ناپید بجلی کے جھٹکے….ایم ابراہیم خان
سندھ اور وفاق کے درمیان ٹھنی ہوئی تھی، اب مزید ٹھن گئی ہے۔ اِیشو ہے بجلی کا۔ یعنی بجلی کے نہ آنے کا۔ ایک بجلی کے نہ آنے سے خدا جانے کیا کیا رُک گیا ہے اور دوسرا بہت کچھ چل گیا ہے۔ پہلے زبانیں چل رہی تھیں، اب قلم بھی چل پڑا ہے۔ سندھ کے وزیر اعلٰی سید مراد علی شاہ نے ثابت کردیا ہے کہ وہ محض انجینئر نہیں بلکہ اچھے مکتوب نگار بھی ہیں۔ بجلی کے بحران کو ختم کرنے کے لیے انہوں نے وزیر اعظم کو تین خط لکھے ہیں۔ ان خطوط میں اُنہوں نے سبھی کچھ بیان کردیا ہے۔ یوں کہیے کہ تین کوزوں میں پورا دریا سمودیا ہے۔ مگر خیر، وفاق بھی کم نہیں۔ اُس نے اویس لغاری کو آگے کردیا ہے۔ کے الیکٹرک کا قبلہ درست کرنے کے حوالے سے سندھ اور وفاق کے درمیان جو بیان بازی چل رہی ہے اُس کی شان بڑھانے کے لیے اویس لغاری نے سندھ حکومت کو آئینہ دکھانے کی اپنی سی کوشش کی ہے۔ اویس لغاری کہتے ہیں کہ سوئی سدرن گیس کمپنی (ایس ایس جی سی) کی طرف سے کے الیکٹرک کو مطلوب مقدار میں گیس اُسی وقت فراہم کی جائے گی جب واجبات ادا کیے جائیں گے۔ کے الیکٹرک کا کہنا ہے کہ ایس ایس جی سی پر 80 ارب اور کراچی واٹر بورڈ پر 32 ارب روپے کے واجبات ہیں۔ کے الیکٹرک پر استعداد سے کہیں کم بجلی پیدا کرنے کا الزام ہے۔ کئی یونٹ بند پڑے ہیں۔ اِنہیں فرنس آئل یا ڈیزل کے ذریعے چلایا جاسکتا ہے مگر نہیں چلایا جارہا۔ اِس کے نتیجے میں شارٹ فال پیدا ہو رہا ہے۔ یہ شارٹ فال بجلی بن کر کس کے سَر پر گر سکتا ہے؟ ظاہر ہے، صارفین کے سَروں پر! اور گر رہا ہے۔
اویس لغاری کو میدان میں لاکر وفاق نے سندھ کے وزیر اعلٰی کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی ہے۔ مراد علی شاہ نے پانچ دن قبل تمام سیاسی جماعتوں پر زور دیا تھا کہ کراچی سمیت سندھ بھر میں بجلی کے بحران پر اسلام آباد میں دھرنا دیں۔ اویس لغاری کہتے ہیں کہ کے الیکٹرک بجلی کا شارٹ فال خود پید کر رہی ہے اور دوسری طرف چوری روکنے پر متوجہ بھی نہیں۔ کراچی کے بہت سے علاقوں میں بجلی دھڑلّے سے چرائی جارہی ہے۔ کارروائی پر مکین سڑکوں پر نکل آتے ہیں اور ہنگامہ آرائی شروع کردیتے ہیں۔ حکومت امن و امان کا مسئلہ ٹالنا چاہتی ہے اس لیے بجلی کی چوری روکنے کے اقدامات میں زیادہ دلچسپی نہیں لیتی۔ پولیس کی نفری بھی شہر کی مجموعی ضرورت کے اعتبار سے خاصی کم ہے۔ ایسے میں پولیس کا محکمہ بھی چاہے گا کہ اُس پر اضافی بوجھ نہ ڈالا جائے۔
اہلِ کراچی ”ٹک ٹک دیدم، دم نہ کشیدم‘‘ کی تصویر بنے یہ تماشا دیکھ رہے ہیں۔ شہر بھر میں بجلی چرائی جارہی ہے اور اِس کا بُھگتان بھی وہ لوگ کر رہے ہیں جو بجلی کے بل باقاعدگی سے ادا کرتے ہیں۔ لوڈ شیڈنگ بھی اُن علاقوں میں زیادہ ہو رہی ہے جہاں کے مکین بل ادا کرنے کے معاملے میں ذرا پیچھے نہیں ہٹتے۔ سُنا ہے گرمی سے چیزیں پھیلتی ہیں۔ شاید یہی سبب ہے کہ گرمی بڑھتے ہی بجلی کی بندش کا دورانیہ بھی پھیل گیا ہے۔ اہلِ کراچی یہ تماشا دیکھ کر یوں پریشان ہوئے جاتے ہیں کہ ابھی تو موسم گرما پوری طرح شروع بھی نہیں ہوا۔ ع
جب رات ایسی متوالی پھر صبح کا عالم کیا ہوگا!
