منتخب کردہ کالم

میں وفاق کی ذمے داری ہوں! (نمک کا آدمی) اقبال خورشید

یہ وہ شہر نہیں ہے، جہاں گزشتہ انتخابات میں خان کی پارٹی نے، بنا کوئی الیکشن مہم چلائے ،آٹھ لاکھ ووٹ حاصل کر لیے تھے۔
اور نہ ہی یہ وہ شہر ہے، جہاں ایم کیو ایم کے اعلیٰ عہدے داروں کو اٹھارہ سیٹیں حاصل کرنے کے باوجود کرخت ڈانٹ سننی پڑی تھی۔یہ وہ شہر بھی نہیں، جہاں 2008 سے 2013 تک ایک آسیبی تکون کی حکومت رہی، لاشیں گرنا معمول بن گیا، لسانی خلیج ابھری، مخالفین ایک دوسرے کو بوری بند لاشیں بھیجنے لگے، جس کے ساتھ پرچی ہوتی: ”کافی ہے یا اور بھجوائیں!‘‘
نہیںدوستو، یہ وہ شہر نہیں!
کراچی کی گلیوں میں چلتے پھرتے ہوئے آپ کو وہ شہر بھی کہیں دکھائی نہیں دے گا، جو کبھی اس خطے کے ماتھے کا جھومر تھا، جس کی تاریخ قدیم دستاویزات میں بکھری پڑی ہے، جہاں کبھی سکندر اعظم خیمہ زن ہوا تھا، جسے عرب دیبل کہہ کر پکارتے تھے، جس کے گرد اٹھارویں صدی کے آخر میں ایک پرشکوہ فصیل تعمیر ہوئی۔ سمندر کی سمت کھلنے والا دروازہ” کھارا در‘‘ کہلاتا تھا، ندی کی سمت جانے والا ”میٹھا در‘‘۔نہیںعزیزو، یہ وہ ساحلی قصبہ نہیں، جسے انگریز وں نے عظیم شہروں کی فہرست میں لاکھڑا کیا تھا،جوسندھ کو صوبے کی حیثیت ملنے کے بعد اس کا مرکز ٹھہرا، جو کبھی مذہبی رواداری اور سماجی تنوع کا مظہر تھا، جسے قائد اعظم کی بصیرت نے پاکستان کا دارالحکومت چنا تھا۔
اگرامن و امان کے تازہ اہتمام کو ذرا دیر کے لیے بھول جائیں، تویہ ایک لاوارث شہر ہے۔ جو سیاسی اختلافات کی نذر ہوا، جسے کچرے کے ڈھیر تلے سسکنے کے لیے چھوڑ دیا گیا۔ جس کے باسیوں کو ٹوٹی پھوٹی سڑکوں، کھلے مین ہول ، دھول مٹی کے حوالے کر دیا گیا، جس کے نلوںمیں مضر صحت پانی چھوڑا گیا، ہسپتالوں کو تباہ ہونے دیا گیا، درس گاہیں بدحال ہوئیں، جس کے میدان چھین لیے گئے۔ یہ وہ شہر ہے، جسے بھلا دیا گیا…
ہاں، گذشتہ ڈھائی برس سے امن و امان کی صورت حال خاصی بہتر ہے، مگر امن کراچی کا اہم ترین مسئلہ ہوسکتا ہے، اکلوتا مسئلہ نہیں۔کراچی کے مسائل کے کئی تناظر ہیں۔ایک تناظر سیاسی ہے، ایک لسانی، ایک مذہبی، ایک معاشی، ایک علمی، ایک ثقافتی۔ اس موضوع کے لیے الگ دفتر درکار۔ البتہ اگر مسائل کی تفہیم کے لیے اولین نکتے کا تعین کر نا پڑے، تو یہ یقینی طور پردارالحکومت کی منتقلی کا فیصلہ ٹھہرے گا، جب ایوب خان نے ایک نیا شہر بسانے کا فیصلہ کیا۔ اور یوں کراچی کی بدبختی کا آغاز ہوا۔
