بھارت کا پرانا سیاسی نظام ان دنوں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ آزادی کے بعد پنڈت جواہرلال نہرو اور ان کی جماعت کانگرس نے‘ مستحکم سیاسی نظام کی بنیاد رکھی تھی اور خیال کیا جا رہا تھا کہ بھارت ایک مضبوط سیاسی نظام کی بنیادیں رکھنے میں کامیاب ہو گیا ہے۔ 70ء کے عشرے کے وسط تک‘ یہ تصور بظاہر پختہ ہو گیا تھا اور خیال کیا جا رہا تھا کہ بی جے پی‘ ایک متبادل سیاسی جماعت کی حیثیت میں‘ کانگرس کی جگہ لینے میں کامیاب ہو جائے گی۔ 90ء کے عشرے میں‘ بی جے پی نے واجپائی کی قیادت میں ‘برائے نام اکثریت کے ساتھ حکومت بنانے کا موقع حاصل کر لیا اور اراکین کی معمولی اکثریت سے‘ حکومت بنانے میں کامیاب ہو گئی۔ حکومت تو بن گئی لیکن روایت کے مطابق نئی حکومت کے لئے اعتماد کا ووٹ لینا ضروری تھا۔ جب اعتماد کے ووٹ کا موقع آیا‘تو ممبرادھر ادھر کھسکنے لگے اور صورتحال وہی بن گئی‘ جو پاکستان میںتیزرفتاری سے حکومتیں بننے اور ٹوٹنے کے دور میں ہوا کرتی تھی۔ بی جے پی کی قیادت لنگوٹ کس کے میدان میں اترنے کو تیار تھی۔ دولت اور عہدوں کا لالچ دے کر‘ آزاد اور چھوٹی پارٹیوں کے منتخب اراکین کے ساتھ جوڑتوڑ شروع کر دیا گیا۔ لیکن اس میں مشکل یہ آن پڑی کہ منتخب اراکین کے باہمی جھگڑوں کی وجہ سے‘ فیصلہ کن اکثریت کے حامل کسی بھی گروپ کو‘ حکومت سازی کا راستہ نہیں مل رہا تھا۔ پارٹی لیڈر کی حیثیت میں واجپائی نے یہ دیکھا کہ دستیاب حالات میں وہ کوئی بھی مستحکم حکومت نہیں قائم کر سکیں گے۔ ہروقت انہیں اکثریت سے محرومی کا خطرہ لگا رہے گا‘ ایسے حالات میں بی جے پی ان پالیسیوں میں بنیادی تبدیلیاں کیسے لا سکتی ہے؟ جو کانگرس نے طویل مدت کے عہداقتدار میں نافذ کی تھیں اور وہ جڑیں پکڑ چکی تھیں۔ پارٹی لیڈرشپ نے واجپائی کی اس رائے کا ساتھ دیا اور انہوں نے بطور وزیراعظم استعفیٰ دے دیا۔
نئی حکومت بنانے کے لئے مختلف پارٹیوں نے یونائیٹڈ فرنٹ کے نام سے ایک پارلیمانی گروپ‘ دیوی گوڑا کی قیادت میں قائم کیا۔ جلد ہی اسے اکثریت بھی حاصل ہو گئی۔ لیکن یہ حکومت 1998ء تک قائم رہ سکی۔ اس فرنٹ کی تعمیر میں ہی‘ مضمر تھی اک صورت خرابی کی۔ یہ گروپ کانگرس کی حمایت سے اکثریت بنا سکتا تھا۔ کانگرس نے حکومت بنانے کے لئے یونائیٹڈ فرنٹ کا ساتھ ہی اس لئے دیا کہ اپنی حمایت واپس لے کر‘ اس حکومت کو گرائے اور نئے عام انتخابات کا راستہ ہموار کرے۔ کانگرس اس میں کامیاب رہی اور اس کے ساتھ ہی بھارت میں سیاسی عدم استحکام شروع ہو گیا۔ ہرچند گزشتہ عام انتخابات میں بی جے پی نے فیصلہ کن اکثریت حاصل کر لی۔ آج بھی مودی حکومت مضبوط اور مستحکم نظر آ رہی ہے۔ لیکن بھارت کا سیاسی نظام جڑیں پکڑنے میں ناکام رہا۔ کانگرس نے اقلیت میں ہونے کے باوجود‘ لوک سبھا کے ممبروں کا ایک مضبوط دھڑا قائم کر لیا اور ایک کانگرسی رکن ملک ارجن کھرج (Mallikarjun Kharge) کو اپوزیشن کا سربراہ بنا دیا۔