نا اہلی کے غم…بابر اعوان
تیسری بار نا اہلی نے تا حیات نا اہل کا غم ہلکا کرنے کی بجائے صد فی صد بڑھا دیا ۔ اسی لیے نا اہلی کے غم کا ایک ہی فارمولا ہر روز دہرایا جا رہا ہے۔
خر چ سرکاری، بجلی کا بل پنجاب کے عوام کے نام ۔ شاہراہِ دستور کی مارگلہ والی چوٹی پر پنجاب ہائوس کا ایئر کنڈیشنڈ ہال اور روزگارِ سیاست کا مارا ہوا بے حال قیل و قال کی مجلس میں سر کھپا رہا تھا ۔ وہی چاروں پرانے ٹارگٹ ۔ سیاسی طور پر عمران خان اور یہ بے نوا، اور عدالتی طور پر آزاد عدلیہ۔ ساتھ مودی سنگت، اوپر والے یار کے افسانے کا خفیہ ہاتھ ۔ اگلا موضوع مگر سب سے دلچسپ تھا ”ووٹ کو عزت دو‘‘ ۔ مصنوعی غم میں ڈوبی انجانے خوف سے لرزیدہ‘ اُکھڑی آواز میں ملک کا سب سے امیر بزنس مین تین دُور کی کوڑیاں کھینچ لایا۔ اول‘ سینیٹ کے الیکشن میں بلوچستان کا امیدوار کیوں جیتا۔ دوئم‘15 سے 20 دن بعد پتہ نہیں تا حیات نا اہل بقلم خود کہاں ہو گا…؟؟ لیکن ساتھ ہی ووٹ کی عزت پر قربان ہو جانے کا اعلان بھی ۔ سوئم، ووٹ کو عزت نہ ملی تو سب کچھ فنا ہو جائے گا ‘ دنیا اُجڑ جائے گی‘ ہو سکتا ہے قیامت بھی آ جائے۔ ایک شوہرِ نامراد نے اس پر ہزارے وال داماد کی تصویر لگا کر سوشل میڈیا پر یہ جملہ دے مارا ” پہلے شوہر کو عزت دو ‘‘۔
دوسری طرف ووٹ کو عزت دینے کا تازہ ثبوت قومی اسمبلی میں شاہکار پرفارمنس تھا‘ جون کے مہینے والا بجٹ ماہِ اپریل میں پیش کرتے ہوئے ۔ پہلا سوال تو ہے ہی یہی کہ وہ حکومت مئی میں پانچ سال پورے کر کے چلی جائے گی ۔ پھر جون کے مہینے میں کیئر ٹیکر حکومت برسرِ اقتدار ہو گی ۔ قوم جاننا چاہتی ہے وہ کون سی قیامت تھی جس نے چہلم سے بھی کم عمر حکومت کو خلافِ روایت قبل از وقت سالانہ قومی میزانیے کا اعلان کرنے پر مجبور کیا…؟؟
اس بارے میں شہرِ اقتدار کی خبر اس کا سبب کِک بیک اور کمیشن بتا رہی ہے ۔ وفاقی حکومت کے رولز آف بزنس اور پریکٹس کے مطابق ہر سال مئی کے پہلے عشرے میں جاری بجٹ کلوز ہو جاتا ہے ۔ پھر 11-12 مئی تک بجٹ کا وہ حصہ جو وفاقی یونٹس اور ادارے خرچ نہ کر سکیں خزانے کو واپس کیا جاتا ہے ۔ پھر پری بجٹ سیمینار منعقد ہوتے ہیں ۔ وفاقی سرکار اپنے ماہرین کے خیالات، تجاویز ، پلاننگ کو تبصرے کے لیے میڈیا کے ذریعے قوم کے سامنے پیش کرتی ہے ۔ چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری سے پری بجٹ تجاویز مانگی جاتی ہیں ۔ ایف پی سی سی آئی ، سٹاک مارکیٹ چلانے والے۔ اپٹما جیسے معیشت کے سب سے بڑے سٹیک ہولڈر‘ مزدور، کسان نمائندوں اور ہماری ڈالروں کی کمائی کا واحد بیرونی ذریعہ… سمندر پار پاکستانیوں کو مشاورت کے عمل میں شریک کیا جاتا ہے ۔ سینیٹ‘ قومی اسمبلی میں اپوزیشن کو آن بورڈ لیا جاتا ہے ۔ کراچی کی تاجر برادری اس عجیب و غریب بجٹ کو ”کینڈی کوٹڈ بجٹ ‘‘ کہہ رہی ہے ۔ جی ہاں بِلّی چوہے والی کینڈی ۔ لیکن تا حیات نا اہل پی ایم کے وژن پر مبنی بجٹ میں ووٹ کی عزت کا مسئلہ فوراً حل ہو گیا۔ ثبوت یہ ہیں ۔
