نبی کریمﷺ کی فضیلت…علامہ ابتسام الٰہی ظہیر
اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں چار انعام یافتہ طبقات کا ذکر کیا ۔ صلحائ‘ شہدائ‘ صدیقین اور انبیاء اللہ تبارک وتعالیٰ کے انعام کے مستحق ٹھہرے۔ان تمام طبقات میں سے سب سے بلند مقام اللہ تبارک وتعالیٰ کے انبیاء کا ہے‘ اس لیے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان سے کلام کیا یا ان کے پاس اپنے پیغام کو بھیجا۔ انبیاء علیہم السلام کی جماعت میں سے کئی ہستیاں ایسی ہیں ‘جن کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے شریعت اور کتاب سے نوازا۔ یہ لو گ منصب رسالت پر فائز ہوئے‘ اِن ہستیوں کا مقام دیگر انبیاء علیہم السلام کے مقابلے میں اعلیٰ ہے۔ ان رسل اللہ میں سے پانچ ہستیاں ایسی ہیں‘ جنہوں نے عزیمت اور استقامت کی داستانوں کو رقم فرما دیا۔ سیدنا نوح ؑ‘ سیدنا ابراہیم ؑ‘ سیدنا موسیٰ ؑ‘ سیدنا عیسیٰ ؑاور نبی کریم ﷺنے عزیمت اور استقامت کی ایسی تاریخ کو رقم کیا‘ جس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا؛ چنانچہ ان کا مقام دیگر رسل اللہ کے مقابلے میں اعلیٰ ہے۔کتاب وسنت کے مطالعے سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ نبی کریم ﷺ کا مقام تمام رسل اللہ میں سب سے اعلیٰ ہے اور اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپﷺ کو بہت سے ایسے خصائص سے نوازا ‘جو سابقہ ابنیاء علیہم السلام اور رسل اللہ کو حاصل نہ ہوئے‘ جن میں سے چند ایک درج ذیل ہیں:
1۔ عالمگیریت: نبی کریمﷺ سے پہلے آنے والے جتنے بھی انبیاء تھے‘ ان کی رسالت کا دائرہ کار اپنے اپنے علاقے تک محدود تھا؛ چنانچہ کلام حمید کے مطالعے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ سیدنا نوح ؑ اپنی قوم کی طرف مبعوث کیے گئے‘ حضرت ہودعلیہ السلام قوم عاد‘ حضرت صالح علیہ السلام قوم ثمود‘ حضرت شعیب علیہ السلام‘ قوم مدین اور حضرت لوط علیہ السلام قوم صدوم کی طرف بھیجے گئے‘ اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ کے بہت سے جلیل القدر انبیاء بنی اسرائیل کی ہدایت اور رہنمائی کے لیے مبعوث کیے گئے‘ جن میں حضرت موسیٰ‘ حضرت ہارون‘ حضرت داؤد‘ حضرت سلیمان‘ حضرت زکریا‘ حضرت یحییٰ اور حضرت عیسیٰ علیہم السلام جیسے بلند قامت رسل اللہ بھی شامل ہیں‘ لیکن اللہ تبارک وتعالیٰ نے نبی کریمﷺ کی بعثت کے بعد سورہ اعراف کی آیت نمبر 158 اس بات کا اعلان فرما دیا کہ ”آپ کہہ دیجئے :اے لوگو !بے شک میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں۔ ‘‘
2۔ دوام: نبی کریمﷺ سے پہلے ایک رسول کی شریعت اور تعلیمات دوسرے رسول کے آ جانے کے بعد منسوخ ہو جاتی تھی اور دوسرے رسول کی شریعت اور تعلیمات سامنے آجاتی تھی‘ لیکن یہ مقام اور اعزاز نبی کریم ﷺ کو حاصل ہوا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قیامت کی دیواروں تک کے لیے آپ ﷺ کی رسالت اور نبوت کو باقی رکھا اور آپﷺ کی تعلیمات ہی کو مدارِ نجات قرار دے دیا۔
