منتخب کردہ کالم

نظام بچانے کی کنجی پیپلز پارٹی کے پاس ہے۔ مزمل سہروردی

نظام بچانے کی کنجی پیپلز پارٹی کے پاس ہے۔ مزمل سہروردی
ملک ایسے نہیں چل سکتا جیسا چل رہا ہے۔ اس طرح کی محاذ آرائی کا یہ ملک متحمل نہیں ہو سکتا۔ لیکن کیا محاذ آرائی ابتدائی سکرپٹ کا حصہ ہے۔یا سکرپٹ لکھنے والوں کو انداذہ ہی نہیں تھا کہ محاذ آرائی اتنی بڑھ جائے گی۔ کیا سارا سکرپٹ یہ سامنے رکھ کر لکھا گیا تھا کہ نواز شریف آسانی سے ملک سے باہر چلے جائیں گے۔ کیا کسی کو انداذہ تھا کہ نواز شریف اس طرح مزاحمت کریں گے اور ان کی جماعت ان کے ساتھ اس طرح کھڑی ہو جائے گی۔
ایک سادہ سوال یہ ہے کہ اگر یہ محاذ آرائی اسی طرح بڑھتی جائے گی تو کیا ہو گا۔ ملک میں ایک قومی حکومت اور ایک ٹیکنوکریٹ حکومت کی گونج بھی سنائی دے رہی ہے۔ ایسا کسی آئین و قانون کے تحت تو ممکن نہیں۔ لیکن مشکل یہ ہے کہ آئین و قانون کے ماہرین بھی یہ کہہ رہے ہیں کہ قومی اور ٹیکنو کریٹ حکومت کی گونج انہیں سنائی دے رہی ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اب تو اس مجوزہ حکومت کے نام بھی آہستہ آہستہ سامنے آرہے ہیں۔ ایسا لگ رہا ہے کہ نام پھیلائے جا رہے ہیں۔
لڑائی عجیب صورتحال اختیار کر رہی ہے۔ لڑائی نظام کے لئے خطرات بھی پیدا کر رہی ہے۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ نظا م کی کنجی ن لیگ کے پاس نہیں ہے۔ اس وقت نظام کی بقا کا معاملہ پیپلزپارٹی کے پاس ہے۔ اب یہ آصف زرداری اور بلاول بھٹو زرداری پر منحصر ہے کہ وہ نظام کو چلتا دیکھنا چاہتے ہیں یا نہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ جان بوجھ کر پیپلزپارٹی کو دیوار سے لگا یا جا رہا ہے کہ تا کہ پیپلزپارٹی ایسی غلطی کرے جس سے نظام کو لپیٹنے کا جواز بن سکے۔
قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف کی تبدیلی کا شو شا بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ اب تک کے واقعات سے ایسا لگتا ہے کہ ابھی قائد حزب اختلاف کی تبدیلی کافیصلہ نہیں ہوا۔ بلکہ صرف پیپلزپارٹی کو یہ احساس دلا یا جا رہا ہے کہ ایسا ممکن ہے۔ اس لئے ذمہ داری کا مظاہرہ کریں۔ سوال یہ ہے کہ کیا پیپلزپارٹی نے یہ پیغام سمجھ لیا ہے۔ کہ نہیں۔ پیپلزپارٹی کو یہ پیغام دینے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی۔ یہ بھی اہم بات ہے۔ آصف زرداری پر اسٹبلشمنٹ کیوں اعتماد نہیں کر رہی ہے۔
ایک آئینی ترمیم کی خبریں بھی قومی حکومت کے ساتھ زیر گردش ہیں۔ یہی خبریں پیپلزپارٹی کے لئے مسائل پیدا کر رہی ہیں۔ یہ درست ہے کہ نواز شریف کی نا اہلی کے بعد سے آصف زرداری اور بلاول نے نواز شریف سے واضح فاصلہ رکھا ہے۔ ان کی مخالفت بھی کی ہے۔ کسی نہ کسی طرح ملاقات سے بھی اجتناب کیا ہے۔ لیکن پھر بھی یہ تاثر قائم ہے کہ کہیں نہ کہیں نواز شریف اور آصف زردادی کے درمیان ایک خاموش انڈر سٹینڈنگ ہے۔ اسی لئے ان خدشات کو محسوس کیا جا رہا ہے کہ اگر پیپلزپارٹی اور ن لیگ نے گٹھ جوڑ کر لیا تو ایسی آئینی ترمیم سامنے آسکتی ہے جو اسٹبلشمنٹ کے لئے مسائل پیدا کر سکتی ہے۔ ایسی ترمیم کے خدو خال سوشل میڈیا میں گردش بھی کر رہے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ پیپلزپارٹی ابھی تک دو کشتیوں کی سوار ہے۔ اور یہی پالیسی اس کے لئے مسائل پیدا کر رہی ہے۔
لیکن یہ بھی سوال ہے کہ پیپلزپارٹی اسٹبلشمنٹ کا اعتماد جیتنے کے لئے کیا کرے۔ کیا بیک چینل پر ہونے والے مذاکرات نا کام ہو گئے ہیں۔ یا پیپلزپارٹی اسٹبلشمنٹ سے ایسی ڈیل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ جو ممکن نہیں ہے۔اگر 2018 میں اقتدار کی گارنٹی مانگی جا رہی ہے تو یہ ممکن نظر نہیں آرہا۔ اسی لئے اسٹبلشمنٹ ساتھ ساتھ پیپلزپارٹی کو دیوار سے لگانے کی حکمت عملی پر بھی گامزن ہے۔
