منتخب کردہ کالم

میڈیا کے گاڈ فادر … دوسرا رُخ .. رئوف طاہر

میڈیا کے گاڈ فادر … دوسرا رُخ .. رئوف طاہر

کیا پاکستان میں آزادیٔ اظہار کی نعمت محض تین شخصیتوں کی عنایت خسروانہ کے باعث حاصل ہوئی؟ ایک‘ وزیر اعظم محمد خاں جونیجو‘ دوسرے جناب الٰہی بخش سومرو (جونیجو صاحب کی برطرفی کے بعد عبوری حکومت کے وزیر اطلاعات جن کے دور میں فیلڈ مارشل ایوب خان کا بدنام زمانہ پریس اینڈ پبلی کیشنز آرڈی نینس منسوخ ہوا) اور تیسرے جنرل پرویز مشرف‘ جس نے پرائیویٹ ٹی وی چینلز کی اجازت دی…؟
بزرگ دانشور کو پرانے زمانے میں آزادیٔ صحافت کے لیے برپا ہونے والی تحریکوں کا اعتراف تھا‘ لیکن یہ دعویٰ بھی کہ ایسی کسی تحریک کی وجہ سے کوئی آزادی حاصل نہ ہوئی۔ یہاں وہ جنرل ضیاء الحق کے زمانے میں پیپلز پارٹی کے ترجمان روزنامہ مساوات کی بندش کے خلاف تحریک کی مثال لائے جس میں کئی صحافی پابند سلاسل ہوئے‘ چار کو کوڑوں کی سزا بھی ملی‘ لیکن ”مساوات‘‘ پر پابندی تو نہ ہٹی۔
ہمارے کچھ دانشور دوستوں کے خیال میں ظلم و ستم کی تاریخ ڈکٹیٹر ضیاء الحق کے دور سے شروع ہوتی ہے۔ مرحوم نوابزادہ صاحب غالبؔ کا شعر پڑھا کرتے تھے ؎
ریختہ کے تم ہی استاد نہیں ہو غالبؔ
کہتے ہیں‘ اگلے زمانے میں کوئی میرؔ بھی تھا
16 دسمبر 1971ء کو قائد اعظم کے پاکستان کا سورج ڈھاکہ میں ڈوب گیا۔ اب اُدھر مجیب کا بنگلہ دیش تھا اور اِدھر بھٹو کا ”نیا پاکستان‘‘… (یہ سید خورشید شاہ صاحب گزشتہ روز کیا کہہ گئے ”نیا پاکستان بھٹو نے بنایا‘‘ لیکن خود بھٹو صاحب کے دور میں یہی بات کہنے پر لوگ حوالۂ زنداں کئے جاتے تھے) اُس عوامی دور کا آغاز ہی میڈیا پر شب خون سے ہوا۔ زیڈ اے سلہری سرکار کے زیر تحویل انگریزی روزنامے کے ایڈیٹر انچیف تھے‘ عوامی دور کے پہلے ہی روز ان کی برطرفی تو بنتی تھی‘ لیکن کچھ ہی دنوں بعد الطاف گوہر کی باری بھی آ گئی۔ کراچی کے ایک انگریزی اخبار کے چیف ایڈیٹر کو جیل میں ڈال دیا گیا۔
کچھ ہی دنوں بعد جناب الطاف حسن قریشی‘ ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی اور ہمارے شامی صاحب سزاوارِ مشقِ ستم ٹھہرے اور ان کے ساتھ کراچی والے صلاح الدین بھی… ”بندگانِ گستاخ‘‘ کو پسِ دیوارِ زنداں دھکیلنے کے ساتھ ان جرائد کے ڈیکلیریشن بھی منسوخ کر دیئے گئے۔
