منتخب کردہ کالم

نئی سیاسی جماعتوں کی ضرورت

الیکشن کی آمد آمد ہے، روایتی سیاسی جماعتیں اقتدار پر قابض ہونے یا اقتدار میں حصہ بٹانے کی کوششوں میں مصروف ہیں، اس اصل مقصد کو پس منظر میں رکھ کر عوام کو سبز باغ دکھائے جا رہے ہیں، کوئی 2018 تک بجلی کی لوڈشیڈنگ ختم کرنے کی نوید دے رہا ہے، تو کوئی چین پاکستان کے اقتصادی راہداری معاہدے کو دودھ اور شہد کی نہروں سے تعبیر کر رہا ہے۔ اپنے اصلی اور روایتی مقاصد کو چھپاتے ہوئے عوام سے وہی وعدے دہرائے جا رہے ہیں جو 69 سال سے دہرائے جا رہے ہیں۔

ہماری حکمران جماعت 2013 سے برسر اقتدار ہے، اس ساڑھے تین سالہ مدت میں عوام کے بوجھ میں اضافہ تو ہوا ہے، ان کے مسائل بڑھے تو ہیں، ان میں کوئی کمی نہیں آئی۔ حکمران جماعت انتخابات کے لیے بجلی کی لوڈشیڈنگ کے خاتمے کو استعمال کر رہی ہے۔ بجلی کی لوڈشیڈنگ حکمران جماعتوں کی نااہلی کا نتیجہ ہے۔ عوام کے شدید دباؤ کی وجہ سے حکومت نے اس مسئلے کے 2018 تک حل کی منصوبہ بندی کی ہے اور اس حوالے سے بھاری سرمایہ کاری کی جا رہی ہے۔ ظاہر ہے ان کوششوں سے 2018 تک بجلی کی لوڈشیڈنگ ختم ہوجائے گی اور اس ’’کارنامے‘‘ کے ذریعے حکومت عوام کی ہمدردیاں حاصل کرنے کی کوشش کرے گی۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا بجلی کی لوڈ شیڈنگ ہی ہمارا سب سے بڑا قومی مسئلہ ہے؟ ہرگز نہیں۔ بلکہ یہ مسئلہ حکمرانوں کی نااہلی سے پیدا ہوا ہے۔ اگر یہ مسئلہ حل ہوتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ حکمرانوں نے اپنی نااہلیوں کا ازالہ کیا، عوام پر کوئی احسان نہیں کیا۔ اسی طرح اقتصادی راہداری کے معاہدے کو عوام کی زندگی میں انقلاب کا نام دیا جا رہا ہے۔ بلاشبہ اس معاہدے سے ملکی معیشت میں بہتری آئے گی، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اقتصادی راہداری معاہدے سے عوام کی زندگی میں انقلاب یا معاشی خوشحالی کیسے آئے گی؟

کیا عوام دال، روٹی، چائے، روٹی کے بجائے جام، جیلی، انڈا، مرغی، برگر، پیزا کھائیں گے؟جی نہیں، عوام کے شب و روز وہی رہیں گے، جیسے 69 سال سے ہیں۔ نہ عوام کے ناشتے میں جام، جیلی، انڈہ، مکھن آئے گا، نہ ان کے کچے مکان پکے مکانوں میں بدلیں گے، نہ ان کے بچوں کو لال پیلے سرکاری اسکولوں سے چھٹکارا ملے گا، نہ وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے قابل ہوں گے، نہ وہ انتخابات میں حصہ لینے کے اہل ہوں گے۔

اگر اس معاہدے پر عملدرآمد سے غریب اور بے روزگار عوام کو کچھ فائدہ ہوگا تو وہ یہ ہوگا کہ انھیں روزگار کے کچھ مواقع حاصل ہوں گے اور بے روزگاروں کی فوج میں تھوڑی بہت کمی آئے گی۔ البتہ اشرافیہ اور اس کے متعلقین کے دولت کے انباروں میں ناقابل یقین اضافہ ہوجائے گا اور سیاست اور اقتدار پر اشرافیہ کی گرفت اور مضبوط ہوجائے گی حکمران اور سیاست دانوں کے پوبارہ ہوجائیں گے اور سیاست پر ان کی گرفت اور مضبوط ہوجائے گی۔

