ناموس رسالتﷺ….علامہ ابتسام الٰہی ظہیر
انسان کی یہ عمومی فطرت ہے کہ وہ معزز اور محبوب لوگوں کے لیے حساسیت کا مظاہرہ کرتے ہیں‘ چنانچہ ہر ذی شعور انسان اپنے والدین‘ بیوی بچوںـ اور دیگر عزیز رشتہ داروں کے بارے میں حساس ہوتا ہے۔ والدین کا مقام اور مرتبہ اور ان کے لیے دل میں موجود پیار اور چاہت انسان کو اس بات پر آمادہ وتیار کرتے ہیں کہ انسان ان کی عزت اور آبرو کا دفاع کرے۔ نبی کریم ﷺکی ذات اقدس کا دفاع دنیا کے تمام معزز اور محبوب لوگوں سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ ایک عرصے سے اس بات کا مشاہدہ کیا جا رہا ہے کہ نبی کریمﷺ کی ذات اقدس کے حوالے سے اہل مغرب غیر ذمہ دارانہ رویوں اور مجرمانہ کردار کا مظاہرہ کر رہے ہیں ۔ ان مجرمانہ رویوں اور گستاخانہ حرکات کا تجزیہ کرنے سے قبل میں اس بات کو ضروری سمجھتا ہوں کہ نبی مہرباں حضرت محمدرسول اللہﷺ کی ذات ِاقدس کے حوالے سے دو باتوں کو سمجھنے کی کوشش کی جائے:
1۔ نبی کریم ﷺ کا مقام: نبی کریمﷺ کی ذات کے حوالے سے ہر مسلمان کا یہ عقیدہ ہونا چاہیے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی جمیع مخلوقات میں سے کسی بھی شخص کا مقام اور رتبہ نبی کریمﷺ جیسا نہیں ہو سکتا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپﷺ سے پہلے بھی انبیاء اور رسل اللہ کو مبعوث کیا‘ لیکن آپ ﷺ کی ذات پر نبوت ورسالت کو تمام کر دیا۔ نبی کریمﷺ سے پہلے آنے والے رسول اپنے اپنے علاقے اور مخصوص وقت کے لیے مبعوث کیے گئے جب کہ نبی کریمﷺ کی رسالت عالمگیراور قیامت کی دیوارون تک کے لیے اس کو دوام حاصل ہے۔ نبی کریم ﷺ سے پہلے آنے والے کتابیں بعد میں آنے والے انبیاء علیہم السلام کے ذریعے منسوخ ہو گئیں‘ لیکن اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپﷺ کی ذات اقدس پر اپنی آخری کتاب قرآن مجید کو نازل فرمایا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن اور آپﷺ کی سنت مطہرہ کو رہتی دنیا تک کے لیے حجت ‘دلیل ‘ ضابطہ حیات اور دستور عمل بنا دیا ۔ آپﷺ کی بعثت کے بعد کسی بھی علاقے اور عہد کا انسان‘ اگر ہدایت حاصل کرنا چاہتا ہے ‘تو اس کو آپﷺ کے قلب اطہر پر اترنے والے قرآن مجید اور آپﷺ کی سنت سے رہنمائی حاصل کرکے ہی ہدایت کا راستہ مل سکتا ہے۔
2۔ نبی کریمﷺ سے والہانہ محبت: نبی کریمﷺ کی ذات سے ہر مسلمان کو والہانہ محبت ہونی چاہیے۔ صحیح بخاری میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ آپﷺ نے ارشاد فرمایا: ”قسم ہے‘ اس ذات کی‘ جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ‘تم میں سے کوئی شخص بھی ایمان ولا نہیں ہو گا جب تک میں اس کے والد اور اولاد سے بھی زیادہ اس کا محبوب نہ بن جاؤں۔‘‘ قرآن مجید کی سورہ توبہ کی آیت نمبر 24میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس امر کا اعلان فرمایا : ”کہہ دیجئے‘ اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں اور تمہارا خاندان اور وہ مال (جو ) تم نے کمایا ہے اور (وہ )تجارت (کہ) تم ڈرتے ہو‘ جس کے مندا پڑجانے سے‘ اور وہ گھر جو تم پسند کرتے ہو زیادہ محبوب ہیں‘ تمہیں اللہ ‘ اس کے رسول اور اس کی راہ میں جہاد کرنے سے توتم انتظار کرویہاں تک کہ اللہ اپنے حکم کو لے آئے اور اللہ ہدایت نہیں دیتا(ایسے) فاسقوں کو۔