یاد رکھیں،عظیم شہر وفاق کی علامت ہوتے ہیں، طاقت کا مرکزتصور کیے جاتے ہیں،ان ہی شہروں کے سورمائوں، دانائوں کی داستانیں لکھی جاتی ہیں۔اور کراچی میں عظیم شہر بننے کے تمام گن تھے، مگر ایک فیصلے نے اِسے بے روح کر دیا۔وفاقی ادارے دھیرے دھیرے اسلام آباد منتقل ہوتے گئے۔ اوائل میں یہ کیپٹل کی زیر نگرانی رہا۔ وہ دور غنیمت تھا۔ ون یونٹ ختم ہوا، تب کلی طور پر سندھ کی حدود میںآگیا۔آنے والے برسوں میں گرانی اورگراوٹ کراچی کا نصیب ہوئی۔اِس کی پہلی ذمے دارتوپیپلزپارٹی تھی، جس کے ہاتھ متعدد بار اس شہر کی کنجی آئی،دوسری ذمے دار تھی ایم کیو ایم، جو کم و بیش ہر بار حکومت میں شامل ہوئی۔ اس فہرست میں ہمارے” فیصلہ ساز‘‘ بھی شامل ، جنھوں نے کراچی کے امن، یہاں ہونے والے آپریشنز اور انتخابی نتائج کوبہ وقت ضرورت، اپنے مفادات کے لیے استعمال کیا۔
آج کراچی کی سیاسی صورت حال پر نظر ڈالیں، تواِسے اپنا شہر کہنے والی ایم کیو ایم ٹکڑوں میں بٹی دکھائی دیتی ہے۔پی پی کو اس سے کوئی خاص دلچسپی نہیں، دیگر جماعتیں لگ بھگ غیرمتعلقہ ۔آبادی خاموشی سے دو کروڑ کی نفسیاتی حد عبور گئی۔ شہر ہر گزرتے دن کے ساتھ پھیل رہا ہے، مسائل پرپیچ ہوتے جارہے ہیں۔میئر کے ہاتھ تو پہلے ہی خالی ہیں، اب معاملہ صوبائی حکومت کے بس کا بھی نہیں رہا۔سچ تو یہ ہے کہ آج کراچی وفاق کی براہ راست توجہ کے بغیر ترقی نہیں کرسکتا۔
یہ خیال تو عملی نہیں کہ کراچی کو سندھ سے الگ کرکے وفاق کو سونپ دیا جائے۔ اس میں کئی قانونی، آئینی رکاوٹیں حائل ہیںالبتہ بلدیاتی اداروں کو بااختیار بنانے اور اُنھیں مطلوبہ فنڈز اور مشینری فراہم کرنے کی راہ میں، فقط صوبائی حکومت کی انا، مفادات اور عدم دلچسپی کے، کوئی رکاوٹ نظر نہیںآتی۔وقت متقاضی ہے کہ ایک حقیقی وفاقی جماعت کراچی کی باگ ڈور سنبھالے۔ گو پی پی نے چار بار وفاق میں حکومت بنائی، مگر 2008کے بعد وہ کراچی کی ترقی میں اپنا کردار ادا کرنے میں ناکام رہی۔ 2013 میں پی ٹی آئی کو ملنے والے غیرمتوقع ردعمل سے کچھ امید ہوچلی تھی، مگر پھر اِس جماعت کے مقامی عہدے داروں کی ناقص پالیسی اِس امید کو لے ڈوبی۔ ایم کیو ایم، جو چار دھڑوں میں تقسیم چکی ہے، فی الحال اِس عمل میں متعلقہ نظر نہیں آتی۔ ایسے میں،مجھے کہنے دیجیے، ن لیگ کے لیے میدان کھلا ہے۔
میاں نواز شریف کراچی میں اپنی جماعت منظم کرکے اگلے انتخابات میں اپنی موجودگی کا احساس دلا سکتے ہیں۔کچھ غیرمتوقع بھی رونما ہوسکتا ہے۔ گو سندھ کے موٹر وے اور کراچی کے گرین لائن منصوبے کا پنجاب میں مکمل ہونے والے منصوبوں سے موازنہ نہیں کیا جاسکتا، مگر آئندہ انتخابات میں یہ منصوبے کراچی کی سطح پر واضح اثرات مرتب کرسکتے ہیں۔ ادھرمردم شماری شروع ہونے کو ہے۔ انصاف پر مبنی حلقہ بندیاں کراچی میں نشستوں کی تعداد میں اضافہ کر سکتی ہیں۔
ایک منظم و مربوط حکمت عملی اور سنجیدہ کارکن میاں صاحب کی جماعت کو کراچی میں متعلقہ بنا سکتے ہیں۔وفاقی توجہ احساس کمتری میں مبتلا، شکستگی کے شکار اِس شہر کی عظمت کی بحالی میں کردار ادا کرسکتی ہے۔اور ن لیگ کے معاملے میں یہ ضروری بھی ہے کہ فقط پنجاب میں جیت کر وفاق میں حکومت بنانے کا نسخہ ہمیشہ کارگر نہیں رہے گا۔