منتخب کردہ کالم

نامناسب؛ ذوالفقار احمد چیمہ

دسمبر نے ہمیشہ بڑے صدمے دیے ہیں۔ صدموں کے علاوہ قومی منظرنامے پر کچھ ایسی چیزیں دیکھنے کو ملیں جو نامناسب بھی تھیں اور ناپسندیدہ بھی!

کوئی سیاستدان ہو ملک کا سربراہ ہو یا فوج کا کمانڈر۔ اس کا طواف کرتے ہوئے یا روضۂ رسولؐ پر حاضری دیتے ہوئے فوٹو بناکر میڈیا میں چھپوانا نامناسب ہے۔

٭سندھ جہاں بُری گورننس اپنی اتھاہ گہرائیوں کو چھورہی ہے۔ جہاں ایماندار افسروں کی سب سے زیادہ ضرورت ہے، وہاں اچھی شہرت کے آئی جی کوہٹانا نامناسب ہے۔

٭قائدؒ نے آزادی کے بعد اپنی پہلی تقریر میں کرپشن کو کینسراور اقرباء پروری کو لعنت قرار دیا اور ان کے خاتمے پر زور دیا تھامگر قائدؒ کی سالگرہ مناتے ہوئے پنجاب میں قائد کی تعلیمات کی اسطرح دھجیاں اڑائی گئیں کہ اقرباء پروری کی انتہا کرتے ہوئے لوکل کونسلوں کے عہدے حکومتی ممبرانِ اسمبلی اور وزراء نے اپنے بیٹوں، بھتیجوںاور دامادوں میں ہی بانٹ لیے۔ یہ بھی انتہائی نامناسب اور ناپسندیدہ فعل ہے۔

٭کیا قبلہ زرداری صاحب ملک کا کھویا ہوا حصّہ فتح کرکے یا پاکستان کا پانی کا مسئلہ حل کروا کے لوٹ رہے تھے جو ان کے استقبال پر غریب عوام کا کروڑوں روپیہ برباد کردیا گیا ۔ برقی میڈیا پر مشکوک ریکارڈ کی حامل شخصیات کاLive استقبال دکھانا بھی نامناسب ہے۔

٭وفاقی وزیرِ داخلہ کو چار سال بعد خیال آگیاہے کہ نیب کے چیئرمین کی تقرری کا طریقۂ کار غلط ہے۔ لیکن اگر وہ احتساب میں واقعی مخلص ہیں تو ایف آئی اے کو وزارتِ داخلہ کے کنٹرول سے آزاد کرکے اس کے اپریشنل کاموں میں دخل اندازی بند کردیں۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو یہ نامناسب ہے۔

ان سب باتوں کوباری باری لیتے ہیں۔

جہاں تک یاد پڑتا ہے سرکاری عمرے کرنے اور اس کے فوٹو شایع کروانے کا رواج ذوالفقار علی بھٹو صاحب کے دور سے شروع ہوا۔ وزارتِ اطلاعات نے احرام میں ملبوس حجرِاسودکو بوسہ دیتے ہوئے ان کا فوٹو ریلیز کیا ۔ جنرل ضیاء الحق کے د ور میں تو سرکاری حج اور عمروں کا سلسلہ اوجِ کمال تک پہنچ گیا۔

عبادت، انسان اور اس کے خالق اور ربّ کے درمیان خالصتاً ایک ذاتی اور پرائیوٹ عمل ہوتا ہے جس کی تشہیر یا دکھاوا اس کی روح کو مسخ کردیتا ہے ۔ مکّہ اور مدینہ میں کی جانے والی عبادات کی تشہیر کا مقصد یہ ہوتاہے کہ عوام کو دکھایا جائے کہ متعلّقہ شخص اپنی دینی اقدار سے کسقدر لگاؤ رکھتا ہے تاکہ عوام کے دلوں میں اس کے لیے پسندیدگی کے جذبات پیدا ہوں۔ حکمرانوں کے عبادت کرتے ہوئے فوٹو میڈیا میں شایع کروائے جاتے رہے لیکن فوجی سربراہوں کے اس قسم کے فوٹو چھپوانے کا رواج نہیں تھا۔

حج، عمرے یا روضۂ رسولؐ پرحاضری کے فوٹو شائع کرانا ایک نامناسب فعل ہے ۔ اس سے مکمّل طور پر احتراز کیا جانا چاہیے۔

٭…بری گورننس کے تمام ریکارڈ توڑ ڈالنے پر جب حکومت ِسندھ پربہت زیادہ تنقید ہوئی تو نیا وزیرِ اعلیٰ مقرّر کردیاگیا۔ سپریم کورٹ نے بدنام آئی جی کو ہٹادیا تو سندھ کے حکمرانوں نے ایک ایماندار آئی جی لگانے کا تجربہ کرنے پر اتفاق کرلیا۔ مگر وہ بھی محدود اختیارات کے ساتھ! اے ڈی خواجہ نے میرے ساتھ دو بار کام کیا ہے وہ ایماندار بھی ہیں اور قابل بھی۔ انھوں نے محدود وقت میں میرٹ پر بھرتیوں اور پروموشنزوغیرہ کے بہت اچھے کام کیے ہیں، جو قابلِ تحسین ہیں۔

سندھ کے اصل حکمران نے سندھ کے دو بہترین افسروں ڈاکٹر نجف مرزا اور بشیر میمن کو پہلے ہی سندھ بدر کیا ہوا ہے، محدود آزادی کے باوجود وہ اے ڈی خواجہ کوبھی برداشت نہیں کررہے ۔ میری اطلاع کے مطابق چھٹی ختم ہونے پر اے ڈی خواجہ اپنے دفتر جاکر چارج سنبھالیں گے اگر انھیں چارج نہ لینے دیا گیا تو یہ بہت نامناسب ہوگا۔

