نئے وزیر اعظم کا حلف…مجیب الرحمٰن شامی
ابھی ابھی وزیر اعظم عمران خان کی تقریبِ حلف برداری میں شرکت کے بعد ایوانِ صدر سے باہر نکلا ہوں۔ گزشتہ تینتس (33) سال کے دوران کئی وزرائے اعظم کو حلف اٹھاتے دیکھا۔ کبھی ایوانِ صدر آ کر تو کبھی ٹی وی کے سامنے بیٹھ کر۔ ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے اقتدار کے ایوانوں میں صدر اور چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کے طور پر قدم رکھا تھا۔ سبکدوش ہونے والے صدر، جنرل آغا محمد یحییٰ خان کا ارادہ طویل قیام کا تھا۔ انہوں نے اپنے پیشرو فیلڈ مارشل ایوب خان کی حکم عدولی کے بعد صدارت کی ٹوپی اوڑھی تھی۔ فیلڈ مارشل نے اپنے خلاف ہنگاموں کو دبانے کے لیے انہیں چند شہروں میں مارشل نافذ کرنے کا ”حکم‘‘ دیا تھا، لیکن اس جنرل نے‘ جسے انہوں نے بڑے چائو سے جنرل محمد موسیٰ خان کی جگہ افواجِ پاکستان کا سالارِ اعلیٰ مقرر کیا تھا، آنکھیں پھیر لیں۔ اس کا کہنا تھا کہ ادھورے سے کام نہیں چلے گا، مارشل لاء لگانا ہے تو پورا لگانا ہو گا۔ تمام شہروں اور بستیوں سے یکساں سلوک ہو گا، اور ہر جگہ فوجی ڈنکا بجایا جائے گا، تو حالات قابو میں آئیں گے۔ وہ فیلڈ مارشل جس نے دستور کے تحت منتخب صدر کو یہ کہہ کر رخصت کر دیا تھا کہ ایک نیام میں دو تلواریں نہیں رہ سکتیں۔ اب اُس کے ساتھ وہی سلوک ہو رہا تھا۔ تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی تھی۔ صدر سکندر مرزا نے اپنے کمانڈر انچیف کو حکم دیا تھا کہ وہ دستور کے تحت قائم حکومت کی جگہ سنبھال لے۔ 9 سال کی محنتِ شاقہ کے بعد بننے والا دستور‘ جس پر تمام قومی سیاسی جماعتوں کا اتفاق تھا اور جسے ڈھاکہ سے لے کر طورخم تک امورِ مملکت چلانے کے لیے اساسی دستاویز کے طور پر تسلیم کر لیا گیا تھا، عوام کے منتخب نمائندوں نے اس پر دستخط ثبت کئے تھے، اور ایک ہزار میل کے فاصلے پر واقع مُلک کے دونوں منطقوں کے درمیان ایک ناقابلِ شکست پُل کی حیثیت اسے حاصل تھی، اس دستور کی حفاظت کا حلف اٹھانے والے صدرِ مملکت نے اس دستور ہی کی حفاظت کا حلف اٹھانے والے کمانڈر انچیف کو اسے طاقِ نسیاں میں رکھنے کا حکم دے کر وزیر اعظم فیروز خان نون کو برطرف کرکے ان کے اختیارات سنبھالنے کی ”اجازت‘‘ مرحمت فرما دی… صدر سکندر مرزا کا پختہ خیال تھا کہ وہ اپنے یارِ غار (جنرل) کو ساتھ ملا کر برسوں اقتدار سے لطف اندوز ہوتے رہیں گے، اور مملکت کی تعمیر اپنے تصورات کے مطابق کر سکیں گے۔ وہ ایک اچھے ایڈمنسٹریٹر تھے، اور پاکستان کو ”مولویوں‘‘ سے پاک کرنے کی خواہش بھی رکھتے تھے، لیکن اقتدار کے مزاج میں شراکت نہیں ہے، اس لیے دونوں حضرات چند ہی روز میں ایک دوسرے سے نالاں ہو کر ایک دوسرے سے نجات حاصل کرنے کے منصوبے بنانے لگے۔ دستور تو پہلے ہی رخصت ہو چکا تھا، طاقت کا سرچشمہ صرف بندوق تھی، وہ جس کے ہاتھ میں تھی، اس ہی نے غالب آنا تھا۔ ”وزیر اعظم‘‘ ایوب خان نے صدارت کا منصب سنبھال لیا، اور تاریخ کئی قدم آگے بڑھ گئی یا یہ کہے کہ واپس لوٹ گئی۔ اُس دورِ غلامی کی طرف جس میں طاقت کو قانون کا درجہ حاصل تھا۔