3۔ نبی قبلتین: نبی کریمﷺ سے قبل آنے والے کئی بڑے رسل اللہ بیت المقدس یا بیت اللہ الحرام کے علاقے میں ہدایت کا فریضہ انجام دیتے رہے؛ چنانچہ حضرت یعقوب علیہ السلام کی اولاد بیت المقدس کے علاقے میں جب حضرت اسماعیل علیہ السلام اور ان کی اولاد بیت اللہ الحرام کے علاقے میں تبلیغ دین کا فریضہ انجام دیتی رہی‘ لیکن معراج کی رات اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت رسول اللہ ﷺ کو بیت اللہ سے بیت المقدس میں پہنچا کر اور وہاں پر انبیاء علیہم السلام کو آپﷺ کی امامت میں جمع فرما کر اس بات کو ثابت کیا کہ آپﷺ ایک قبلے کے امام بن کر نہیں‘ بلکہ نبی قبلتین بن کرتشریف لائے ہیں۔
4۔ ختم نبوت: نبی کریمﷺ سے قبل آنے والے انبیاء علیہم السلام کے بعد دوسرے انبیاء کے آنے کا امکان رہا‘ لیکن نبی کریمﷺ کی بعثت کے بعد اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ احزاب کی آیت نمبر 40 میں اس بات کا اعلان فرما دیا ”اور نہیں ہیں محمدﷺ تمہارے مردوں میں سے کسی ایک کے باپ اور‘ لیکن اللہ کے رسول اور آخری نبی ہیں۔ ‘‘ نبی کریمﷺ پر اللہ تبارک وتعالیٰ نے نبوت اور رسالت کو تمام فرما دیا اور آپﷺ کے بعد کسی بھی شخص کو نبوت ملنے کے امکان باقی نہیں رہے۔ بعض لوگ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کی بنیاد پر نئی نبوت کا جواز پیش کرتے ہیں‘ لیکن حقیقت بات یہ ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کو نبوت نبی کریمﷺ کی ولادت باسعادت اور بعثت سے قبل ملی تھی۔
نبی کریمﷺ کے ان خصائص کے ساتھ ساتھ جب ان انفرادی طور آپﷺ کا موازنہ دوسرے انبیاء علیہم السلام کی سیرت سے کیا جاتا ہے‘ تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپﷺ کو کئی اعتبار سے سابقہ ابنیاء علیہم السلام پر فضیلت عطا فرمائی۔ انفرادی طور پر جب موازنہ کیا جائے‘ تو مختلف انبیاء علیہم السلام کی سیرت سے موازنے کے بعد کئی اہم نکات سامنے آتی ہیں۔جن میں چند ایک درج ذیل ہیں:
1 ۔ استقامت: حضرت نوح علیہ السلام استقامت‘ عزم اور حوصلے کی بہت بڑی علامت تھے اور آپ نے اپنی قوم کے لوگوں کو صبح وشام اللہ تبارک وتعالیٰ کی توحید کی دعوت دی ۔ قوم کے لوگوں نے ہر طرح کی ایذاء دیں‘ لیکن آپ ان تکلیف کو عزم اور حوصلے سے برداشت کرتے رہے۔ یہاں تک کہ جب آپ پر اللہ تبارک وتعالیٰ کی وحی نازل ہوئی کہ آپ کی قوم کے مزید لوگ آپ پر ایمان نہیں لائیں گے‘ تو آپ نے ان کے لیے بدعا کی کہ ” اے میرے رب! زمین پر کافروں میں سے کوئی بسنے والا نہ چھوڑ۔ ‘‘ اس کے مدمقابل نبی کریمﷺ نے اللہ کے دین کے راستے میں بہت سی تکالیف ‘ مشکلات اور اذیتوںکو برداشت کیا۔آپﷺ کے گلو اطہر میں چادر کو ڈال کر کھینچا گیا‘ آپﷺ کے راستے میں کانٹوں کو بچھایا گیا‘ آپﷺ کی بے ادبی کی گئی اور طائف کی وادی میں آپﷺ کو لہو رنگ بنا دیا گیا۔ ایسے عالم میں جبرائیل امین پہاڑوں کے فرشتے کے ساتھ آئے اور عرض کی کہ اگر آپ حکم کریں تو طائف کی وادی کو دو پہاڑوں میں پیس کر رکھ دیا جائے۔ تو نبی کریمﷺ نے فرمایا: ”اے اللہ ان کو ہدایت دے دے یہ مجھ کو پہچانتے ہی نہیں ۔‘‘
