نئے حالات ‘ نیا مکالمہ .. سہیل وڑائچ
میڈم ایم : ہیلو! ہیلو! آپ کی ساری کارروائیاں سامنے آنا شروع ہو گئی ہیں‘ آپ باز نہیں آئے ناں۔ اپنے سربراہ واجد ضیاء کے کزن کو‘ جو پی ٹی آئی کا رکن ہے‘ 50 لاکھ روپے دے کر ہمارے خاندان کے خلاف ٹاسک دیا گیا۔
محترمہ جے : ہیلو : میڈم آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے‘ اصل بات یہ ہے کہ تحقیقات صحیح ہوئیں یا نہیں۔ لندن والے بندے کا نام واجد ضیاء نے نہیں بلکہ ایک روحانی شخصیت نے دیا تھا انہیں یقین تھا کہ وہ صحیح تحقیقات کرے گا۔
میڈم ایم : یہ سب کچھ بدنیتّی پر مبنی تھا‘ جان بوجھ کر ایسا بندہ ڈھونڈا گیا جو ہمارے خلاف رپورٹ دے‘ اپنے کزن کو سرکاری خزانے سے 50 لاکھ روپے دے کر واجد ضیاء نے خیانت کی ہے‘ اس کا احتساب ہونا چاہیے۔
محترمہ جے : واجد ضیاء بہت شریف آدمی ہے وہ تو اپنی بیوی سے بھی ڈرتا ہے اس دفعہ اس کے پیچھے ریاست کی طاقت تھی۔ جے آئی ٹی سپریم کورٹ نے بنائی تھی اور حساس ادارے اس میں شامل تھے‘ خود وفاقی کابینہ نے سپریم کورٹ کے حکم پر جے آئی ٹی کو ایم ایل اے (میوچل لیگل اسسٹنس) کے تحت شریف خاندان سے متعلق دستاویزات منگوانے کی اجازت دی تھی۔ ریاست کا مقابلہ کون کر سکتا ہے؟۔
میڈم ایم : پاکستان میں تو ہر شریف آدمی بیوی سے ڈرتا ہے‘ چاہے وہ رُکن قومی اسمبلی ہی کیوں نہ ہو۔(قہقہہ) ایک بات صاف ہے کہ جے آئی ٹی کے اراکین نے کچّے‘ ان گھڑے کاغذات کی بناء پر ہمارے خاندان پر الزامات لگائے۔ آپ کے سب ممبر ذاتی طور پر ہمارے خلاف تھے۔
محترمہ جے : دیکھیں میڈم! ناراض نہ ہوں۔ ہمیں سپریم کورٹ نے حکم دیا تھا اسی کے مطابق ہم نے رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کروا دی۔ اب فیصلہ تو اُنہوں نے کرنا ہے۔ آپ چاہتے تو ہماری حاصل کردہ ہر دستاویز کو چیلنج کر دیتے مگر آپ ایسا نہ کر سکے۔
میڈم ایم : معاملہ ہماری عزت کاہے‘ جان بوجھ کر اسے خراب کرنے کی کوشش کی گئی۔ اصل معاملہ تو سیاسی اختلاف ہے یا پھر پالیسی اختلافات‘ لیکن ہمارے خاندان پر الزامات لگا کر ہمیں سیاسی نقصان پہنچانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
