نئی سرد جنگ کیلئے صف آرائی…نذیر ناجی
زیر نظر تجزیہ میں بدلتی دنیا کے چھوٹے ملکوں کی جغرافیائی اہمیت کا امکانی جائزہ لیا گیا ہے۔یہ نئے حالات کے مطابق تیز رفتاری سے ہونے والی تبدیلیوں کا جائزہ ہے۔د وسری جنگ عظیم کے بعد عالمی طاقتوں نے جو بساط بچھائی تھی‘ اس میں نئی صف بندیوں کی علامتیں ظاہر ہونے لگی ہیں۔ ابھرتی ہوئی نئی طاقت چین اور امریکہ کے مابین مستقبل کی صف بندیاں ہو رہی ہیں‘جن میں وقت کے ساتھ ساتھ پاکستان کی اہمیت میں اضافہ ہو گا۔ملاحظہ فرمائیے۔
”بدلتے حالات‘ بدلے ہوئے اقدامات کا تقاضا کرتے ہیں۔ روس اور چین کے ساتھ طاقت کی شدت اختیار کرتی ہوئی مقابلے بازی کے تناظر میں امریکہ اپنی گلوبل سٹریٹیجی‘ فورسز کی نئی صف آرائی اور وسائل کی مناسب تقسیم پر ایک بار پھر اپنی توجہ مرتکز کرنے کی کوشش میں ہے تاکہ اس نئی جدوجہد میں خود کو بہتر پوزیشن پر رکھ سکے۔ لیکن امریکہ جتنی بھی نئی پیمانہ بندی کر لے‘ دنیا بھر میں فلیش پوائنٹس میں کی گئی اپنی کمٹمنٹ کی وجہ سے اس کی توجہ اور وسائل تقسیم ہوتے رہیں گے۔ امریکہ نے عالمی اثر و رسوخ کے حوالے سے ایک نئی جنگ کی تیاریاں شروع کر دی ہیں۔ گزشتہ صدی کی آخری دہائی میں سوویت یونین کا خاتمہ ہو گیا۔ اس کے بعد 2001ء میں امریکہ نے دہشت گردی کے خلاف جنگ شروع کر دی۔ ان دونوں بڑی تبدیلیوں کی وجہ سے امریکہ کے سٹریٹیجک ڈیفنس پوسچر میں تبدیلی نمایاں طور پر محسوس کی گئی۔ ایشیا سے یورپ تک پھیلی ایک بڑی طاقت کو مکمل طور پر شکست دینا‘ شدت پسند نان سٹیٹ ایکٹرز کو ختم کرنا اور بدمعاش ریاستوں کو راہ راست پر لانے جیسے مقاصد ‘کہیں پس منظر میں چلے گئے۔ اس تبدیلی کے ایک حصے کے طور پر امریکہ نے شرق اوسط‘ شمالی افریقہ‘ جنوبی ایشیا اور افریقہ کے ایک حصے میں اپنی طاقت میں اضافہ کر لیا۔ اپنے ٹریننگ سٹرکچر میں ضروری ردو بدل کر لیا اور فوجی صلاحیتوں میں اضافے کے لئے کئی اقدامات کئے۔ امریکہ نے اس کے ساتھ ساتھ یورپ میں اپنی موجودگی کم کر دی۔ پیسفیک کے علاقے میں اپنی صلاحیتوں کو محدود کر لیا اور روس کے ساتھ جنگ کے لئے قائم کئے گئے بہت سے ہیڈکوارٹر بند کر دئیے۔ لیکن شرق اوسط اور جنوبی ایشیا کے تنازعات میں الجھنے کے برسوں بعد‘ امریکہ کو اب یہ ادراک ہوا ہے کہ عالمی سٹریٹیجک توازن میں خاصی تبدیلی واقع ہو چکی ہے۔ چین کی بڑھتی ہوئی طاقت کا مشاہدہ کر کے اور اس کی جانب سے اپنی فوج کو جدید ضروریات کے مطابق مسلح کرنے کے عمل کو دیکھ کر‘ اوبامہ انتظامیہ نے 2011ء میں ” پیسفیک پائیوٹ‘‘ “Pacific Pivot” کے عنوان سے‘ ایشیا میں طاقت کے توازن کو دوبارہ متوازن بنانے کی کوشش شروع کر دی تھی۔ 2014ء میں روس کی جانب سے یوکرائن میں فوجی مداخلت نے بھی امریکی سمت کو مکمل طور پر تبدیل کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ اس کے بعد امریکہ نے یورپ میں اپنی فورسز کی تعداد میں اضافہ کرنا شروع کر دیا تھا۔