٭قائداعظمؒ کے یومِ ولادت پر وفاقی حکومت کی طرف سے ھفتۂ تقریبات کے اعلان میں یہ باور کرایا گیا تھا کہ اس میںنئی نسل کو قائدؒ کا وژن اور پیغام سے روشناس کرایا جائے گا۔ 25دسمبر کی شام کو ٹی وی لگایا تو قائدؒپر منعقد ہونے والی اسلام آباد کی سب سے بڑی سرکاری تقریب میں نوجوان لڑکیوں کو لڑکوں کے ساتھ ملکر رقص کرایا جارہا تھا۔ قائد کا کونسا پیغام ہے جو لڑکیوں کے ڈانس کے ذریعے نئی نسل کو منتقل کیاجاسکتا ہے؟۔

راقم قائدؒ کی تقریباً تمام تقاریرپڑھ چکا ہے۔ انھوں نے اگر کسی تقریر میں لڑکیوں کے رقص کی تلقین کی ہوتو اطلاعات کی نوجوان وزیر مملکت قوم کو اس سے ضرورمطلع کرے۔ میرے خیال میں قائدؒ کے پیغام کو مسخ کرنے کی یہ بھونڈی کوشش انتہائی نامناسب اور افسوسناک تھی۔

٭نئی مملکت میں قائدؒ نے اپنی پہلی تقریر میں کرپشن اور اقربأپروری کے خاتمے پر بہت زور دیاتھا۔کسی بھی تقریب میں کرپشن کے مضراثرات کو اجاگر نہیں کیا گیا جو افسوسناک ہے۔ اقربأ پروری کے بارے میں قائد کا وژن کیا تھا یہ جاننے کے لیے کئی واقعات نشاندھی کرتے ہیں۔ ایک بار ان کے بھائی ملنے کے لیے آئے ، وزیٹنگ کارڈ پر لکھا تھا ’’گورنر جنرل کے بھائی ‘‘ قائد نے سختی سے منع کردیا کہ گورنر جنرل سے رشتے داری کا کہیں ذکر نہیں ہوگا،اسی طرح ایک دفعہ ان کا بھانجا جو بمبئی کا ایک قابل وکیل تھا ،ملنے کے لیے آیا۔ قائدؒ نے اسے کراچی میں کاروبار کرنے بلکہ وکالت کرنے کی بھی اجازت نہ دی۔

ہم نے قائدؒ کو اسطرح خراجِ عقیدت پیش کیا ہے کہ ھفتۂ تقریبات کے دوران ہی بلدیاتی اداروں کے اہم عہدے حکومتی جماعت کے ممبرانِ اسمبلی اور وزراء نے اپنے بھائیوں، بیٹوں، بھتیجوں اور دامادوں میں بانٹ لیے ہیں۔ قائدؒ کی تعلیمات اور ہدایات کی بدترین خلاف ورزی اس سے بڑھکر اور کیا ہوسکتی ہے!!

٭ ہمارا میڈیا صرف کرپشن کرپشن کھیلتا ہے۔ کسی کوEmbarrass کرتا ہے یا کسی کو گالی دلواتا ہے۔کسی کو چور اور کسی کو سادھ بناکر ریٹنگ بڑہاتا ہے۔ اگر کوئی چینل اس ملک سے کرپشن کا خاتمہ کرنے میں مخلص ہوتا تو داغدار دامن والے افراد کی پروجیکشن یا عزت افزائی کبھی نہ کرتا۔ کراچی میں کچھ کمانڈروں نے سختی کی تو قبلہ زرداری صاحب دبئی فرار ہوگئے۔ اب تبدیلی یا قدرے نرمی کے بعد وہ واپس آنے کے قابل ہوئے ہیں مگراستقبال اور Live coverage کا کیا جواز تھا؟ یہ سراسر نامناسب تھا۔

٭چار سال بعد محترم وزیرِ داخلہ کو احساس ہوا ہے کہ نیب کا چیئرمین سپریم کورٹ کو تعینات کرنا چاہیے۔اس موضوع پر یہ ناچیز بارہا لکھ چکا ہے کہ نیب، ایف آئی اے اور ایف بی آر کے سربراہوں کی تعیناتی کا فریضہ ایک سرچ کمیٹی کے سپرد کیا جائے جس میں عدلیہ، سول سروس اور ملٹری کے تین تین انتہائی نیک نام افراد شامل ہوں۔ اگر وزیر صاحب واقعی احتساب میں مخلص ہیں تو ایف آئی اے ان کے اپنے ماتحت ہے، اس کا بھی احتساب میںایک اہم رول ہے، اسے ہی ہمسایہ ملک کی CBIکی طرح آزاد بنادیں اور اس کے سربراہ کی تعیناتی میں دخل دینا بند کردیں۔ نیب یا ایف آئی اے تفتیشی ادرے ہیں، تفتیش اور ٹرائیل دونوں عدلیہ کے پاس نہیں ہونے چاہئیں ان کے سربراہوں کی تعیناتی ایک سرچ کمیٹی کے ذریعے ہی ہونی چاہیے۔

٭۔آج کے جدید دور میںدنیا کے ترقی یافتہ ملک ڈیجیٹل پولیسنگ اور Smart copکی طرف جارہے ہیں اور پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ وقت کا پہّیہ پیچھے موڑنا چاہتے ہیں۔ بلدیاتی اداروں کو اختیارات دینے کے بجائے وہ صدیوں پرانے سامراجی دور کی قبر کھود کر وہاں سے لارڈ کارنوالس کا نظام نکال کر نافذکرنا چاہتے ہیں… جو نامناسب بھی ہے اور خطرناک بھی!!