منتخب کردہ کالم

نئی گریٹ گیم …..ابراہیم راجہ

نئی گریٹ گیم …..ابراہیم راجہ

گریٹ گیم اپنی نہیں، دوسروں کی سرزمین پر کھیلی جاتی ہے۔ بڑے عالمی کھلاڑی، بڑا کھیل کھیلتے ہیں، اپنی شرائط پر، اپنے مفادات کے لیے۔ ٹرمپ کی نئی پالیسی، دراصل نئی گریٹ گیم کا باضابطہ اعلان ہے۔ اس بڑے کھیل کا مرکزی میدان، پاکستان میں سجے گا، منصوبہ سازوں کا یہ منصوبہ ہے۔
جنگ اپنی مرضی سے شروع کی جا سکتی ہے، ختم نہیں۔ افغانستان میں جنگ امریکا نے اپنی مرضی سے شروع کی، اس جنگ کو مگر اپنی مرضی کے مطابق ختم کرنا اس کے بس میں نہیں۔ سولہ برس ہوتے ہیں، افغانستان میں امریکی خاک چاٹ رہے ہیں، نو سو کھرب روپے پھونکنے کے باوجود۔ دنیا کی جدید ترین ٹیکنالوجی ان کے پاس ہے، گولا بارود کا سب سے بڑا ذخیرہ، سب سے تباہ کن ہتھیار بھی ۔ بے رحمی اور سفاکی سے یہ جنگ لڑی گئی، تیس ہزار عام افغان بھسم کر دیے گئے، جنگی ماحول اور اثرات کے باعث مرنے والے ساڑھے تین لاکھ افغان الگ ہیں۔ تیس ملکوں کی فوج امریکیوں کے ساتھ رہی، نتیجہ کیا ہے؟ حکومتی عمل داری صرف کابل شہر تک، وہ بھی آئے روز دھماکوں سے گونجتا رہتا ہے۔ اس ناکامی کا ذمہ دار پاکستان ہے؟ پاکستان کے پاس کون سی گیدڑ سنگھی ہے کہ سپر پاور اور اس کے تیس اتحادیوں کو ناکام کر دے؟ وہ پاکستان جو خود دہشت گردی کے خلاف اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے، وہ پاکستان جسے سرحدوں پر بھارتی اشتعال انگیزی کا سامنا بھی رہتا ہے۔ دلائل جب ختم ہو جائیں تو حقانی نیٹ ورک کا گھسا پٹا راگ الاپ دیا جاتا ہے۔ ماضی کی مصلحتوں کا قصہ الگ، حال کے حقائق مگر کچھ اور ہیں، اب کوئی نیٹ ورک اثاثہ نہیں، محض بوجھ ہے، سمجھنے والے سمجھ چکے ہیں۔ حقانی نیٹ ورک کے جنگجوئوں کی تعداد اب تین ہزار سے زائد نہیں، اندازے اور دعوے اگرچہ دس ہزار تک بھی ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر آپریشن ضرب عضب کے بعد افغانستان جا چکے۔ افغان طالبان کی حیران کن پیش قدمی کے بعد، حقانی نیٹ ورک کو پاکستان میں نہیں، افغانستان میں زیادہ محفوظ ٹھکانے میسر ہیں۔ پاکستان اور
افغانستان کے درمیان لہراتی بل کھاتی سرحد چوبیس سو کلومیٹر طویل ہے، دونوں کے لیے سرحد کے آر پار دہشت گردوں کی آمد و رفت روکنا ممکن نہیں۔ اگر یہ ممکن ہوتا تو پاکستان ملا فضل اللہ اور اس کے حواریوں کو افغانستان کیوں جانے دیتا۔ پاکستان اور افغانستان ایک دوسرے پر سرحد پار سے حملوں کا الزام لگاتے رہتے ہیں۔ فی الحال اس انتہائی پیچیدہ مسئلے کا حل سرحد کی نگرانی کا فعال نظام ہے، پاکستان نے مرحلہ وار یہ نظام قائم کرنے کی کوشش کی، افغانستان مگر اس پر آنکھیں دکھانے لگا۔ پاکستان نے طورخم بارڈر پر سکیورٹی گیٹ نصب کیا، افغان فوج نے پاکستانی اہلکاروں پر فائرنگ کر دی، اب پاکستان سرحد پر باڑ لگا رہا ہے، اس پر بھی افغانستان کو اعتراض ہے۔ آخر کیوں؟ جاننے والے سب جانتے ہیں، کچھ جان بوجھ کر بھی انجان بنے ہوئے ہیں۔ افغانستان کے پینتیس فیصد علاقے پر طالبان دوبارہ کنٹرول حاصل کر چکے۔ تیس سے زائد اضلاع میں ان کی مکمل