یہ تو دائیں بازو والے تھے‘ پیپلز پارٹی سے جن کی ”نفرت‘‘ ازلی و ابدی تھی اور سقوطِ مشرقی پاکستان کے بعد یہ شدید تر ہو گئی تھی لیکن جناب حسین نقی (اللہ انہیں بہترین صحت کے ساتھ طویل زندگی عطا فرمائے) تو بائیں بازو کے تھے اور بھٹو صاحب کی محفلوں کے ساتھی بھی۔ وہ بھی عتابِ شاہی سے محفوظ نہ رہے۔ ان کے زیرِ ادارت ”پنجاب پنچ‘‘ کے پبلشر مظفر قادر کو بھی اپنے حصے کی سزا بھگتنا پڑی۔
دلچسپ بات یہ کہ الطاف حسن قریشی تو ضیاء الحق کے دور میں بھی گرفتار ہوئے۔ تب بھٹو صاحب بھی لاہور کی کوٹ لکھپت جیل میں تھے۔ دونوں کی کوٹھڑیاں قریب قریب تھیں۔ آمنا سامنا ہوتا تو علیک سلیک بھی ہو جاتی۔ بھٹو صاحب “If I am Assassinated” لکھ رہے تھے۔ اس میں بعض ریفرنسز کے لیے انہیں جنرل ضیاء الحق کے اس انٹرویو کی کاپی درکار تھی جو الطاف صاحب نے لیا تھا اور اس میں 5 جولائی کے آپریشن فیئر پلے کے حوالے سے بعض انکشافات بھی تھے۔ الطاف صاحب نے اس کا اہتمام کر دیا۔ جنرل ضیاء الحق نے پریس پر سنسرشپ عائد کی تو شامی صاحب اور صلاح الدین شہید کی طویل عرصے تک اپنے محبوب صدر سے کُٹی رہی۔
بھٹو صاحب کی جمہوری فسطائیت اور ضیاء الحق کی فوجی آمریت میں ان مدیران و مالکان جرائد کی ہمت و جرات اپنی جگہ لیکن آزادیٔ صحافت کے لیے کارکن صحافیوں کی جدوجہد بھی صحافتی تاریخ کا تابناک باب ہے۔ عظیم نصب العین کے لیے جدوجہد بہت طویل اور صبر آزما بھی ہو جاتی ہے۔ بسا اوقات برسوں بلکہ عشروں پر محیط… کچھ دیوانے اپنے عظیم خوابوں کے ساتھ اُٹھتے ہیں۔ وہ بھی ہوتے ہیں جو ان خوابوں کی تعبیر کی تلاش میں تاریک راہوں میں مارے جاتے ہیں اور بعد میں آنے والوں کے لیے نشانِ راہ بن جاتے ہیں۔ وہ جو فیضؔ نے کہا تھا: ؎
قتل گاہوں سے چُن کے ہمارے علم
اور نکلیں گے عُشاق کے قافلے
ایک اور جگہ فرمایا ؎
بلا سے ہم نے نہ دیکھا تو اور دیکھیں گے
فروغِ گلشن و صوتِ ہزار کا موسم
آمریت و فسطائیت کے مسلط کردہ وحشت اور دہشت کے ماحول میں احتجاج کی پہلی آواز ابھرتی اور دم توڑ دیتی ہے‘ لیکن کتنے ہی دلوں میں احتجاج کی جرات پیدا کی جاتی ہے۔ گھٹا ٹوپ اندھیرے میں پہلا چراغ جلتا ہے‘ پھر دوسرا‘ تیسرا اور آخرکار چراغاں سا ہو جاتا ہے۔ چراغ ہی چراغ‘ روشنیاں ہی روشنیاں…؎
ستونِ دار پہ رکھتے چلو سروں کے چراغ
جہاں تلک کہ ستم کی سیاہ رات چلے
مملکتِ خداداد میں اربابِ اختیار کے ہاتھوں صحافت اور اہلِ صحافت پر جو بیتی‘ اور ستم رسیدوں نے سر جھکا دینے کی بجائے آزادیٔ اظہار کا پرچم جس طرح بلند کئے رکھا‘ یہ سب کچھ تاریخ کے صفحات میں محفوظ ہے۔ بہت سی تفصیل ضمیر نیازی کی “Press in Chains” اور ”انگلیاں فگار اپنی‘‘ میں موجود ہے۔ احفاظ الرحمن کی ”سب سے بڑی جنگ‘‘ اس سلسلے کی تازہ ترین کاوش ہے۔
