتیٰ کہ گھریلو معاملات پر بھی مشاورت کی گئی۔ ان خوشگوار باہمی رابطوں کے اثرات‘ دونوں ملکوں کے تعلقات پر پڑے ہیں اور میں نہیں سمجھتا کہ مجموعی باہمی تعلقات میں کوئی ایسی خرابی موجود ہے‘ جو ایک جاسوس کی گرفتاری پر دوطرفہ کشیدگی کا ذریعہ بن سکے۔ اس لئے پاکستانی میڈیا میں ایک جاسوس کی گرفتاری کی اس قدر غیرمعمولی کوریج کا تعلق‘ پاکستان اور بھارت کے باہمی تعلقات کی نوعیت سے نہیں۔ حالات تو اس کے برعکس نظر آتے ہیں۔ کچھ مثالیں میں بیان کر چکا ہوں اور دوسری مثال پاکستان کی ایک تحقیقاتی ٹیم کے دورہ بھارت کی ہے‘ جو کل ہی سے شروع ہونے جا رہا ہے۔ رواں سال جنوری میں پاک بھارت سرحد کے قریب واقع‘ پٹھان کوٹ میں بھارتی فضائیہ کے اڈے پر دہشت گردوں کے حملے میں‘ 7 بھارتی سکیورٹی گارڈ ہلاک ہو گئے تھے‘ اور بھارت کا الزام ہے کہ حملے میں ملوث شدت پسند سرحد پار پاکستان سے آئے تھے اور ان کا تعلق کالعدم پاکستانی تنظیم جیش محمد سے تھا۔ اس معاملے میں بھارت کی طرف سے فراہم کردہ معلومات کی بنیاد پر پاکستان نے اپنے ہاں متعدد گرفتاریاں بھی کیں اور مبینہ دہشت گردوں کے معاونین کے خلاف مقدمات بھی درج کئے گئے۔ خیرسگالی کے مزید ثبوت یہ ہیں کہ پاکستان نے بھارت میں کارروائیاں کرنے والے کچھ دہشت گردوں کی نقل و حرکت کی خبر بھارت کو دی تھی‘ جو تھرپارکر کے صحرائوں کی طرف سے راجستھان میں داخل ہونے والے تھے۔ بعد ازاں اس سلسلے میں کوئی خبر نہیں آئی۔ ایسے حالات میں ایک جاسوس کی گرفتاری‘ پاکستانی میڈیا پر جس طرح چھائی ہے‘ اسے بے وقت کی راگنی ہی کہا جا سکتا ہے۔
ایک اور خیال البتہ ذہن میں آ رہا ہے کہ ان دنوں حکومت پاکستان نے بڑی مضبوطی سے سیاسی مخالفین پر قابو پا رکھا ہے۔ کوئی ضمنی الیکشن ایسا نہیں جس میں حکومت کو فیصلہ کن کامیابی حاصل نہ ہو رہی ہو اور ٹائیفون ٹوٹل کنٹرول کا یہ عالم ہے کہ روایت اور قانون کے عین مطابق جب ضمنی الیکشن میں ہارنے والا کوئی امیدوار اپنے قانونی حق کے مطابق بعض پولنگ سٹیشنوں پر دوبارہ گنتی کا مطالبہ کرتا ہے‘ تو اس کے مطالبے کو حقارت سے ٹھکرا دیا جاتا ہے اور اس کے پاس الیکشن کمیشن اور وہاں سے ناکامی کے بعد‘ عدالتوں میں دھکے کھانے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہتا۔ حال ہی میں عدالتی حکم پر جو بلدیاتی انتخابات کرائے گئے‘ ان میں حکمران جماعت کو جو بے تحاشا کامیابیاں حاصل ہوئیں‘ وہ بھی اپنی مثال آپ ہیں۔ کوئی پارٹی‘ بلدیاتی انتخابات میں کہیں بھی قابل ذکر کامیابی حاصل نہیں کر سکی اور اس پر بھی لطیفہ یہ ہے کہ حکمران جماعت کی کامیابی کے باوجود بلدیاتی ادارے ابھی تک معرض وجود میں نہیں آ سکے۔ تمام بلدیاتی اداروں کے فنڈز بیوروکریسی کے کنٹرول میں ہیں اور اندازے لگائے جا رہے ہیں کہ جب سال بھر کے فنڈز غتربود ہو جائیں گے‘ تو پھر بلدیاتی ادارے معرض وجود میں آ جائیں گے اور منتخب ہونے والے عہدیداروں کو نہ کوئی دفتر ملے گا نہ کرسی۔ وہ افسروں کے لئے سفارشیں ڈھونڈتے پھریں گے کہ راہ خدا انہیں کوئی کمرہ برائے دفتر مل جائے اور مزید مہربانی ہو تو ایک میز‘ ایک کرسی اور ہو سکے تو مہمانوں کے لئے کرسیاں نہیں تو بینچ عطا ہو جائیں۔ قومی اسمبلی کی اپوزیشن‘ خورشید شاہ کے کنٹرول میں ہے اور خورشید شاہ‘ حکومت کے کنٹرول میں ہیں۔ دلچسپ ترین صورتحال کراچی میں ہے۔ جہاں کے میئر صاحب کو ابھی تک دفتر ہی نہیں ملا۔ وہ بطور میئر نجی حیثیت میں شہر کا کوڑا اٹھانے نکلے تھے۔ جلد ہی انہیں اندازہ ہوا کہ کوڑا اتنا زیادہ ہے کہ وہ تیسرا چوتھا جنم لے کر بھی‘ اسے ختم نہیں کر پائیں گے۔ نومنتخب لارڈز صاحبان کی حالت قابل دید ہے۔
عبرت سرائے دہر ہے اور ہم ہیں دوستو!
اخبار ہیں کہ خبر نہیں۔
ٹی وی ٹاک شو ہیں‘ تو موضوع گفتگو نہیں۔
پارلیمنٹ ہے‘ تو بحث نہیں۔
پنجاب کی صوبائی اسمبلی ہے‘ تو وزیر اعلیٰ نہیں۔
ایسے حالات میں اگر ایک جاسوس پکڑنے پر ہر طرف اسی کی خبریں نہ ہوں‘ تو اور کیا ہو؟ اللہ تعالیٰ وزیر اعلیٰ پنجاب کو سلامت رکھے کہ روزانہ اخبارات کو ایک چار کالمی سرخی ضرور عطا فرما دیتے ہیں۔ یہ سرخی بھی نہ ہو‘ تو میڈیا سائیں سائیں کرتا ہے۔ اب کہیں آ کے بھارتی جاسوس نے‘ میڈیا کے چھابے میں کچھ روز کے لئے سودا رکھا ہے۔ یہ بھی کتنے دن چلے گا؟