یہ سب اس لیے ہوگا کہ ہماری کسی سیاسی اور مذہبی جماعت کو لوٹ مار میں حصہ داری اور کم سے کم مدت میں زیادہ سے زیادہ دولت کے انبار جمع کرنے کے علاوہ عوام کے شب و روز بدلنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہوگی۔ پاکستان کو قائم ہوئے اب 69 سال ہو رہے ہیں، اگر سیاستدان اور حکمران عوام سے مخلص ہوتے تو اس طویل عرصے میں عوام کی بدترین زندگی کو بہتر بنانے کی کوشش کرتے، لیکن یہ اس لیے نہیں ہو رہا ہے کہ عوامی زندگی کو بدتر سے بہتر بنانا سیاسی جماعتوں کی ترجیحات میں شامل ہی نہیں۔

بلاشبہ ہمارے ملک میں لگ بھگ تیس سال فوجی حکومتیں رہیں لیکن سیاسی جماعتیں لگ بھگ چالیس سال برسر اقتدار رہیں، کیا اس طویل عرصے میں کسی حکمران جماعت نے عوام کی جہنم زار زندگی کو جنت بنانے یا کم ازکم انھیں دو وقت کی روٹی اطمینان سے حاصل کرنے کے مواقع فراہم کیے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ فوجی آمر مشرف کے دور میں آٹا 16 روپے کلو، چاول 30 روپے کلو، دال 70-80 روپے کلو چینی، 25 روپے کلو تیل، گھی 60-70 ملتے تھے، جبھی مشرف کو اقتدار سے باہر کیا گیا اور سیاسی جماعتیں اقتدار میں آئیں تو آٹا40-50 کلو تک، چینی 60-70 روپے کلو تک، دالیں 140 اور 160 روپے کلو تک، تیل 160 روپے کلو تک، گوشت 500 روپے کلو تک پہنچ گئے۔ سیاستدان اپنی نااہلی کی ذمے داریاں فوجی حکومتوں پر ڈال دیتے ہیں لیکن عوام جمہوری اور فوجی حکومتوں کی کارکردگی دیکھ رہے ہیں یہی وجہ ہے کہ عوام سیاستدانوں سے دور ہوتے جا رہے ہیں اور اپنے مسائل کے حل کے لیے کسی مسیحا کا انتظار کر رہے ہیں۔

مسیحا نہ اپر مڈل کلاس سے آئے گا نہ اشرافیائی گھرانوں سے، عوام کا مسیحا عوام کی صفوں عوام کی آبادیوں، نچلے طبقات ہی سے آئے گا۔ اور ہماری اشرافیہ نے عوام کی قانون ساز اداروں اور حکومتوں میں آنے کا ہر دروازہ بند کردیا ہے۔ موجودہ صورتحال میں کوئی بامعنی تبدیلی ہماری موجودہ سیاسی جماعتیں ہرگز نہیں لاسکتیں کیونکہ 69 سالہ عوامی مسائل کے حل سے انھیں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔

اگر ملکی سیٹ اپ میں اور 69 سالہ اسٹیٹس کو میں کوئی بامعنی تبدیلی لانا ہو تو غریب عوام پر مشتمل ایسی سیاسی جماعتیں بنانی ہوں گی جو لوٹ مار کے بجائے قومی مسائل کے حل اور عوام کی زندگی میں بہتری لانے کے ایجنڈے پر کام کرنے کے پروگرام پر کام کرنے کا ایماندارانہ ایجنڈا رکھتی ہوں۔ ہمارے ملک میں مخلص عوام دوست اور قومی مسائل کے حل مین دلچسپی رکھنے والی جماعتیں وسائل کی شدید کمی کا شکار ہیں۔

ہمارے دوست عابد حسن منٹو پاکستان ورکرز پارٹی کے سربراہ ہیں، یہ پارٹی کم وسائل کے باوجود عوام میں کام کر رہی ہے۔ اس قسم کی چھوٹی چھوٹی جماعتیں جن میں مڈل کلاس پر مشتمل قوم پرست جماعتیں بھی شامل ہیں ایک دوسرے کے قریب آئیں اور ایک دوسرے پر اعتماد کرتے ہوئے ایک وسیع تر اتحاد میں شامل ہوکر سیاسی میدان میں سرگرم ہوں تو نہ صرف وہ اشرافیائی جماعتوں کو سیاست بدر کرسکتی ہیں، بلکہ عوام کی حمایت بھی حاصل کرسکتی ہیں۔