منتخب کردہ کالم

نئے نائن الیون کی ضرورت! نازیہ مصطفی (حرفِ ناز)

نائن الیون ایک بڑا سانحہ تھا یا معمولی واقعہ تھا؟ نائن الیون امریکیوں اور یہودیوں کی اپنی سازش تھی یا امریکہ اور اُس کے اتحادیوں کے ظلم و ستم اور مسلم دشمن پالیسیوں سے نالاں مسلمان نوجوانوں کی تیارکردہ ناقص حکمت عملی؟ یہ دو سوالات گزشتہ ڈیڑھ دہائی سے جواب طلب ہیں اور شاید کبھی حل بھی نہ ہو پائیں، لیکن اِن سوالات کی نزاکت اور حساسیت کے برعکس یہ بھی درست ہے کہ نائن الیون نے دنیا پر شدید اثرات مرتب کیے اور آج جدید دنیا کو بلاشبہ ”پری نائن الیون‘‘ اور ”پوسٹ نائن الیون‘‘ ادوار میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ افغانستان کے پڑوس میں واقع ہونے کی وجہ سے نائن الیون نے پاکستان پر بھی گہرے اثرات ڈالے۔ اب یہ کون نہیں جانتا کہ نائن الیون سے کچھ عرصہ پہلے کس طرح میاں نواز شریف کی حکومت ختم کی گئی؟ کس طرح پرویز مشرف نے کارگل میں جنگ چھیڑ کر کچھ حاصل کیے بغیر ہی مقبولیت کے جھنڈے گاڑ دیے تھے؟ اور اِسی ”مقبولیت‘‘ نے بعد میں کس طرح ایک بھاری مینڈیٹ لینے والے وزیر اعظم کو گرفتار کرکے ملک بدر کرنے میں پرویز مشرف کو سہولت اور آسانی فراہم کی؟ کہا تو یہ بھی جاتا ہے کہ اگر نائن الیون کا واقعہ نہ ہوا ہوتا تو شاید اس ملک میں چوتھے مارشل لا کیلئے راستہ اس قدر ہموار بھی نہ ہوتا۔ نائن الیون کے بعد کے واقعات ایسی مستند تاریخ کا حصہ ہیں، جو آنے والے زمانوں میں یقینا تحقیق و جستجو کے طلبا کیلئے حوالے کے طور پر استعمال ہوں گے۔
”پوسٹ نائن الیون‘‘ پاکستان میں 2002ء کے انتخابات سے پہلے پرویز مشرف نے کس طرح کنگز پارٹی بنائی اور اس کنگز پارٹی کی کارستانیاں بعد میں کیسے زبان زد عام ہوئیں؟ پوسٹ نائن الیون پاکستان کے حوالے سے مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی قیادت کی جلاوطنی میں سیاست اور واپسی، میڈیا کی آزادی اور عدلیہ کی بحالی کی تحاریک اور بینظیر بھٹو کی شہادت جیسے جاں گداز اور المیہ موڑ بھی آتے ہیں۔ اِسی دور میں پاکستان پیپلز پارٹی کی رنگیلا شاہی حکومت اور آصف زرداری کے دور میں پیپلز پارٹی کے عبرتناک زوال کے باب بھی رقم ہوئے۔ نائن الیون نہ ہوتا تو ”پاکستان کے نیلسن منڈیلا‘‘ کو اتنی آسانی سے جیل سے رہائی ملتی نہ ہی مشرف زرداری این آر او ہوتا۔ جی ہاں! حقیقت یہی ہے کہ مشرف کا این آر او بینظیر سے زیادہ ”مردِ حر‘‘ سے ہی ہوا تھا، جو بعد میں پرویز مشرف کی ایوان صدر سے پورے تزک و احتشام اور گارڈ آف آنر کے ساتھ رخصتی سے بھی ثابت ہو گیا۔
بینظیر کی شہادت کے بعد پیپلز پارٹی کی حکومت کی کارکردگی تو اگرچہ 2013ء کے انتخابات سے ہی عیاں ہے، لیکن پورے پانچ برس تک کراچی میں بدامنی، ٹارگٹ کلنگ اور دہشت گردی کی کارروائیاں نہ رُک سکیں بلکہ معاملات اس حد تک خراب ہو گئے کہ اُس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے ایک ازخود نوٹس کے تحت کراچی میں لاقانونیت، بدامنی اور مسلسل بگڑتی ہوئی صورتحال پر متعلقہ اداروں کو بلا کر نوٹس کی سماعت شروع کی۔ اِس ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران سکیورٹی اداروں کی رپورٹس میں انکشاف کیا گیا کہ کراچی کی بدامنی میں جہاں غیروں کا ہاتھ تھا، وہاں اپنوں نے بھی معاملات کو انتہا درجے تک بگاڑنے میں پورا پورا حصہ ڈالا۔ انٹیلی جنس اداروں کی رپورٹس میں انکشاف کیا گیا تھا کہ سیاسی جماعتوں نے اپنے اپنے مسلح ونگز بنا رکھے تھے، جو اپنے اپنے ”زیر نگیں‘‘ علاقوں میں تمام ”معاملات‘‘ کنٹرول کرتے تھے، سیاسی جماعتوں کے یہ مسلح جتھے بھتہ لینے میں ہی ملوث نہ تھے بلکہ مخالفین کی ٹارگٹ کلنگ بھی اِنہی کے ”ذمہ‘‘ تھی۔ اس کیس کی سماعت کے دوران جہاں کراچی میں بدامنی کی بنیادی وجوہ سامنے آئیں‘ وہیں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مجبوریاں اور سیاسی حکومتوں کی نااہلی بھی آشکار ہو گئی۔ کراچی بدامنی کیس میں جب اس طرح کے حقائق پیش کیے گئے تو سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں مختلف سیاسی، مذہبی اور کالعدم جماعتوں کے عسکری سیلز اور ٹارگٹ کلرز کے خلاف کارروائیاں شروع کرنے کا فیصلہ ہوا‘ اور کراچی کو امن کا گہوارہ بنانے کیلئے سپریم کورٹ کے احکامات کی روشنی میں قانون نافذ کرنے والے اداروں بالخصوص رینجرز کو خصوصی اختیارات تفویض کیے گئے۔
اِن خصوصی اختیارات کی وجہ سے ہی آنے والے دنوں میں یہ ممکن ہو سکا کہ کراچی میں کئی دہائیوں کے بعد امن قائم ہونا شروع ہو گیا۔ بھتہ خوری کی شکایات ختم ہو گئیں، ٹارگٹ کلنگ رُک گئی، دہشت گردی کے واقعات نہ ہونے کے برابر رہ گئے اور تاجر طبقے کے ساتھ ساتھ عام شہریوں نے بھی سکھ کا سانس لینا شروع کر دیا۔ بعد میں آپریشن ضرب عضب شروع ہوا تو اس میں بھی کراچی کو شامل کر لیا گیا، اِسی آپریشن ضربِ عضب میں ناصرف دہشت گردوں کے قلع قمع کا فیصلہ کیا گیا بلکہ دہشت گردوں کی مالی اعانت کرنے اور انہیں کسی بھی حوالے سے سہولت فراہم کرنے والے افراد کے خلاف سخت کارروائی کرنے کا فیصلہ بھی کیا گیا۔ کراچی کا امن تباہ کرنے والے عناصر کی رہی سہی امیدوں پر اُس وقت پانی پھر گیا، جب آرمی پبلک سکول پشاور پر دہشت گردوں کے خوفناک حملے کے بعد نیشنل ایکشن پلان شروع کیا گیا تو کراچی میں سیاسی جماعتوں کے اندر چھپے دہشت گرد عناصر ناصرف بے نقاب ہونے لگے بلکہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی گرفت میں بھی آنے لگے۔ کراچی میں امن قائم کرنے کیلئے 2013ء میں رینجرز نے جو آپریشن شروع کیا، اس آپریشن میں بلا تفریق کارروائیوں کے نتیجے میں ایک ہزار سے زیادہ ٹارگٹ کلرز پکڑے گئے جنہوں نے کم و بیش آٹھ ہزار افراد کو قتل کیا تھا۔ جب اتنی بڑی تعداد میں ”ہدف کش‘‘ پکڑے گئے تو ”ہدف کشی‘‘ یعنی ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں کمی واقع ہونا بھی ایک لازمی امر تھا، لیکن کون نہیں جانتا کہ اس وقت بھی کس کس حیلے بہانے سے رینجرز کے اختیارات میں توسیع کے راستے میں رکاوٹیں ڈال کر اس آپریشن کو ناکام بنانے کی بھرپور کوشش کی گئی؟
قارئین کرام!! کراچی میں آپریشن شروع ہونے کے بعد جب پیپلز پارٹی کے لوگ گرفت میں آنا شروع ہوئے تو آصف زرداری نے اینٹ سے اینٹ بجانے کی دھمکی دی اور پھر دو سال تک دکھائی نہ دیے۔ اب ”ڈاکٹر ساختہ جلاوطنی‘‘ سے واپسی کے بعد آصف زرداری ایک مرتبہ پھر ذرا مختلف موڈ میں دکھائی دے رہے ہیں۔ حکومت مخالفت میں گرینڈ الائنس بنانے اور اپوزیشن کو ساتھ لے کر چلنے کی باتیں ہو رہی ہیں، جو حقیقت میں طوفان دیکھ کر ریت میں سر چھپانے والی بات سے زیادہ مختلف نہیں۔ گرینڈ الائنس کی باتیں کرنے والوں نے کیا یہ بھلا دیا ہے کہ 1999ء میں گرینڈ الائنس بنا تھا تو اس الائنس کی ”کامیابی‘‘ کے پیچھے نائن الیون کا بھی بڑا ہاتھ تھا۔ ایک بار پھر گرینڈ الائنس کا دانہ ڈالنے اور اِس گرینڈ الائنس سے امیدیں وابستہ کرنے والوں کو ”کامیابی‘‘ کیلئے پھر ایک نئے نائن الیون کی ضرورت پڑے گی!