میں یہ ماننے کے لئے تیار نہیں کہ ایم کیو ایم بغیر کسی اشارے کے تحریک انصاف کی حمایت کے لئے تیار ہو گئی ہے۔ اور یہ بھی ماننا مشکل ہے کہ تحریک انصاف بغیر کسی اشارہ کے ایم کیو ایم سے بات کرنے کے لئے تیار ہو گئی ہے۔ لیکن اس سارے کھیل میں دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ ق لیگ کی جانب سے انکار بھی نا قابل فہم ہے۔ اگر اشارے چل ہی رہے تھے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ چودھری برادران نے اشارہ ماننے سے انکار کر دیا۔ ایسا لگ رہا ہے کہ تحریک انصاف اور ایم کیو ایم کی ملاقاتیں صرف پیپلزپارٹی کو دبائو میں لانے کے لئے تھیں۔ تا کہ پیپلزپارٹی سے بات منوائی جا سکے۔ ایسے لگ رہا ہے کہ ٓاصف زرداری کے پاس دو ہی راستے ہیں ایک یہ کہ وہ ملک میں موجود اس لولے لنگڑے جمہوری نظام کی بقا کی خاطر قربانی دیں اور ن لیگ سے دور رہیں۔
ایک مشکل یہ بھی ہے کہ نوازشریف بھی سرنڈر کرنے کو تیار نہیں۔ مصیبت یہ ہے کہ ناا ہلی کے بعد بھی وہ سیاسی طور ر اتنے مضبوط ہیں کہ ایسا لگ رہاہے کہ نا اہلی نے ان کا کچھ نہیں بگاڑا۔ نا اہلی کے بعد بھی نواز شریف نے اپنے لئے سیاسی راستے تلاش کر لئے ہیں۔ ہمیں ماننا ہو گا کہ انہیں گیم سے باہر کرنے کی کوششیں کامیاب نہیں ہوئی ہیں۔ بلکہ وہ گیم میں ان ہیں۔ اب بھی وہ اتنے ہی بااثر ہیں اور وہ ہر روز اپنی سیاسی طاقت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ ان کی جانب سے ہر رو ز طاقت کا مظاہرہ بھی گیم کو متاثر کر رہا ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ نواز شریف اور ان کی جماعت کی طرف سے کی جانے والی محاذ آرائی نہ صرف سکرپٹ کو متاثر کر رہی ہے بلکہ گیم کو بدل رہی ہے۔لیکن کیا ن لیگ کو احساس ہے کہ اگر وہ اسی طرح روز طاقت کا مظاہرہ کرتی رہی تو نظام کو خطرات پیدا ہو جائیں گے۔ اگر نواز شریف کی ناا ہلی کے بعد بھی مطلوبہ مقاصد حا صل نہ ہوئے تو بات کہیں اور نکل جائے گی۔ یہ آگ اور خون کا کھیل ہے ۔ ماضی گواہ ہے۔
یہ درست ہے کہ نواز شریف ہر قیمت پر اس وقت آصف زرداری کے ساتھ مفاہمت کے لئے کوشاں ہیں۔ وہ آصف زرداری کو سب کچھ دینے کے لئے تیار ہیں۔ خبریں یہ بھی ہیں کہ وہ انہیں صدر بنانے کے لئے بھی تیار ہیں۔ پاکستان کی صدارت آصف زرداری کے دروازے پر دستک دے رہی ہے۔ لیکن وہ سوچ رہے ہیں کہ اس صدارت کی قیمت کیا ہو گی۔ کیا وہ صدر بننے کے بعد نظام کو لپیٹے جانے کے بھی ذمہ دار ہو نگے۔ اور چار دن کی یہ صدارت کس کام کی ہو گی۔ اس سے بہتر ہے کہ نظام چلتا رہے۔ اور کچھ نہ کچھ حصہ تو ملتا ہے۔ نواز شریف تو ڈوب رہے ہیں ساتھ ڈوبنے کی کیا ضرورت ہے۔
عمران خان کی حالت بھی قابل رحم ہے۔ وہ اشاروں پر ناچنے کی ایسی دلدل میں پھنستے جا رہے ہیں۔ جس کی کوئی حد نہیں ہے۔ وہ ایم کیو ایم کے گھر بھی گئے اور ملا بھی کچھ نہیں ۔ انہوں نے نواز شریف کو نا اہل بھی کروا لیا لیکن ملا کچھ نہیں۔ بلکہ ایک عاشہ گلا لئی نے سارے جشن کو خراب کر دیا۔ گراف بڑھتا کم اور گرتا زیادہ ہے۔ 120 کے الیکشن کو عدلیہ کا ریفرنڈم قرارد ینے کے باوجود نہیں جیت سکے۔ نا اہلی کی تلوار روز بروز گردن کے نزدیک پہنچ رہی ہے۔ دوست اس میں بھی مدد نہیں کر رہے۔ بلکہ خاموشی سے نا اہلی کو قبول کرنے کا مشورہ دیا جا رہا ہے۔ پتہ نہیں عمران خا ن کے ساتھ ایسا کیوں ہے کہ بہت محنت کے بعد بھی انہیں اس کا سیاسی پھل نہیں مل رہا۔پھر بھی نظام کی کنجی تحریک انصاف کے پاس نہیں ہے۔ وہ نظا م کے لئے کوئی خظرہ نہیں ہیں۔ اسی لئے ان کے ہاتھ خالی ہیں۔ یہ طاقت پیپلزپارٹی کے پاس ہے۔ اور اسے سمجھ ہے کہ اس کے پاس کیا طاقت ہے۔