عملداری ہے، تقریبا ڈیڑھ سو اضلاع میں چالیس فیصد سے زائد علاقہ ان کے زیر اثر ہے۔ کیا اتنی بڑی ناکامی کا ملبہ پاکستان پر ڈالا جا سکتا ہے؟ امریکا سولہ برس بعد بھی یہ جنگ کیوں ہار رہا ہے، اس کا جواب ایک جملے میں تلاش کیا جا سکتا ہے ”ہم نے سولہ سالہ جنگ نہیں، ایک سالہ جنگ سولہ مرتبہ لڑی۔ یہ الفاظ کسی عام شخص کے نہیں، امریکی سیکرٹری دفاع جیمز میٹس کے ہیں۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی قربانیاں اور امریکا کے لیے پاکستان کی خدمات کیا ہیں، خود امریکا سے بہتر کون جان سکتا ہے۔ گریٹ گیم کا مگر کوئی اصول ہوتا ہے نہ ضابطہ۔ چین نئی سپر پاور کے طور پر ابھرنے کی کوشش کر رہا ہے، اس کے تجویز کردہ ”ون بیلٹ، ون روڈ‘‘ منصوبے میں اڑسٹھ ملک شامل ہونے کو بے تاب ہیں۔ اس منصوبے پر ایک ہزار ارب ڈالر لگائے جا چکے۔ اگلے دس برس میں مزید آٹھ ہزار ارب ڈالر خرچ کیے جائیں گے۔ یہ منصوبہ مکمل ہو گیا تو روس، وسط ایشیا اور یورپ تک چین کا اثر و رسوخ ناقابل یقین حد تک بڑھ جائے گا۔ اس لیے یہ منصوبہ چین کا ”نیو ورلڈ آرڈر‘‘ بھی کہلاتا ہے۔ سی پیک ‘بیلٹ اینڈ روڈ‘ منصوبے کا پائلٹ پراجیکٹ ہے۔ بھارت علی الاعلان اس منصوبے کی مخالفت کر چکا، امریکا کو بھی یہ منصوبہ کھٹکتا ہے۔ امریکا کو چین کا راستہ روکنا ہے، اس کے لیے پہلے مرحلے میں سی پیک کو ناکام بنانا ضروری ہے۔ یہ اسی صورت ممکن ہے کہ پاکستان عدم استحکام سے دوچار رہے۔ اسی لیے افغان جنگ کو مکمل طور پر پاکستان میں دھکیلنے کی تیاری ہے۔ چین کو الجھائے رکھنے کے لیے امریکا کو خطے میں مضبوط اتحادی کی ضرورت ہے، یہی وجہ ہے کہ امریکا اب کھل کر بھارت کی پشت پناہی کر رہا ہے۔ ایک طرف اس کے ساتھ بڑے دفاعی معاہدے کیے جا رہے ہیں، دوسری جانب ہر سفارتی محاذ پر آنکھیں بند کر کے بھارت کی حمایت کی جا رہی ہے۔ افغانستان میں بھارت کو بڑا کردار دینا اسی کھیل کا حصہ ہے، اس کے دو اہم مقاصد اور بھی ہیں، پہلا یہ کہ وسط ایشیا اور
مشرقی یورپ میں چین اور روس کا اثر و رسوخ کم کرنا، دوسرا یہ کہ افغانستان سے رخصتی کے بعد بھارت کے ذریعے خطے میں امریکی مفادات کا تحفظ کرنا۔ یہ امریکا اور بھارت کے مشترکا مفادات کا گھنائونا کھیل ہے، پاکستان کو اس میں قربانی کا بکرا بنایا جا رہا ہے۔ چین امریکا کی اس نئی گریٹ گیم کو سمجھتا ہے، اسی لیے ٹرمپ کی نئی پالیسی پر پاکستان سے پہلے چین کا ردعمل سامنے آیا، واضح اور دوٹوک الفاظ میں۔ روس بھی ماضی کی سپر پاور ہے، ان چالوں سے وہ اچھی طرح واقف ہے، وہ بھی نئی امریکی پالیسی کو رد کر چکا۔ اس پیچیدہ لڑائی میں چین پاکستان کی ڈھال ہے لیکن کیا یہی کافی ہے؟ پاکستان کے راستے میں اب سانپ زیادہ، سیڑھیاں کم ہیں۔ کیا ہم جانتے ہیں کہ اب یہ کھیل کیسے کھیلنا ہے؟ پاکستان افغانستان کا سایہ ہے، وہ افغانستان جو امریکی اور بھارتی سازشوں کا گڑھ بننے جا رہا ہے۔ کوئی جتنا بھی تیز دوڑ لے، اپنا سایہ نہیں پھلانگ سکتا، بس پاکستان کو اتنی سی بات سمجھانی ہے، اُن سب کو جنہیں سمجھانا ضروری ہے۔

جنگ اپنی مرضی سے شروع کی جا سکتی ہے، ختم نہیں۔ افغانستان میں جنگ امریکا نے اپنی مرضی سے شروع کی، اس جنگ کو مگر اپنی مرضی کے مطابق ختم کرنا اس کے بس میں نہیں۔ سولہ برس ہوتے ہیں، افغانستان میں امریکی خاک چاٹ رہے ہیں، نو سو کھرب روپے پھونکنے کے باوجود۔

……….
اگلا کالم
…….