بی جے پی ‘ بھارتی آئین میں ترمیم کر کے ”سیکولر ‘‘اور ”سوشلسٹ‘‘ کے الفاظ حذف کرنے پر مصر تھی۔ لیکن مسٹر کھرج نے یہ کہہ کر بی جے پی کے سارے منصوبے خاک میں ملا دیئے ”اگر آئین میں تبدیلی کی گئی‘ تو پورا ملک خون میں نہا جائے گا۔‘‘ خصوصی طور پر ان کا زور دو لفظوں پر تھا۔ ایک ”سیکولر‘‘ اور دوسرا ”سوشلسٹ‘‘ پر۔مودی حکومت کو اپنے موقف سے پیچھے ہٹنا پڑا۔ اس نے سیکولر اور سوشلسٹ کے الفاظ واپس لے لئے۔ جواب میں مسٹر کھرج کی تقریر کے الفاظ بھی ریکارڈ سے نکال دیئے گئے۔ بی جے پی ‘ آئین میں نظریاتی تبدیلی کی پہلی کوشش میں ہی‘ بری طرح ناکام ہوئی۔ وجہ صاف تھی کہ آئین میں تبدیلی کے لئے‘ دونوں ایوانوں میں دو تہائی اکثریت کی جو ضرورت تھی‘ بی جے پی اسے پورا نہیں کر سکتی تھی۔ چنانچہ آئین اسی طرح چل رہا ہے۔ لیکن بی جے پی پارٹی کی حیثیت میں ‘بھارتی معاشرے کو ہندو اور غیرسوشلسٹ بنانے کے لئے‘ ہر طرح کے جتن کر رہی ہے۔ اس سلسلے میں سب سے پہلے مسلمانوں کے خلاف بہانے بہانے سے نفرت پھیلانے کی کوششیں کی گئیں۔ آگرہ میں چند غریب مسلمانوں کو گھیر کے‘ ہندو دھرم اختیار کرنے پر مجبور کیا گیا اور تبدیلی مذہب کے اس مصنوعی موقعے کو بہت بڑا واقعہ بنا کر‘ میڈیا میں پیش کیا گیا۔ مگر مذہب تبدیل کرنے والوں کو‘ جو پیسہ اور سہولتیں دینے کے وعدے کئے گئے تھے‘ انہیں پورا نہ کیا جا سکا۔ یہ لوگ واپس جا کر ‘دائرہ اسلام میں داخل ہو گئے۔ بی جے پی کی یہ کہانی کسی کام نہ آئی۔ لیکن بی جے پی کے انتہاپسند‘ اپنی حرکتوں سے باز نہیں آئے۔ بھارتی حکومت نے بی جے پی کے انتہاپسندانہ اقدامات کی سرپرستی جاری رکھی۔ جس پر بھارت کے تمام مذاہب سے تعلق رکھنے والے‘ اہل علم و فن نے وہ سرکاری اعزازات اور تمغے احتجاجاً واپس کرنا شروع کر دیئے‘ جو انہیں اپنے فن میں امتیازی مقام حاصل کرنے پر دیئے گئے تھے۔تمغے لوٹانے کا یہ سلسلہ اب بھی وقفے وقفے سے جاری ہے۔ ملک کے نامور اہل علم و فن نے‘ جتنی بڑی تعداد میں اپنے قومی اعزازات واپس کئے‘ اس سے بی جے پی حکومت کو سخت شرمندگی اٹھانا پڑی۔ وزیراعظم مودی نے اپنے آپ کو ایک آزاد خیال لیڈر ثابت کرنے کی جو کوشش کی‘ اعزازات کی واپسی کی مہم نے اس پر پانی پھیر دیا۔ لیکن بی جے پی نے اپنی حرکتیں پھر بھی جاری رکھی ہوئی ہیں۔
بھارت کی نوجوان نسل ‘ جس نے آزادانہ ماحول میں آنکھ کھولی‘ وہ بی جے پی کے مہاسبھائی طرزعمل کی مخالفت میں ڈٹ گئی۔ انتہا یہ کہ جواہرلال نہرو یونیورسٹی کے طلبہ نے ‘ تنگ نظر ہندوئوں کے خلاف نعرے بازی شروع کر دی۔ جسے حکمران جماعت کے لیڈروں نے ‘ملک دشمن قرار دیا اور یونیورسٹی کے طلبہ کی یونین کے صدر کنہیاکمار کو‘ ملک سے بغاوت کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا۔ دوسری طرف بھارتی وزیرداخلہ راج ناتھ سنگھ نے‘ جواہرلال نہرو یونیورسٹی میں‘ حکومت مخالف نعرے کے پیچھے‘ لشکر طیبہ کے لیڈرحافظ سعید کا ہاتھ بتا یا ‘ جس پر ایک نیا تنازعہ شروع ہوگیا۔ اپوزیشن نے مطالبہ کیا کہ وزیرداخلہ کو اس سلسلے میں ٹھوس ثبوت پیش کرنا چاہیے۔ گزشتہ ایک ہفتے سے یہ معاملہ برسراقتدار بی جے پی اور اپوزیشن کے درمیان‘ ایک بڑے تصادم کا موضوع بنا ہوا ہے۔ جواہرلال نہرو یونیورسٹی میں ‘ بھارت کے خلاف اور پاکستان کی حمایت میں نعرہ لگانے والوں کی‘ ایک ویڈیو کلپ بھی منظر عام پر آئی ہے۔یہ تنازعہ پھیلتا جا رہا ہے۔ جواہرلال نہرو یونیورسٹی میں‘ ملک مخالف نعرے لگانے کے الزام میں گرفتار‘ طلبہ یونین کے صدر کنہیا کمار کو عدالت میں پیش کیا گیا‘ تو وکیلوں نے وہاں موجود صحافیوں کی خوب پٹائی کی۔ عدالتی احاطے میں جب صحافیوں نے مارپیٹ کی تصویریں بنانے کی کوشش کی‘ تو وکیلوں نے مزید مشتعل ہو کر‘ صحافیوں پر حملہ کیا اور کئی سینئر صحافیوں کے فون چھین لئے ۔ بی جے پی کے حامی ان وکیلوں کے حوصلے اتنے بلند تھے کہ انہوں نے کنہیاکمار کے حامیوں کو عدالت کے اندر پیٹا۔ موقع پر موجود لوگوں کا کہنا ہے کہ کنہیا کے حامی پرامن تھے اور انہوں نے کسی بھی طرح کی اشتعال انگیزی نہیں کی۔ واضح رہے‘ گزشتہ ہفتے لکھنو میں ایک وکیل کی موت کے بعد‘ ہائی کورٹ اور آس پاس کے علاقوں میں زبردست ہنگامہ کیا گیا تھا۔ وہاں موجود درجنوں گاڑیوں کو نذرآتش کیا گیا اور وہاں سے گزرنے والوں کو بھی معاف نہیں کیا گیا۔ ابھی تک سراغ لگانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ وکیلوں کے بھیس میں یہ کون لوگ تھے؟ چند روز پہلے طلبہ کے ایک گروپ نے ‘نئی دہلی میں آر ایس ایس کے ہیڈکوارٹر پر‘ پرامن مظاہرہ کیا۔ پولیس کے اہلکاروں نے ان طلبا اور طالبات پر اندھا دھند لاٹھیاں برسائیں۔ یہاں تک کہ لڑکیوں کو بالوں سے کھینچ کر زمین پر گرا دیا۔ بی جے پی کے مخالفین الزام لگاتے ہیں کہ جواہرلال نہرو یونیورسٹی کے معاملے کو طول دے کر‘ حکمران جماعت ‘ مخالفین کے خلاف دائرہ تنگ کر رہی ہے۔ یہ ثابت کرنے کی کوشش ہو رہی ہے کہ کانگرس اور بائیں بازو کی جماعتیں‘ ملک دشمن ہیں۔ ہر انتہاپسند پارٹی کی طرح‘ حکمران بی جے پی بھی‘ سیاسی ابتری میں اضافہ کر رہی ہے۔ جس کا نتیجہ خود اس کے خلاف برآمد ہو گا۔ پاکستان بھی انتہاپسند گروہوں کی سرگرمیوں کا شکار ہے۔ یوںلگ رہا ہے کہ پورا برصغیر‘ مذہبی انتہاپسندوں کی نفرت انگیز مہمات کے نتیجے میں‘ شدید سیاسی ابتری کی لپیٹ میں آ سکتا ہے۔ کانگرسی حکومت کے طویل دور میں‘ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ یونیورسٹیوں میں پاکستان زندہ باد کے نعرے لگے ہوں۔ لیکن مودی حکومت نے‘ پونے دو سال پورے ہونے سے پہلے ہی یہ نعرے لگوا دیئے اور وہ بھی بھارت کے دارالحکومت نئی دہلی کے ‘سب سے بڑے علمی مرکز جواہرلال نہرو یونیورسٹی میں۔