نحیف اقتدار…ڈاکٹر لال خان
پچھلے کچھ عرصے میں پاکستان کی معیشت کا بحران بہت کھل کر واضح ہونا شروع ہو گیا ہے۔ مہنگائی بڑھ گئی ہے۔ لوڈ شیڈنگ کے سائے پھر سے منڈلانے لگے ہیں اور معاشرے میں پریشانی، اکتاہٹ اور عدم استحکام شدت اختیار کر گیا ہے۔ اگر اس وقت یعنی اپنے پانچ سالہ اقتدار کے آخری مہینوں میں میاں صاحب برسرِ اقتدار ہوتے تو ان کے خلاف عوام میں غیظ و غضب انتہائوں پر ہونا تھا۔ نواز لیگ میں ٹوٹ پھوٹ کہیں زیادہ ہونی تھی اور یہ بات خاصے یقین کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ عوام میں ان کی مقبولیت تیزی سے گر چکی ہوتی۔ ان کے اقتدار کے چار سالوں میں معیشت کی شرح نمو چار یا پانچ فیصد تک بڑھ جانے سے سماجی اور معاشی تضادات ختم ہونے کی بجائے زیادہ اجاگر ہی ہوئے ہیں۔ نواز شریف آج اپنے آپ کو اس تنزلی اور بحران سے بری الذمہ بنا کر پیش کرتے ہیں‘ لیکن اگر ان کا اقتدار قائم رہتا تو بھی یہ بحران آنا ہی تھا۔ تاہم انہیں موقع مل گیا کہ ان سارے حالات کا سارا قصوروار اپنی معزولی کو قرار دے سکیں۔ تاہم نواز شریف صاحب کا اگر یہ خیال ہے کہ محض ریاستی اداروں کے خلاف تقاریر کر کے وہ کوئی بڑی تحریک ابھارنے اور دوبارہ اقتدار میں آنے میں کامیاب ہو جائیں گے تو یہ ان کی بہت بڑی غلطی فہمی ہو گی۔ اول تو مسلم لیگ کا جنم ہی امرا، سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کے ہاتھوں ہوا تھا۔ آج بھی ‘مسلم لیگ‘ انہی بالا دست طبقات کی پارٹی ہے۔ یہ طبقہ اور اس کی یہ پارٹی‘ دونوں تاریخی طور پر کسی کے سہارے ہی ابھرے ہیں اور اقتدار حاصل کرتے رہے ہیں۔ آج بھی نواز لیگ کا حاوی دھڑا ”سٹیس کو‘‘ کو قائم و دائم رکھنے کی خواہش کرنے والوں پر مشتمل ہے۔ شہباز شریف اپنے بھائی کی عظمت کے جتنے بھی گیت گاتے رہیں‘ اپنی روایتی حلیف سیاسی قوتوں سے ٹکر لینے کی سوچ اور ارادہ نہیں رکھتے۔ نہ ہی ایسا کر سکتے ہیں۔ اچھے بھلے اقتدار کے مزے لوٹ رہے ہیں، وہ بھلا کیونکر ایسی مہم جوئی کریں گے؟ ایسا خمیر رکھنے والی پارٹی سے نواز شریف کوئی ”انقلاب‘‘ تو برپا کرنے سے رہے۔
یہ بات بھی پورے وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ میاں صاحب قطعاً انقلابی نہیں ہوئے ہیں۔ ان کی معزولی بنیادی طور پر اس نظام کے بحران کی شدت سے اور حکمران طبقات کے تضادات کے ابھر کر سامنے آنے کی وجہ سے ہوئی ہے‘ کیونکہ بحرانی حالات میں حصہ داری کی لڑائی شدت اختیار کر جاتی ہے اور یہ تضادات مختلف خارجی و داخلی پالیسیوں میں مفادات کے ٹکرائو کی شکل اختیار کر جاتے ہیں۔ لیکن یہ بھی واضح رہنا چاہئے کہ نواز شریف کی حالیہ ‘مقبولیت‘ دراصل ان کی حمایت میں اضافہ نہیں ہے۔ ان کے جلسوں میں لوگوں کی شرکت اور حمایت درحقیقت دوسری سیاسی پارٹیوں کی بڑھتی ہوئی عدم مقبولیت کی غمازی کرتی ہے۔ اس غیر مقبولیت کی اہم وجہ ان پارٹیوں کی جانب سے نواز لیگ مخالف بیان بازی کے باوجود اسی کی پالیسیوں کی پیروی ہے۔ مثلاً میٹرو بس کو کئی سالوں سے گالیاں بھی دی جا رہی ہیں‘ اور پھر اپنے صوبوں میں‘ اپنی حکومت کے دور میں میٹرو بس بنائی بھی جا رہی ہے۔ لیکن ایسا کرنے والوں کو یہ حقیقت ہمیشہ یاد رکھنی چاہئے کہ عوام اتنے بھی سادہ لوح نہیں ہوتے ‘ جتنے وہ انہیں سمجھتے ہیں۔ وہ اب ان کی سب چالوں کو سمجھنے لگے ہیں۔ تعلیم اور میڈیا نے اس حوالے سے ان کا شعور خاصا اجاگر کر دیا ہے۔ تازہ رپورٹوں کے مطابق تحریک انصاف کی صوبائی حکومت نے خیبر پختونخوا میں قرضوں کے نئے ریکارڈ قائم کئے ہیں۔ ایسے میں پھر شہباز شریف اور بالعموم نواز لیگ کے بھاری قرضوں والے منصوبوں کو مات کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ لیکن ان بھاری منصوبوں سے عوام کی محرومیوں میںکمی نہیں آئی‘ ان میں اضافہ ہی ہوا ہو گا۔ اس نظام کے پاس اتنے وسائل اور اتنی سکت ہی نہیں ہے۔ پھر سونے پر سہاگہ تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی کے لیڈروں کی حرکات و سکنات اور کاسہ لیسی کرنے کا مقابلہ ہے‘ جس کی وجہ سے عوام میں ان کے خلاف ایک نفرت جنم لے رہی ہے۔ لیکن آج سیکولر، لبرل پارٹیاں ہوں یا مذہبی جماعتیں، سبھی اقتدار کی ہولناک ہوس میں مبتلا نظر آتی ہیں۔ عوام کو تو تمام بڑی پارٹیاں کب کی فراموش کر چکی ہیں۔ محنت کش طبقات سے ان کو کوئی سروکار ہی نہیں ہے۔ عرصے سے انہوں نے نہایت نامساعد حالات میں زندگی بسر کرنے والے ان طبقات کی جانب مڑ کے بھی نہ دیکھا ہو گا کہ وہ کن حالات میں زندگی گزار رہے ہیں‘ ان کے بچے سکول جاتے ہیں یا نہیں اور ان کو زندگی کی بنیادی ترین سہولتیں بھی میسر ہیں یا نہیں۔ حکمرانوں کا رویہ ایسے ہے‘ جیسے محنت کش عوام ہمیشہ ہمیشہ کے لئے لاغر اور مفلوج ہو چکے ہیں‘ لیکن اگر کوئی مفلوج ہے تو وہ پیسے کی مروجہ جمہوریت اور اس کا اقتدار ہے۔ اس نحیف اقتدار کے حصول کے لئے سیاسی اشرافیہ کچھ قوتوں کو طاقت کا سرچشمہ سمجھ رہی ہے ان کی کاسہ لیسی کے لئے اس (سیاسی اشرافیہ) کی دوڑیں لگی ہوئی ہیں۔ کارپوریٹ میڈیا سے لے کر سیاست تک ہر کوئی خود کو شاہ سے زیادہ شاہ کا وفادار بنا کر پیش کر رہا ہے۔ آئین، جمہوریت اور قانون کی عظمت کے گیت گائے جاتے ہیں‘ لیکن اقتدار کے لئے اسی آئین کو کبھی بھی پامال کرنے کی واردات میں سب تماشائی بنے رہتے ہیں۔ ویسے اگر آئین کاجائزہ لیا جائے تو عوام کے لئے اس کی اہم ترین شق پر کوئی بھی پارلیمنٹ اور کسی بھی پارٹی کی ‘جمہوری‘ حکومت عمل درآمد سے نہ صرف گریزاں رہی ہے بلکہ اس کو متروک اور ناقابل عمل سمجھتی ہے۔ آئین کے آرٹیکل 3 میں واضح طور پر درج ہے کہ ”ریاست ہر قسم کے استحصال کے خاتمے کو یقینی بنائے گی اور بتدریج اس بنیادی اصول کا اطلاق کرے گی کہ ‘ہرکسی سے اس کی صلاحیت کے مطابق کام لیا جائے اور معاوضہ اس کے کام کے مطابق ادا کیا جائے‘‘ یہ شق بابائے سوشلزم اور پیپلز پارٹی کے سینئر وائس چیئرمین شیخ رشید نے بڑا زور لگا کر آئین میں رکھوائی تھی۔ سوویت یونین کے آئین سے لی گئی یہ شق الفاظ میں بغیر کسی رد و بدل کے آئین میں درج ہے‘ لیکن کون پوچھنے والا ہے کہ اس پر عمل درآمد ہوا یا نہیں۔ یہاں حقدار کے حقوق چند دولت والے لوٹ لیتے ہیں۔ جو محنت کرتے ہیں وہی محرومی کی اذیت کا شکار ہیں۔ جو اس محنت کا استحصال کر کے اپنی تجوریاں بھرتے ہیں وہ یہاں کی سیاست اور سماج پر مسلط ہیں۔ یوں اس سماج پر حاوی سیاست، اقتدار اور کچھ ادارے سبھی اسی سرمائے کے استحصالی نظام کے رکھوالے ہیں۔ لیکن اگر ان کاسہ لیس سیاست دانوں کو اقتدار ملتا بھی ہے تو صرف ٹکڑوں میں ہی ملے گا۔ پہلے ہی ایک پارٹی کے ‘بھاری مینڈیٹ‘ نے اقتدار دینے والوں کے لئے کافی مشکلات کھڑی کر دی ہیں۔ لیکن یہاں حکومت ایک پارٹی کی ہو یا مخلوط، اس نظام اور اس کے اقتدار میں اتنی قوت نہیں ہے کہ یہاں کے عام لوگوں کے مسائل حل کر سکے اور عوام کو بنیادی سہولیات فراہم کر سکے۔ اس متروک اور کمزور نظام میں اگر کسی کو اقتدار مل بھی جائے تو کیا ہے؟ اقتدار میں وہ محض اپنی دولت کو فروغ اور تحفظ دینے کے لئے ہی آتے ہیں۔ اس سے زیادہ کرنا چاہیں تو بھی نہیں کرسکتے۔ محنت کش عوام کو جو جمہوریت اور اقتدار اپنی نجات کے لئے درکار ہے‘ وہ سرمائے کی طاقت اور جبر سے آزادی کے بغیر ممکن نہیں ہے۔
اس متروک اور کمزور نظام میں اگر کسی کو اقتدار مل بھی جائے تو کیا ہے؟ اقتدار میں وہ محض اپنی دولت کو فروغ اور تحفظ دینے کے لئے ہی آتے ہیں۔ اس سے زیادہ کرنا چاہیں تو بھی نہیں کرسکتے۔ محنت کش عوام کو جو جمہوریت اور اقتدار اپنی نجات کے لئے درکار ہے‘ وہ سرمائے کی طاقت اور جبر سے آزادی کے بغیر ممکن نہیں ہے۔