جناب محمد خان جونیجو اور الٰہی بخش سومرو تو سیاسی و جمہوری قبیلے کے وابستگان میں تھے۔ آزادیٔ اظہار کے لیے اپنے حصے کے کردار پر وہ تعریف اور شکریے کے مستحق ہیں‘ لیکن 12 اکتوبر 1999ء کو اپنی ”نوکری‘‘ کے تحفظ کے لیے آئینی نظام پر شب خون مارنے والے ڈکٹیٹر کی تعظیم کے لیے الیکٹرانک میڈیا کے وابستگان سے یہ مطالبہ Too much ہے کہ وہ سال میں کم از کم ایک بار اس کی فوٹو کے سامنے کھڑے ہو کر تعظیماً سر جھکائیں‘ جس طرح جاپانی سر جھکاتے ہیں۔
بہت سی چیزیں حالات کے دبائو اور واقعات کے بہائو کا نتیجہ بھی ہوتی ہیں۔
یہی معاملہ 21ویں صدی کے آغاز میں الیکٹرانک میڈیا کے فروغ کا بھی تھا۔ یہ سیٹلائٹ کے عروج کا زمانہ تھا‘ جب سعودی عرب جیسی مملکت میں بھی انٹرنیٹ اور موبائل فون عام ہو گیا تھا۔ پاکستان میں ڈکٹیٹر کا اپنا ایجنڈا بھی تھا۔ جنرل ضیاء الحق کے سیکرٹری اطلاعات جنرل مجیب الرحمن نے مارشل لاء کے حبس سے توجہ ہٹانے کے لیے کرکٹ کو ٹھنڈی ہوا کا جھونکا بنانے کی حکمتِ عملی اختیار کی تھی۔ اب پاکستان کے چوتھے ڈکٹیٹر کو الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے اپنے ”روشن خیال‘‘ ایجنڈے کو آگے بڑھانا مطلوب تھا۔ یہ پاکستانی قوم کو اس کی مذہبی‘ سماجی اور معاشرتی اقدار سے برگشتہ کرنے کی مہم تھی۔ مادر پدر آزادی والے ڈرامے‘ کبھی تو یوں لگتا جیسے یہ کوئی انڈین چینل ہو۔ ڈکٹیٹر سے احتجاج کیا جاتا تو وہ کندھے اچکا کر جواب دیتا‘ آپ کسی دوسرے چینل پر سوئچ اوور کر جایا کریںِ‘ یہ بھی ناقابل برداشت ہو تو سوئچ آف کر دیں۔ اس کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ میڈیا کا معاملہ ”فرعون کے گھر موسیٰ‘‘ والا ہو جائے گا۔ لال مسجد (اور جامعہ حفصہ) آپریشن اور اس کے ساتھ معزول چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی زیرِ قیادت آزاد عدلیہ مہم کی بھرپور کوریج (بال ٹو بال کمنٹری) نے ان کے اقتدار کی چولیں ہلا دی تھیں۔ آزاد میڈیا کا جن بوتل سے باہر آ گیا تھا۔
3 نومبر 2007ء کی ”ایمرجنسی پلس‘‘ (ڈکٹیٹر کے دوسرے PCO) کا ہدف آزاد عدلیہ کے ساتھ آزاد میڈیا بھی تھا۔ جب 60 کے قریب جج فارغ کر دیئے گئے۔ بعض کے گھر ان کے لیے زنداں بن گئے اور میڈیا چینلز آف ایئر کر دیئے گئے۔ نوزائیدہ آزاد میڈیا کو موت کے گھاٹ اتارنے میں ڈکٹیٹر نے کوئی کسر اٹھا نہ رکھی تھی۔ لیکن میڈیا بہت سخت جان ثابت ہوا‘ نئے سیاسی عمل نے اسے نئی زندگی بخش دی تھی۔