فیلڈ مارشل لا ایوب خان نے بنفسِ نفیس قوم کو دستور تحفے میں دینے کا فیصلہ فرما لیا، اور اپنے نامزد کردہ افراد کے ذریعے ایک دستوری دستاویز مرتب کرکے اسے نافذ کر ڈالا۔ اس کے دیباچے ہی میں درج تھا کہ مَیں فیلڈ مارشل اسے قوم پر نازل کر رہا ہوں۔ اس دستور نے پارلیمانی کی جگہ صدارتی نظام نافذ کر دیا۔ آزادی کے بعد پاکستان کے ہر بالغ شخص کو اپنے معاملات اپنے ہاتھوں میں لینے کا موقع تسلیم کیا گیا تھا، اسے واپس لے لیا گیا۔ بالغ رائے دہی کا اصول ختم کرکے صدر اور اسمبلیوں کے لیے بالواسطہ طریقِ انتخاب نافذ کر دیا۔ مشرقی اور مغربی پاکستان سے چالیس چالیس ہزار افراد پہلے مرحلے میں منتخب کئے جاتے تھے، جو لوکل باڈیز کا انتظام چلاتے تھے، انہیں صدر اور اسمبلیوں کے انتخابی حلقے (الیکٹورل کالج) کی حیثیت بھی دے دی گئی۔ ریاست میں دو بڑے منصب دار… صدر اور وزیر اعظم… موجود تھے، تو مغربی اور مشرقی حصے کو شراکت داری کا احساس رہتا تھا۔ ایک کا صدر ہوتا تو وزیر اعظم کے انتخاب کے لیے دوسرے کی طرف نگاہ اٹھتی۔ وزیر اعظم کا عہدہ ختم ہوا، تو اختیارات صدر کی ذات میں مرتکز ہو گئے۔ صدر مغربی پاکستان کا تھا، اور فوجی بھی، سو ایک صوبے کے دوسرے صوبے پر تسلط کا تاثر قائم ہوا، اور اسے ہوا دینے کے لیے علیحدگی پسند حرکت میں آتے چلے گئے۔
بات کچھ دور نکل گئی، پاکستان کو وزیر اعظم یا وزیر اعظم کو پاکستان کم ہی راس آیا ہے، بھٹو جیسے طاقتور وزیر اعظم بھی ہو گزرے ہیں، لیکن طاقت ان کے آڑے نہیں آ سکی۔ وہ اسی کے نیچے دب گئے۔ جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے… بھٹو مرحوم کی پھانسی کے بعد تو یہ عہدہ مسلسل گردش میں ہے۔ کبھی تقسیم اختیارات کے نام پر تو کبھی آمرانہ رجحانات کی حوصلہ شکنی کا دعویٰ کرکے وزیر اعظم کی جیب سے بہت کچھ نکالا جاتا رہا، اور وزیر اعظم اسے واپس حاصل کرنے کے جتن کرتا رہا۔ جنرل ضیاء الحق کی آئینی ترامیم نے جو کچھ وزیر اعظم سے لیا تھا، وہ کئی برس بعد نواز شریف نے صدر فاروق لغاری کی جیب سے نکال لیا۔ جنرل پرویز مشرف نے صدارت سنبھالنے کے بعد پھر اپنی جیب بھاری کر لی، تو یوسف رضا گیلانی کی وزارتِ عظمیٰ کے دوران صدر آصف علی زرداری نے رضاکارانہ اُسے ہلکا کر دیا۔ اپنی جیب سے سارے سکے نکال کر وزیر اعظم کی نذر کر دیئے۔ اب دستوری طور پر وزیر اعظم پاکستان ان تمام اختیارات کا مالک ہے، جو کسی بھی پارلیمانی نظام میں اُسے حاصل ہوتے ہیں۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی طرح پاکستانی وزیر اعظم پارلیمنٹ کے سامنے جواب دہ ہے، اور کوئی دوسرا، اُس کا بال بیکا نہیں کر سکتا۔ لیکن گزشتہ کچھ عرصے میں عدالتی فیصلوں نے وزیر اعظم کے تحکم میں خاصی کمی کر دی ہے۔ پہلے یوسف رضا گیلانی کو توہین عدالت کی پاداش میں اپنے منصب سے الگ ہو کر پانچ سال کی نااہلی گزارنا پڑی۔ اس کے بعد نواز شریف عمر بھر کے لیے نااہل قرار پائے۔ دستور کی دفعہ (3)184 کی تشریح اس طرح کی گئی ہے کہ اب عملاً وزیر اعظم، سپریم کورٹ کے رحم و کرم پر زندہ رہنے کے لئے مجبور ہے۔ اس دفعہ کا کمال یہ ہے کہ اس کے تحت سپریم کورٹ ابتدائی عدالت کے طور پر ایکٹ کر سکتی ہے، یعنی براہِ راست کسی منتخب نمائندے کو نااہل قرار دے کر عمر بھر کے لیے کوچۂ انتخاب سے نکالا جا سکتا ہے۔ اس فیصلے کے خلاف اپیل کا کوئی حق بھی میسر نہیں ہے، گویا ابتدائی فیصلہ ہی انتہائی قرار پا کر حتمی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ مستقبل میں بھی ہمارے جسدِ سیاست پر اس تعبیر کے شدید اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ نئے وزیر اعظم عمران خان کے خلاف بھی مُلک کی مختلف عدالتوں میں نااہلی کی درخواستیں زیر سماعت ہیں۔ اُن کا تعلق اگرچہ دفعہ (3)184 سے نہیں ہے، یہ ریٹرننگ افسروں سے ہو کر عدالتوں تک پہنچی ہیں، لیکن ان میں استدعا بہرحال عمران خان کو نااہل قرار دینے کی کی گئی ہے۔ پاکستان کے سابق چیف جسٹس افتخار چودھری‘ جن کی بحالی کے لیے وزیر اعظم عمران خان نے بھی سر دھڑ کی بازی لگائی تھی، اب عمران خان کے درپے ہیں، اور اُن کو نااہل قرار دلوا کر اطمینان کا سانس لینا چاہتے ہیں۔ اس طرح وہ اپنے خلاف ان عمرانی الزامات پر غصہ نکال لیں گے، جو 2013ء کے انتخابات میں ان کے کردار کے حوالے سے لگائے جاتے رہے ہیں۔ عدالتوں میں کیا ہو گا، اس سے قطع نظر ایک کروڑ ساٹھ لاکھ سے زائد ووٹ حاصل کرنے والے عمران کو سیاست سے بے دخل کرنا آسان ہے، نہ اقتدار سے۔ دُعا کی جانی چاہیے کہ نئے وزیر اعظم اپنے وعدوں کے مطابق ”نیا پاکستان‘‘ تعمیر کر سکیں۔ ان کی تقریبِ حلف برداری میں ان کی مخالف سیاسی جماعتوں کے رہنما شریک نہیں ہوئے۔ صدرِ مملکت کا ان کے ساتھ باقاعدہ مصافحہ بھی دیکھنے میں نہیں آیا اور قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران بھی کھلے دِل سے اُنہیں مبارک باد نہیں دی گئی، اس کے باوجود مسائل کو بات چیت کے ذریعے ہی حل کرنا پڑے گا۔ گاڑی کو پٹڑی سے اُتارنے یا پٹڑی اکھاڑنے کی کسی بھی کوشش کی تائید کی جا سکتی ہے، نہ تعریف۔
عمران خان اِس بات پر بھی مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے حلف قومی زبان میں اٹھایا، بعض ثقیل الفاظ کی ادائیگی میں دِقت کے باوجود قومی تشخص کو اجالنے اور ابھارنے پر ان کی ہمت بندھانی چاہیے۔