محترمہ جے : اگر آپ سچ بولتے‘ اصلی دستاویزات پیش کرتے ‘سب ٹھیک ہوتا تو ظفر حجازی ریکارڈ میں گڑ بڑ کرنے پر گرفتار کیوں کئے جاتے؟ آپ ہر روز جھوٹ پر جھوٹ بول رہے ہیں‘ ہر روز نئے سے نئے کاغذات لا رہے ہیں۔ آپ ہمیں سنجیدہ لیتے تو انکوائری بہتر ہو سکتی تھی مگر آپ کا روّیہ نخوّت اور تکبّر سے بھرا ہوا تھا جب آپ تعاون ہی نہیں کر رہے تھے تو رپورٹ حق میں کیسے ہوتی۔
میڈیم ایم : ہمیں شروع میں ہی علم ہو گیا تھا کہ جے آئی ٹی میں چُن چُن کر ہمارے مخالفوں کو جمع کیا گیا ہے یہ پاکستان کی معاشی پالیسیوں کے خلاف عالمی سازش ہے جس میں کچھ مقامی عناصر بھی شریک ہیں‘ ہمارے سیاسی مخالف بھی اس سازش کا حصّہ ہیں۔
محترمہ جے : آپ لندن فلیٹس کی ملکیت اور منی ٹریل کی بات کریں باقی تو سب کہانیاں ہیں۔ پہلے آپ کچھ بتاتے نہیں تھے‘ اب آپ ایک نیا خط لے آئے ہیں کہ حسین نوازشریف لندن فلیٹس کے مفاداتی مالک ہیں‘ آپ عدالت کو جھوٹ سے گمراہ کر رہے ہیں۔
میڈم ایم : جو چیز ہمیں قانون خفیہ رکھنے کی اجازت دیتا ہے وہ کیوں ظاہر کریں؟ اب جو خط پیش کیا گیا ہے وہ جے آئی ٹی کے خطوط کے جواب میں اصلی خط ہے۔
محترمہ جے : (ہنستے ہوئے) اسی لئے اس پر ویک اینڈ کی تاریخ ڈالی ہوئی ہے۔ برطانیہ میں وکیل ویک اینڈ پر کام نہیں کرتے۔ جھوٹ کے پائوں کہاں؟
میڈم ایم: ہر بات پر شک کرنا حاسدوں اور دشمنوں کا کام ہوتا ہے ہمارا وکیل ویک اینڈ پر بھی کام کرتا ہے۔ آپ نے جو بندہ ہمارے خلاف لندن میں بھاری معاوضہ پر مامور کیا تھا اس کا تو کوئی دفتر ہی نہیں۔ ہمارا وکیل تو اچھا خاصا مشہور ہے۔
محترمہ جے : (طنزیہ) اسی لئے تو اس نے پرانی تحریر پر وہ فونٹ لگایا جو اس تحریر کے زمانے میں ایجاد تک نہیں ہوا تھا۔
میڈم ایم : (ہنستے ہوئے) یہ مذاق کی حد تک تو ٹھیک ہے مگر ہماری دستاویزات تصدیق شدہ اور اصلی ہیں۔ وقت اور عدالت دونوں ہمیں باعزت بّری کریں گی۔
محترمہ جے : آپ لوگ تو اپنے وکیلوں کو بھی سچ نہیں بتاتے ہر روز عدالت میں انہیں پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ابھی تک یہ طے نہیں ہو سکا کہ آپ کا مئوقف ہے کیا؟ آپ لوگ بیٹھ کر جھوٹ تو کوئی اچھا گھڑ لیں! لگتا ہے آپ سب کی چھٹی ہوگی!