2۔ اعجاز: اللہ تبارک وتعالیٰ نے سابقہ انبیاء علیہم السلام کواعجازات کے ساتھ نوازا تھا لیکن یہ حقیقت بات ہے کہ نبی کریمﷺ کے اعجازات سابقہ انبیاء علیہم السلام سے بھی کہیں بڑھ کر تھے۔ موسیٰ علیہ السلام کی قوم کے لوگوں کو جب پانی کی ضرورت پڑی تو آپؑ نے اللہ کے حکم سے پتھر پر اعصاء مارا تو اللہ نے بارہ قبیلوں کے لیے بارہ چشموں کو رواں فرما دیا‘ لیکن حدیبیہ کے مقام پر 1400 صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پیاسے تھے اس موقع پر نبی کریمﷺ نے اپنے اعصاء یا دست اقدس کو کسی پتھر پر نہیں مارا ‘بلکہ اپنے ہاتھ کی پانچ انگلیوں کو کھولا تو مالک کائنات نے پانچ انگلیوں سے پانچ نہروں کو رواں فرما دیا۔ حضرت عیسیٰ السلام کو اللہ نے ایسا دم عطا کیا کہ آپ مردوں پر ہاتھ پھیرتے تو مردے کلام کرنا شروع کر دیتے۔ اس کے مدمقابل بخاری شریف کی حدیث سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ آپﷺ پختہ منبرکی تعمیر سے قبل کھجور کے تنے کے ساتھ ٹیک لگا کر خطبہ ارشاد فرما یا کرتے تھے۔ جب آپﷺ نے اس سے ٹیک کو ہٹایا تو اس تنے نے آپﷺ کی جدائی میں رونا شروع کر دیا۔ آپﷺ اس کے قریب جاتے ہیں ‘اس کوتھپتھپاتے ہیں ‘تو اس نے رونا بند کر دیا۔ گویا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے لیے مردوں کو زندہ فرمایا اور نبی کریم ﷺ کو یہ اعجاز عطا فرمایا کہ آپﷺ کے لیے کھجور کے تنے میں حس پیدا فرما دی۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے سابقہ رسل اللہ کو جو کتابیں عطا فرمائیں ‘ان میں ہدایت اور نور تھا‘ لیکن ان کی حفاظت علماء کے ذمے تھی‘ جبکہ قرآن مجید کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے قیامت کی دیواروں تک کے لیے خود محفوظ ومامون فرما دیا اور سورہ حجر میں اس امر کا اعلان فرما دیا ”کہ بے شک ہم نے ذکر کو نازل کیا اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔ قرآن مجید قیامت کی دیواروں تک کے لیے محفوظ ومامون اور اپنے پڑھنے والوں کے لیے ہدایت اور شفاء کی کتاب ہے‘‘۔
نبی کریمﷺ کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے ایسی شخصیت اور خصائص عطا فرمائے کہ نا صرف یہ کہ آپﷺ کے اُمتی ‘بلکہ غیر مذاہب کے لوگ بھی آپﷺ کی عظمت کو تسلیم کرنے پر مجبور رہے؛ چنانچہ مائیکل ہارٹ نے اپنی کتاب “The Hundred” میں نبی کریمﷺ کو دنیا کا سب سے عظیم انسان قرار دیا۔ نبی کریمﷺ کی اس عظمت اور فضیلت کے مسلّم ہونے کے بعد مسلمانوں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ آپﷺ کی عظمت کو پہچانیں ‘ آپ ﷺ سے والہانہ محبت کریں‘ آپﷺ کی بھرپور طریقے سے اطاعت کریں‘ آپﷺ کی ذات اقدس پر درود بھیجیںاور اگر کوئی آپﷺ کی ذات پربلاجواز تنقید کرے‘ تو آپﷺ کی ذات کا بھرپور انداز میں دفاع کیا جائے اور آپ ﷺ کی بے ادبی اور گستاخی کاارتکاب کرنے والے کو کیفرکردار تک پہنچانے کے لیے اپنے کردار کو ادا کیا جائے اور اس کے ساتھ ساتھ آپﷺ کے عطا کردہ نظام کو نافذ کرنے کی کوشش کی جائے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیں مقام مصطفی ﷺ او ر اس کے تقاضوں کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔( آمین)