امریکہ کی نئی ڈیفنس سٹریٹیجی دراصل ایک مضبوط اور بڑا دفاعی بجٹ ہے‘ جس کا مقصد ان خامیوں پر قابو پانا ہے جو اخراجات میں کمی کے خود کار نظام کے سالوں تک کارفرما رہنے کی وجہ سے پیدا ہو چکی ہیں۔ امریکہ نے سٹریٹیجک فورسز کی نئی علاقائی صف بندی پر بھی توجہ مرکوز کی ہے۔ شمالی اٹلانٹک روس کے ساتھ امریکی مسابقت کا مرکزی میدانِ جنگ بن گیا ہے اور امریکی فوج کے افسران اس حوالے سے فوری نئی منصوبہ بندیوں میں مصروف ہیں‘ جن میں سے ایک امریکی سیکنڈ فلیٹ (بحری بیڑا ) کو پھر سے منظم اور بحال کرنا ہے۔ اس بیڑے کو 2011ء میں غیر فعال کر دیا گیا تھا۔ امریکی سیکنڈ فلیٹ کا مرکزی مشن اس سمندر میں امریکی غلبے کو برقرار رکھنا ہو گا کیونکہ روس یہاں اپنی آبدوزوں کے ذریعے اپنی موجودگی کا احساس دلا رہا ہے۔ اسی طرح اس علاقے کے بالکل شمال میں واقع آئس لینڈ‘ جو کہ ایک بیس کے طور پر کام آتا ہے‘ پر بھی توجہ دی جا رہی ہے‘ کیونکہ وہاں رہ کر نہ صرف روسی آب دوزوں پر بہتر نظر رکھی جا سکتی ہے بلکہ ان کا راستہ بھی کاٹا جا سکتا ہے۔ اس تزویراتی بیس پر سرد جنگ کے خاتمہ کے بعد توجہ کم کر دی گئی تھی۔
یورپ کے دوسرے سرے پر انقرہ کی جانب سے روس اور امریکہ کے مابین معاملات میں توازن لانے کی کوششیں اب پہلے کی نسبت زیادہ اہمیت اختیار کر جائیں گی کیونکہ روس کی کوشش ہے کہ ترکی معاملات کو تھامے رکھنے کے اپنے کردار ‘ جس کی امریکہ حمایت کرتا رہا ہے‘ میں تبدیلی لائے۔ اس خطے میں واقع بالٹک ریاستوں… پولینڈ‘ یوکرائن‘ بیلارس‘ جارجیا… کو بھی نیا کردار سونپا جا رہا ہے۔ یہ ریاستیں روس اور امریکہ کے مابین اس نئی جنگ میں اہم کردار ادا کریں گی۔ مزید شمال کی طرف بڑھیں‘ تو سکینڈے نیون ممالک بالعموم اور ناروے بالخصوص امریکہ کی توجہ کا مرکز بن رہے ہیں‘ کیونکہ اس وسیع و عریض میدان جنگ کی حدود آرکٹک (قطب شمالی) کے تھیٹر تک پہنچتی ہیں۔ علاوہ ازیں چھٹے امریکی بحری بیڑے کو یورپی تھیٹر پر صف آرا کیا جا رہا ہے۔ اس توقع کے ساتھ کہ اسے (امریکہ کو) بالٹک اور بحر اسود میں زیادہ گشت لگانے کا موقع ملے گا۔ پیسفیک کے خطے میں چین اپنے بیلسٹک اور کروز میزائلوں کی تعداد میں اضافہ کر رہا ہے اور دوسرے خطوں کے برعکس امریکہ کو یہاں ایئر بیسز دستیاب نہیں ہیں اور اس صورتحال نے امریکہ کے لئے چین کے مقابلے کے حوالے سے صورتحال کو زیادہ پیچیدہ اور گمبھیر بنا دیا ہے۔ نتیجتاً امریکہ کو جاپان اور سنگا پور کے ساتھ اپنے تعلقات پر خصوصی توجہ دینا پڑ رہی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ امریکہ اس خطے میں اپنے لئے کچھ بیسز کی تلاش میں بھی ہے‘ جیسے شمالی آسٹریلیا‘ فلپائن‘ شمالی ماریانہ آئی لینڈز ۔ جنوبی کوریا میں امریکی افواج پہلے ہی موجود ہیں لیکن ان کی یہاں موجودگی ‘دونوں کوریا ئوںکے باہمی تنازعات کی وجہ سے ہے اور یہ امریکہ کے لئے ایک بوجھ ثابت ہو سکتی ہیںکیونکہ اگر تنازع شدت اختیار کر گیا تو یہ ہر وقت چین کے نشانے پر ہوں گی۔ امریکہ کے پاس ایک بڑی بحری طاقت ہے لیکن چین تہیہ کئے ہوئے ہے کہ وہ اس فرق کو ختم کر دے گا۔
امریکہ‘ فوج کے ساتھ ساتھ دوسری کئی حکمت عملیوں پر بھی کام کر رہا ہے‘ جیسے ایشیا پیسفیک کے غیر اتحادی ممالک کے ساتھ تعلقات مضبوط بنانا تاکہ چین کے خلاف حمایت بڑھائی جا سکے۔ آنے والے برسوں میں بھارت‘ ویت نام‘ ملائیشیا اور انڈونیشیا امریکہ کی زیادہ توجہ کے مستحق ٹھہر سکتے ہیں۔ یہ علاقے شمالی چین اور جنوبی چین کے سمندری علاقوں کو گھیرے میں لئے ہوئے ہیں اور یہاں سے چین کی افریقہ‘ شرق ا وسط اور یورپ کو کمیونی کیشن کی سمندری لائن کو روکا جا سکتا ہے۔بلا شبہ امریکہ کو بدلتے ہوئے حالات کا ادراک ہے اور وہ اس کے مطابق خود کو تبدیل اور تیار بھی کر رہا ہے‘ لیکن دنیا بھر میں بہت سے فلیش پوائنٹس‘ امریکہ کی توجہ اپنی جانب مبذول رکھیں گے۔ ان میں سے سب سے اہم دہشت گردی کے خلاف جنگ ہے جو سترہ سال گزرنے کے باوجود جاری ہے۔ ویسے تو پوری دنیا میں‘ لیکن خصوصی طور پر شرق اوسط‘ شمالی افریقہ‘ جنوبی ایشیا اور سب صحارن افریقہ میں امریکہ اس جنگ پر اب بھی توجہ مبذول کئے ہوئے ہے اور وسائل بھی اس جنگ میں جھونک رہا ہے۔ اس کے اثرات امریکی فوجی طاقت کے علاوہ معیشت پر بھی مرتب ہو رہے ہیں۔ ایران اور شمالی کوریا کے ساتھ امریکہ کے تعلقات اچھے نہیںچل رہے۔ ان میں کسی ایک یا دونوں کے ساتھ امریکی تصادم کے خطرے کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ایسا نہیں ہے کہ چین اور روس‘ امریکہ کی ان خامیوں‘ اور پریشانیوں سے واقف اور آگاہ نہ ہوں۔ اگر تینوں بڑی طاقتوں کی یہ چپقلش شدت اختیار کر گئی تو پھر انہیں دنیا کو اپنے حق میں کرنے کیلئے مہنگی کیمپین چلانی پڑے گی۔ شنید ہے کہ روس نے تو اس سلسلے میں کام کا آغاز کر بھی دیاہے اور افغانستان میں طالبان کے کچھ گروہوں کی طرف ملتفت ہو رہا ہے۔ امریکہ پہلے ہی شام میں روس مخالف طاقتوں کی پشت پناہی کر رہا ہے۔ دوسری جانب اگر امریکہ ایران تنازعہ شدت اختیار کر گیا تو روس اور چین آگے بڑھ کر ایران کا ہاتھ تھامنے میں کوئی دقت محسوس نہیں کریں گے‘ اس سے امریکہ کے مسائل بڑھیں گے‘‘۔