میڈم ایم : ہم کیوں جھوٹ گھڑیں! جھوٹ اور جبر آپ کو مبارک ہو‘ ہم تو پروفیشنل اکائونٹنٹ اور وکیل کے مشورے سے چلتے ہیں۔ اب یہ بزنس کی تکنیکی باتیں ہیں جس میں خواہ مخواہ ہمیں الجھایا جا رہا ہے۔ ہمارا ان باتوں سے کیا تعلق؟ یہ سب تو بڑے میاں‘ محمد شریف صاحب کو پتا ہو گا…ہماری چھٹی کروائی گئی تو یہ آئین کے ساتھ مذاق ہوگا۔
محترمہ جے : آپ لوگ ثبوت سامنے لائیں‘ ہر روز آپ دلدل میں پھنستے جا رہے ہیں‘ جھوٹ سے نہیں‘ آپ صرف سچ بول کر ہی عدالت اور قوم کو مطمئن کر سکتے ہیں۔ لیکن اب جو جھوٹ بول چکے ہیں‘ ان کی سزا تو آپ کو بھگتنی ہی پڑے گی۔
میڈم ایم : ؎
تمہارا شہر‘ تمہی مدعی‘ تمہی منصف
ہمیں یقین تھا‘ قصور ہمارا ہی نکلے گا
پاناما تو بہانہ ہے‘ ہمارا قصور یہ ہے کہ عوام کی خواہشوں سے اقتدار میں آئے ہیں اور عوام کو خوشحال بنانا چاہتے ہیں‘ یہ کچھ اندرونی اور بیرونی طاقتوں کو پسند نہیں۔
محترمہ جے : پاپا بھی پاپی‘ پپّو بھی پاپی‘ پنکی بھی پاپی‘ ماشاء اللہ پورے کا پورا ٹبّر پاپی
میڈم ایم: یہ سب بکواس ہے۔ ہم نے برٹش ورجن آئی لینڈ کی اصلی دستاویز جمع کروا دی ہے‘ اسی طرح وہ رسیدیں بھی پیش کر دی ہیں جو گلف سٹیل کی مشینری کو شارجہ سے جدّہ لیجانے کا ثبوت فراہم کرتی ہیں۔ان سے ثابت ہوتا ہے کہ اثاثے کہاں سے بنے اور کہاں خرچ ہوئے؟
محترمہ جے : ہمارے پاس برٹش ورجن آئی لینڈ کا وہ خط بھی ہے جس میں آپ مفاداتی مالک ہیں‘ یہ خط 2010ء کا تھا‘ اب آپ 2014ء کا خط لے آئی ہیں‘ یہ سب تضادات چکر دینے کے لئے ہیں عدالت اس سے مس گائیڈ نہیں ہوگی۔
میڈم ایم : ہمیں اپنی عزت بہت پیاری ہے ابھی ہم نے ضبط کر رکھا ہے‘ مگر جب سرخ لائن عبور ہوئی تو ہم سب راز فاش کر دینگے۔ وزیراعظم کا سینہ رازوں سے بھرا ہے‘ جب وہ بولے تو سازشیوں کو چھپنے کی جگہ نہیں ملے گی۔
محترمہ جے : آپ کے پاس تو وزیراعظم کے اقامہ لینے کا جواب تک نہیں‘ ایف زیڈ ای کیا تھی؟ جواب دیں!
میڈم ایم : وزیراعظم اس وقت جلاوطن تھے‘ پاکستان کی آمرانہ حکومت ویزے نہیں دیتی تھی‘ اس لئے اقامہ لیا تھا کہ بار بار دوبئی کا ویزہ نہ لینا پڑے‘ قانون اس کی اجازت دیتا تھا۔ آپ تو جانبدار ہیں اسلئے ہر بات میں کیڑے نکالتے ہیں۔
محترمہ جے : آپ چاہتی تھیں کہ جے آئی ٹی کے افسر آپ کے چمچے ہوتے تاکہ پچھلے 30 برسوں کی طرح آپ صاف بچ نکلتے اور کلین چٹ لے کر اگلے الیکشن کے جلسوں میں لہراتے اور یوں پھر سے 5 سال کیلئے آ جاتے ۔ریاست ہماری پشت پر تھی اسی لئے ہم سب ثبوت ڈھونڈنے میں کامیاب ہوئے۔
میڈم ایم : آپ لوگ جھوٹے اور سازشی ہیں۔ آپ اسلام‘ جمہوریت اور پاکستان کے خلاف ہیں منتخب وزیراعظم کو سازش سے ہٹانا چاہتے ہیں۔ مگر یاد رکھیں تاریخ آپ کو معاف نہیں کرے گی۔
محترمہ جے : پاکستان کو کچھ نہیں ہو گا۔ جمہوریت بھی چلتی رہے گی‘ تاریخ آپ کو کرپشن کے کوڑے دان میں پھینک دے گی۔آپ فارغ ہیں…
میڈم ایم : بدتمیز‘ تاریخ تُم سے انتقام لے گی۔
(ہیلو‘ ہیلو…کال کٹ گئی)
نوٹ: (میڈم ایم کون ہے اور محترمہ جے کون؟ خود سوچیں)