بجلی کے نام پر بیانات کی گرم بازاری ہے کہ بڑھتی جارہی ہے۔ بجلی کی پیداوار کا حجم بڑھے نہ بڑھے، بجلی کے نام پر کی جانے والی سیاست کا حجم تو بڑھتا ہی جارہا ہے۔ کئی جماعتیں کمر کس کر میدان میں آگئی ہیں۔ کے الیکٹرک کے خلاف آواز اٹھانے کی ابتداء جماعتِ اسلامی کراچی نے کی۔ اُس کا معاملہ کامیاب رہا تو دیگر جماعتوں کا حوصلہ بھی بڑھا اور وہ میدان میں نکلیں۔ پاک سرزمین پارٹی نے کے الیکٹرک کے خلاف میدان سجایا تو کراچی کے میئر وسیم اختر کو بھی خیال آیا کہ کچھ تو کہنا ہی چاہیے۔ انہوں نے بظاہر نیم دِلانہ انداز سے کے الیکٹرک کو لتاڑا تو ایم کیو ایم پاکستان (پی آئی بی کالونی) نے بھی اب کے الیکٹرک کے خلاف لنگوٹ کسنے کا اعلان کیا ہے۔ بہت سوں کے خیال میں ڈاکٹر فاروق ستار بجلی بحران کے حوالے سے دیر سے جاگے ہیں۔ مگر صاحب، ع
ہوئی تاخیر تو کچھ باعثِ تاخیر بھی تھا
پرویز مشرف کے پورے دور میں کے ای ایس سی کو اور اُس کے بعد کے زمانے میں کے الیکٹرک کو ایم کیو ایم کی بھرپور سرپرستی حاصل رہی ہے۔ کراچی میں ایک دور ایسا بھی گزرا کہ کے الیکٹرک کی اوور بلنگ اور غیر ضروری لوڈ شیڈنگ کے خلاف لوگ سڑکوں پر آتے تھے تو ایم کیو ایم کے متعلقہ یونٹ کے ارکان اُنہیں روک کر گھر واپس جانے پر مجبور کرتے تھے۔ کے الیکٹرک کو مکمل فری ہینڈ دیا گیا تھا کہ جس طرح چاہیں شہریوں کو لُوٹیں۔ اور یہ گارنٹی بھی دی گئی تھی کہ کسی کو احتجاج تک کرنے نہیں دیا جائے گا۔ ایسی کوئی بھی ڈیل یونہی نہیں ہو جایا کرتی۔ کے الیکٹرک نے اپنے ہر سرپرست کو جی بھر کے نوازا اور فائدے میں رہی کہ سارا کا سارا بُھگتان تو عوام کی جیب ہی سے کیا گیا!
وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے کراچی میں بجلی کا بحران ختم کرنے کے حوالے سے اجلاس بھی طلب کیا ہے۔ اس اجلاس میں کیا ہوگا، کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ ہاں، اتنا ضرور کہنا پڑے گا کہ کراچی میں بجلی کا بحران ختم ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ اِس کا ایک سبب تو یہ ہے کہ کے الیکٹرک اپنا قبلہ درست کرنے پر آسانی سے آمادہ نہ ہوگی۔ کراچی میں بجلی کے بحران کا بنیادی سبب بجلی کی چوری ہے۔ یہ ایک مسئلہ حل ہو تو بحران کی جڑ کٹ جائے گی۔ مگر یہ مسئلہ کیسے حل ہو؟ کے الیکٹرک کے اپنے لوگ اس کام سے جُڑے ہوئے ہیں اور اپنی جیبیں بھر رہے ہیں۔ ادارے کو جس قدر بھی خسارہ ہوتا ہے وہ صارفین سے وصول کیا جاتا ہے۔ ادارے کے اربابِ بست و کشاد بھی بے فکر ہیں کہ ہر طرح کا نقصان چُکتا کرنے والے صارفین ہیں تو سہی!
انتخابی مہم کا باضابطہ آغاز ہوا چاہتا ہے۔ کراچی میں اِشوز کی کمی نہیں۔ اور سب سے بڑا اِشو بجلی کا ہے۔ اور اِسی سے جڑا ہوا مسئلہ پانی کی قلت کا ہے۔ بجلی کی بندش پانی کے بحران کو دو آتشہ کردیتی ہے۔ کراچی میں صفائی ستھرائی کا معاملہ اب تک حل طلب ہے۔ ترقیاتی منصوبوں کے ممکنہ فوائد بھی اِس شہر کو مل نہیں سکے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ اب سے دو تین ماہ تک اِشوز پر سیاست کی جاتی رہے گی اور اہلِ کراچی اپنے بنیادی مسائل کے حل کی راہ تکتے تکتے بیزار ہوجائیں گے۔ ایک کے الیکٹرک کا قبلہ درست ہونے پر بہت سے معاملات کی درستی کا مدار ہے۔ کراچی کے بجلی بحران پر وزیر اعظم کے طلب کردہ اجلاس کے بطن سے کیا برآمد ہوگا کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ بس یہ ہے کہ گمان اچھا رکھنا چاہیے۔