‘‘ یہ آیت مبارکہ اس حقیقت کو واضح کرتی ہے کہ ہمیں دنیا میں رہتے ہوئے اللہ ‘ اس کے رسول اور اللہ کے راستے میں جدوجہد کرنے سے باقی تمام چیزوں سے زیادہ محبت ہونی چاہیے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نبی کریمﷺ سے والہانہ محبت کیا کرتے تھے۔ آپ کے ادنیٰ اشارہ ابرو پر وہ اپنے تن‘ من ‘ دھن کو نچھاور کرنے پر آمادہ وتیار ہو جاتے تھے۔ تاریخ اسلام کے دامن میں ایسے بہت سے واقعات بھی محفوظ ہیں کہ غزوات کے دوران صحابہ کرام ؓ نے نبی کریمﷺ کی طرف آنے والے تیروں کو اپنے وجوودوں پر روکنا گوارہ کر لیا‘ لیکن نبی کریمﷺ کی ذات پر معمولی سی انچ کو بھی نہیں آنے دیا۔
اس حقیقت کو بھانپ لینے کے بعد کہ نبی کریمﷺ کی عظمت کا مقابلہ کائنات کی کوئی ہستی نہیں کر سکتی اور آپ ﷺ سے ہمارا پیار اور محبت اس حد تک ہونا چاہیے کہ دنیا کے کسی بھی پیار اور محبت کی اس کے مقابلے میں کوئی اہمیت اور حیثیت نہ ہو۔ہر مومن ومسلمان پر یہ ذمہ داری عائدہوتی ہے‘ وہ آپﷺ کی عزت اور ناموس کے پر کسی بھی قسم کا سمجھوتہ کرنے پر آمادہ وتیار نہ ہو۔اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ منافقوں کی آیت نمبر 8 میں اس حقیقت کا ذکر کیا کہ ”اور عزت تو اللہ کے لیے اور اس کے رسول کے لیے اور مومنین کے لیے ہے اور لیکن منافق نہیں جانتے۔‘‘آیت مذکورہ سے واضح ہوتا ہے کہ دنیا والوں کی نظروں میں مال ومتاع‘ عہدہ ‘ شہرت اور نام باعث عزت ہو سکتے ہیں ‘لیکن اللہ تبارک وتعالیٰ نے عزت اپنے لیے‘ اپنے رسول ﷺ اور اہل ایمان کے لیے رکھی ہے۔
اہل اسلام کے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ ایک عرصہ سے دنیا بھر میں ہونے والی گستاخیوں کا کوئی سد باب نہیں کیا جا سکا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ حرمت ِرسول ﷺ کے حوالے سے مسلمانوں نے بالعموم بحیثیت مجموعی اور مسلمان حکمرانوں نے بالخصوص اپنی ان ذمہ داریوں کو ادا نہیں کیا ‘جو ان پر عائد ہوتی ہیں۔ مسلمانوں کو یہ سمجھنا چاہیے کہ اقوام ِعالم اس بات پر مجتمع ہیں کہ دنیا میں جمہوریت اور شخصی آزادیوں کے باوجود کسی ایک انسان اور کسی بھی عدالت کی توہین نہیں کی جاسکتی؛ چنانچہ مغربی ممالک میں حریت فکر‘ آزادی اظہار‘ جمہوری اقدار اور آزادیوں کے دعویٰ کے باوجود ہتک عزت کے قوانین پر بڑی سختی سے عمل کیا جاتا ہے اور اگر کسی انسان کی عزت کو مجروح کیا جائے‘ تو وہ اپنی عزت پر ہونے والے حملے کے ازالے کے لیے باقاعدہ عدالتوں سے رجوع کر سکتا ہے اور اس حوالے سے عزت پر جرح کرنے والے کو کئی مرتبہ بڑی خطیررقم بطور تاوان ادا کرنی پڑتی ہے۔
اسی طرح توہین عدالت کے حوالے سے بھی مغربی ممالک بہت زیادہ حساسیت کا مظاہرہ کرتے ہیں اور عدالتی فیصلوں کے احترام کو پورے معاشروں پر لاگو کیا جاتا ہے۔کسی بھی عدالتی فیصلے کا استہزاء کرنے والے کو کڑی سزا دی جاتی ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر ایک انسان اور ایک ادارے کی عزت پر سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا ‘تو ڈیڑھ ارب انسانوں کے مقتدا‘ ان کے دلوں کے دھڑکن ‘ ان کے نبی اور رسولﷺ کی عزت اور عظمت پر کیونکر سمجھوتا کیا جا سکتا ہے۔ نبی مہرباںﷺکی ناموس اور حرمت کے تحفظ کے لیے دنیا کے کئی مسلمان ممالک میں مؤثر قوانین موجود ہیں۔ پاکستان بھی اس حوالے سے ایک مثالی ملک ہے‘ جہاں پر حرمت ِرسول اللہ ﷺ کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے 295-C کا قانون موجود ہے‘ جس کے مطابق اگر کسی شخص پر نبی کریمﷺ کی حرمت اور ناموس پر حملہ کرنے کی ناپاک جسارت کا الزام ہو تو عدالتی ٹرائل کے بعد اگر وہ مجرم ثابت ہو جائے‘ تو اس کو سزائے موت دی جائے گی۔
بعض سیکولر اور لبر ل عناصر اس قسم کی لغو گفتگو کرتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ مغربی ممالک میں شریعت نافذ نہیں‘ چنانچہ وہاں پر حرمت رسول ﷺ کے حوالے سے کیونکر قانون سازی کی جائے۔ ایسے لوگوں کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں اور اس بات پر ٹھنڈے دل سے سوچ وبچار کرنی چاہیے کہ اگر مغربی ممالک میں ہتک عزت اور توہین عدالت کے قوانین موجود ہیں‘ تو کیا ڈیڑھ ارب مسلمانوںکے دلوں کی دھڑکن حضرت محمد ﷺ کی ناموس کے لیے وہاں پر قانون سازی کیونکر نہیں ہو سکتی ہے؟
اور اگر ایک انسان اور ادارے کے تحفظ کے لیے قانون جمہوری آزادیوں کے رستے میں حائل نہیں‘ تو یقینا کتاب وسنت کی روشنی میں نبی کریم ﷺ کی عزت اور ناموس کے لیے بنائے جانے والے قوانین بھی کسی بھی طور پر جمہوریت اور حریت کے راستے میں رکاوٹ نہیں۔ بعض بدتہذیب اور آوارہ ذہن کے لوگ اس قسم کی حرکات میں مدت مدید سے ملوث رہے ہیں اور بدقسمتی سے مسلمان حکمرانوں کی سیاسی ترجیحات میں حرمت رسول اللہ ﷺ جیسا اہم ترین نکتہ موجود نہیں ہے‘ جس کی وجہ سے مغربی ممالک میں پائے جانے والے منفی عناصر کی بیخ کنی کی کوئی صورت نظر نہیں آ رہی۔ مسلمان ممالک بشمول پاکستان کے حکمرانوں کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ جن ممالک میں ایسے عناصر کی سر پرستی یا حوصلہ افزائی کی جاتی ہے ان سے سفارتی اور تجارتی تعلقات کو منقطع کر دیا جائے۔ اس طریقے سے ایسے ملکوں پر سیاسی اور معاشی دباؤ ڈالا جا سکتا ہے۔ نبی کریم ﷺکی حرمت اور عزت کے تحفظ کے لیے اس قسم کے اقدامات انسانی اور اخلاقی اقدار سے سو فیصد مطابقت رکھتے ہیں اور ان اقدامات پر تنقید کرنے والے عناصر درحقیقت انسانی اور اخلاقی اقدار سے عاری ہیں۔
ہمارے ملک کے سیاسی رہنما ؤں اور بالخصوص نو منتخب وزیر اعظم عمران خان صاحب کو فی الفور ہالینڈ کے سفیر کو دفتر خارجہ طلب کرکے اس سے اس مسئلے پرشدید احتجاج کرنا چاہیے اور اس حرکت پر ان کو تنبیہہ کرنی چاہیے اور اگر وہ اپنے عزائم کو تبدیل نہیں کرتے تو ان سے فی الفورسفارتی تعلقات کو منقطع کرکے ان کے سفیر کو ملک بدر کرکے اپنے سفیر کو ہالینڈ سے واپس بلا لینا چاہیے۔ گو ان تمام اقدامات کے باوجود بھی ہم حرمت رسول ﷺ کا صحیح طور پر حق ادا نہیں کر سکتے‘ لیکن کم ازکم اللہ تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ میں اس حوالے سے جواب دہی سے محفوظ ہو سکتے ہیںاور اس کی ناراضی سے بچ سکتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو نبی کریمﷺ کی حرمت کا صحیح معنوں میں ادراک اور احساس کرتے ہوئے‘ آپ کی عزت اور ناموس کا دفاع کرنے والے لوگوں میں شامل فرمائے ۔(آمین)