ثبوتِ اول دیوار پر لکھا ہے ۔ باعزت ووٹ کے ذریعے قومی اسمبلی میں پہنچنے والے 342 ایم این ایز میں کوئی ایک بھی اتنا با عزت نہ تھا جسے وزارتِ خزانہ کا قلم دان دیا جاتا ۔ نہ ہی تا حیات نا اہل شریف کو قومی اسمبلی میں کوئی بھی قابلِ اعتبار ساتھی نظر آیا جو آئی ایم ایف کا لکھا بجٹ پوری تابع داری سے پڑھ پاتا ۔ کم از کم ہر فن مولا سرکاری مولوی ہی وزیرِ خزانہ بن جاتا ۔ وہاں بھی خطرہ موجود تھا کہ چھوٹے دربار کے مولوی کو آئی ایم ایف جیسے بڑے دربار میں رسائی ملتی تو ووٹ کو بے عزت ہونے سے کون بچاتا۔ ثبوتِ ثانی یہ کہ ایوانِ بالا میں چیئرمین سینیٹ کا الیکشن ہارنے کے باوجود نا اہل شریف کے سینئر عہدے دار اسی ایوان میں بیٹھے ہیں ۔ اُن پر اتنی بے اعتباری کی وجہ ؟ تا حیات نا اہل شریف عوام کو خود بتا کر ثوابِ دارین حاصل کریں ۔ ساتھ یہ بھی بتا دیں وہ سینیٹرز جنہیں نون لیگی طرزِ وزارت کا عملی تجربہ ہے اُن کے ووٹ کو عزت کیوں نہ دی گئی ۔ اس سلسلے کا ایک ضمنی سوال بھی جوابِ طلب ہے ۔ ”اِک واری فیر‘‘ والے شیر کے سمدھی وزیرِ خزانہ کو کیو ں بائی پاس کیا گیا۔ جے ایف کینیڈی ایئر پورٹ امریکہ میں خطۂ کوہسار کے ووٹروں کو عزت دلانے والے پی ایم کا وزیرِ خزانہ سرٹیفائیڈ عدالتی مفرور ہی تو ہے ۔ کیا ہوا اس مفرور کے خلاف کورٹ آف لاء نے ( PROCLAMATION OF PROCLAIMED OFFENDER) کا ڈیکلیریشن جاری کر رکھا ہے ۔ وہی ڈیکلریشن جسے بیک برنر پر رکھ کر ڈکلیئرڈ عدالتی مفرور کی غیر حاضری میں اس کے کاغذاتِ نامزدگی منظور ہو گئے ۔ اور آئین کا اسلامی آرٹیکل 62(1)(F) خون کے آنسو روتا رہ گیا ۔
اس وقت سیاسی منظر نامہ نئے انتخابات کا استقبالیہ بن چکا ہے ۔ اس لیے مسلم لیگ شین کا صدر تا حیات نا اہل نون لیگی صدر کی تاریخ پیشی پر نہیں جا رہا۔ حق تو یہ ہے کہ بھائی بھائی سے شانہ ملائے، قدم سے قدم جوڑے، کاندھے کے ساتھ کاندھا رکھے ۔ برادرِ خورد کے زبان ، بیان اور دھیان کا مرکز بڑا بھائی ہو۔ لیکن سچ کہتے ہیں ، سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا ۔ کرسی کی طاقت میں وفا کہاں سے آئے ۔ 60 عدد وفاقی وزیروں کی بارات ، ایڈوانس بکنگ اور ”بیعانہ کیس ‘‘ نمٹانے میں مصروف ہے ۔ صوبائی وزیر 56 کمپنیوں کا ریکارڈ چھپانے ، مٹانے اور جلانے کے طوفان میں گھِرے ہوئے ہیں ۔ وکیل برادری رونے والے کی آواز خوب پہچان رہی ہے ۔ عوام مہنگائی کے زخم بھول جانے پر تیار نہیں ۔ شہباز شریف کا نام ابھی تک شہباز شریف ہی ہے۔ لیکن بد ترین لوڈ شیڈنگ زلزلہ بن کر ہر کھڑکی ہر دروازے تک پہنچ گئی ہے ۔ نا اہلی کے غم میں افاقہ نہیں اضافہ ہو رہا ہے ۔ 29 اپریل کو مینارِِ پاکستان کے جلسے نے جی جی بریگیڈ کے منہ کو نئی گالیاں لگا دی ہیں ۔ مزدور ،کسان ، دیہاڑی دار اور بے روز گار نوجوان زبانِ حال سے کہہ رہے ہیں ۔
ہم کہ ہر دور میں قتل ہوتے رہے
ہم کو ہر دور میں ہی تباہی ملی
ہم نے موسیٰ کی، کی تھی تمنا مگر
ہم کو فرعون کی بادشاہی ملی
گرچہ کانٹے ہیں راہوں میں بکھرے ہوئے
پا برہنہ چلو نوکِ ہر خار پر
اِک نظارۂ زندگی یوں ہی سہی
رقص کرتے چلو تیغ کی دھار پر
اس میں شامل ہے سرخی جواں خون کی
آسمانوں سے رنگِ شفق چھین لو
دیکھتے کیا ہو دستِ ستم کی طرف؟؟
اپنا حق چاہتے ہو تو حق چھین لو…!!
دوسری طرف ووٹ کو عزت دینے کا تازہ ثبوت قومی اسمبلی میں شاہکار پرفارمنس تھا‘ جون کے مہینے والا بجٹ ماہِ اپریل میں پیش کرتے ہوئے ۔ پہلا سوال تو ہے ہی یہی کہ وہ حکومت مئی میں پانچ سال پورے کر کے چلی جائے گی ۔ پھر جون کے مہینے میں کیئر ٹیکر حکومت برسرِ اقتدار ہو گی ۔ قوم جاننا چاہتی ہے وہ کون سی قیامت تھی جس نے چہلم سے بھی کم عمر حکومت کو خلافِ روایت قبل از وقت سالانہ قومی میزانیے کا اعلان کرنے پر مجبور کیا…؟؟