نادیدہ مخلوق…نذیر ناجی
دو دن کے بحث و مباحثے کے بعد آصف زداری اورنوازشریف کے مابین سمجھوتہ ہو گیا کہ‘‘ دکھائی نہ دینے والی دنیا‘‘ آصف زرداری کے سپرد کر دی جائے۔” نئی دنیا ‘‘کا قبضہ نوازشریف حاصل کر لیں گے۔زیادہ دیر بحث اس موضوع پر ہوئی کہ نئی دنیا میںباغات‘ لامحدود تیز رفتار سواریاں اور ان کی رفتار قریباًدو ہزار کلو میٹر فی گھنٹہ ہو گی۔ زرداری صاحب نے ایک بارجاتی امرا کا مشاہدہ کیا تھاجو انہیں بہت اچھا لگا۔ فرط محبت سے بے تاب ہو کر زرداری صاحب نے نوازشریف سے کہا ”سائیں! میرے صرف تین بچے ہیںاور تینوں میں سے کسی کا بچہ نہیں۔ دکھائی نہ دینے والی مخلوق کا ابھی تک کسی کو علم نہیں۔ جس دنیا کی مخلوق دکھائی نہیں دیتی‘ وہاں میں خود نئی مخلوق کا بندوبست کر لوں گا ۔ آپ جاتی امرا میرے حوالے کر دیں۔آپ کی ”عیاشی ‘‘کے لئے یہاں بہت اچھا انتظام کر رکھا ہے۔جاتی امرا میں آکر میرے بچے اگلی نسل کو پروان چڑھانا شروع کر دیں گے۔ میرے سامنے اپنی نئی نسل کی جو خیالی دنیا ہے‘ یہ جاتی امرا اور پاکستان ‘دونوں کے لئے بہت ہے۔آپ کی اولادماشااللہ بہت ہے اور آگے ان کے بچوں کی پیداوار کا سلسلہ بھی چلنا ہے۔ا س لئے دکھائی نہ دینے والی دنیا میرے حوالے کر دیں اور خود اپنی دریافت شدہ اور پوری طرح تیار دنیا اپنی تحویل میں لے لیں ۔
آپ نے سب کے لئے ایک ایک بنگلہ تیار کر رکھا ہے اور جو بنگلہ ابھی تیار نہیں‘وہاں بنگلے تعمیر کرنے کی لامحدود گنجائشیں موجود ہیں۔آپ کی رعایا تو نہیں جانتی لیکن میں اندازہ کر چکا ہوں کہ وہاں پر بے شمار” جنتوں کا بازار‘‘لگا ہے۔ وہاں کھلی اور زرخیز زمین ہے۔ وہاں کے پھولوں کی خوشبو‘ یہاں کے گلابوں سے اچھی ہے۔وہا ں کی بھنڈی لیلیٰ کی انگلیوں سے بھی زیادہ حسین ہوتی ہے۔بلاول نے اپنے ذوق وشوق کے ایسے ایسے خوب صورت اور ذہین کیبرے بنا رکھے ہیں۔ میں نے بلاول کے لئے طرح طرح کی حسین دنیائیں سوچ رکھی ہیں۔وہاں گنے کے کھیت بڑی نفاست سے لگایا کریں گے۔ ان کے اوپر کوئی پتا یا چھال نہیں ہو گی۔انتہائی لذیذ‘ ریشمی اور انگوری رنگوں کا رس ‘ ان میں سے نکلا کرے گا۔مجھے گنے کی مل چلانے کا بہت شوق ہے۔ جبکہ کراچی کی شفاف سڑکوں پر کوڑے کے ڈھیر لگے ہیں۔ پاکستان کے تمام سرمایہ داروں نے یہ ڈھیر اٹھوانے کے لئے بہت کوشش کی لیکن کوڑا بہت ضدی ہے۔ یہاں پر بڑے بڑے اپنی مہارتیں استعمال کر کے ناکام ہوگئے۔
آصف زرداری ‘میاں صاحب کو اپنے تصورات کی دنیا کا نقشہ بتا رہے تھے کہ میاں صاحب نے دخل اندازی کرتے ہوئے کہا آپ نے جس تصوراتی دنیا کی تعبیریں مجھے دکھائی ہیں‘ وہاں تو ہر جگہ گھوڑوں‘ گدھوں‘ بکریوں‘ ہاتھیوں‘ ہرنوں‘سانپوں اور طرح طرح کے باشندوں کی افراط ہے۔ میں اپنی قوم کا واحد لیڈر ہوں جو شیروں کا شوقین ہے۔ شیر میرے گھرمیں بھی پائے
جاتے ہیں۔ صحن میں بھی گھومتے پھرتے ہیں۔ دس بارہ شیر اردگرد کے کھیتوں میں چہل قدمی کرتے ہیں۔انہیں پوری آزادی ہے کہ جس جانور پر ان کی طبیعت آئے‘ وہ اسے بلاتاخیر تناول کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ جب شیروں کے پیٹ بھر جاتے ہیں تو چھوٹے چھوٹے بھیڑئیے اور گیدڑ تیزرفتاری سے بھاگتے ہوئے ‘ لذیذ خوراک سے لطف اندوز ہونے لگتے ہیں۔یہ میرے لاہور کا چڑیا گھر ہے۔ جہاں آنے کے بعد کوئی حسین جانور دیکھنے کو نہیں ملتا۔چڑیا گھر کے چاروں طرف بڑے بڑے افسروں کی کوٹھیاں ہیں۔ جس افسر کا دل چاہتا ہے اپنی پسند کا جانور کار بھیج کے گھر منگوا لیتا ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ میں نے اس دنیا کی ہر چیز سے لطف اٹھا لیا ہے۔ ہاتھی کے سری پائے کھا کر دیکھ لیا۔ سانپ کے مغز سے لطف اندو ز ہوا۔شیر کا کلیجہ روسٹ کر کے کھایا۔ سانپوں کی زبانیں فرائی کر کے کھائیں۔ موروں کے ناچ دیکھے۔ہاتھی کو ماچس پر پیر رکھ کر لہراتے ہوئے د یکھا ۔ لیکن اب میں اس دنیا سے ایک نئی کائنات میں منتقل ہونے کا سوچ رہا ہوں۔اس دنیا میں شیروں کی کوئی کمی نہیں۔ وہاں الیکشن کے ووٹ خودمانگنے نہیں جائوں گا۔ میرے شیر جایا کریں گے۔ گھر کی گھنٹی بجایا کریںگے اور گھر میں پکے پکائے سری پائے‘ ہاتھ جوڑ کر شیروں کی خدمت میں پیش کر دیں گے۔میں آنے والے انتخابات میں بھی اپنے ووٹ جمع کرنے کی خدمت شیروں کے سپرد کر دوں گا۔نئی دنیا میں خود نادیدہ مخلوقات کا شکار کھیلوں گا۔خود بھی کھائوں گا۔ بچوں کو بھی کھلائوں گا۔اس دنیا میں جو بھی بھیانک‘ بدمزہ اور بدشکل مخلوق ہو گی‘ وہی میری خوراک بنے گی۔شیر مجھے بہت پسند ہیں۔