منتخب کردہ کالم

نظم و ضبط کی مثال دبئی میں ہی کیوں؟ (آتش فشاں) منیر احمد منیر

قائد اعظمؒ

”دبئی کے حکمران شیخ محمد بن راشد المکتوم نے سڑک پار کرنے کے لیے دیگر شہریوں کے ساتھ گرین سگنل کا انتظار کرکے نظم و ضبط کی نئی مثال قائم کر دی‘‘۔
ہمارے الیکٹرانک میڈیا نے یہ خبر اس تبصرے کے ساتھ خوب اچھالی، کہ ”کس قدر سادگی! باادب باملاحظہ ہوشیار کی کوئی صدا نہ تھی‘ اور حکمران نے اشارہ کھلنے کا 10 سیکنڈ تک انتظار کیا‘‘۔ 2017ء میں پاکستانی قوم کے لیے یہ ایک عجوبہ ہے‘ حالانکہ بانی ٔ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ اور قیام اور تعمیرِ پاکستان میں ان کے دست راست خان لیاقت علی خاںؒ ہمیشہ ٹریفک اشاروں کے پابند رہے۔
گورنر جنرل قائد اعظمؒ کے ابتدائی تین اے ڈی سیز میں سے ایک جنرل (تب کیپٹن) گل حسن بھی تھے۔ انہوں نے مجھے انٹرویو کے دوران میں بتایا ”شام کے وقت اکثر ہم ملیر جاتے۔ میں ڈرائیور کے ساتھ فرنٹ سیٹ پر بیٹھتا۔ قائد اعظمؒ اور محترمہ فاطمہ جناحؒ پچھلی سیٹ پر ہوتے۔ اس وقت اس قسم کی عیاشی کا تصور بھی نہ تھا کہ دس موٹر سائیکل آگے جا رہے ہیں اور دس پیچھے‘‘۔ ایک روز راستے میں پھاٹک بند تھا۔ گورنر جنرل قائد اعظمؒ کی گاڑی رک گئی۔ اے ڈی سی کیپٹن گل حسن نے اتر کر پھاٹک کھلوا دیا کہ ابھی ٹرین کی آمد میں دیر تھی‘ لیکن قائد اعظمؒ نے پھاٹک بند کروا دیا۔ کئی منٹ بعد ٹرین گزری۔ پھاٹک کھلا‘ پھر بانی ٔ پاکستان، گورنر جنرل قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی کار آگے بڑھی‘ تو انہوں نے اے ڈی سی کیپٹن گل حسن کو ایسا کرنے کی وجہ ان الفاظ میں بتائی ”اگر میں اپنی ہی ہدایات اور احکامات پر عمل نہیں کرتا تو پھر میں دوسروں سے یہ توقع کیسے کر سکتا ہوں کہ وہ میری ہدایات اور احکامات پر عمل کریں گے۔ جبکہ میں ملک کا سربراہ ہوں‘‘۔
جب قائد اعظمؒ کی کار سکیورٹی کے لاؤ لشکر کے بغیر اس ریلوے پھاٹک پر کئی منٹ تک رکی رہی تو کئی پاکستانیوں کو انہیں وِش کرنے کا اعزاز حاصل ہوا۔ یہ تفصیل مجھے سابق آئی جی پولیس حاجی حبیب الرحمن مرحوم نے بتائی کہ قیامِ پاکستان کے بعد وہ کراچی گئے تھے۔ شاید سگنل کی وجہ سے ٹرین بہت سلو ہو چکی تھی کہ اتنے میں ٹرین میں شور مچ گیا، پھاٹک پر قائد اعظمؒ کی گاڑی کھڑی ہے۔ مسافر ڈبوں میں اُس طرف کے دریچوں کی طرف لپک پڑے۔ اور ہاتھ ہلا ہلا کر قائد اعظمؒ کو وِش (WISH) کرتے رہے۔
جب گورنر جنرل قائد اعظمؒ کے ڈینٹسٹ ڈاکٹر ولی موراج نے ان سے کہا کہ میری آپ کے ساتھ تین سٹنگز یہاں گورنر جنرل ہاؤس میں ہوں گی۔ پانچویں اور چھٹی سٹنگ کے لیے آپ کو میرے کلینک میں آنا ہو گا، تو قائد اعظمؒ بغیر کسی ہاؤ ہو اور سکیورٹی کے دو دفعہ ان کے کلینک گئے۔ کوئی ٹریفک نہ روکی گئی۔ کوئی باادب باملاحظہ ہوشیار کی صدائیں بلند نہ ہوئیں۔ ہر بار جب لوگوں کو قائد اعظمؒکی وہاں آمد کا پتا چلا تو ہزاروں کی تعداد میں لوگ وہاں جمع ہو گئے۔ جب قائد اعظمؒ فارغ ہو کر باہر آئے تو ان ہزاروں لوگوں نے انہیں وِش کیا۔
اُن کے چیف سکیورٹی آفیسر ایف ڈی ہنسوٹیا، جو مذہباً پارسی تھے، کہتے ہیں: ”وہ پسند نہیں کرتے تھے کہ ان کے لیے سکیورٹی کا اہتمام کیا جائے۔ اس لیے میں نے اپنے سپاہیوں کو حکم دیا ہوا تھا کہ وہ درختوں کے پیچھے چھپ کر رہیں‘ کہیں قائد اعظمؒ کی اُن پر نظر نہ پڑے۔ لیکن کبھی کبھار ایسا ہو جاتا کہ سکیورٹی کے کسی آدمی پر ان کی نظر پڑ جاتی۔ جب ان کو سکیورٹی کا کوئی سپاہی نظر آ جاتا تو وہ برا مناتے تھے کہ ان کے لیے سکیورٹی کا اہتمام کیوں کیا جا رہا ہے۔ وہ کہتے، ”اگر میری موت کا وقت آن پہنچا تو ایک ہزار سپاہی بھی میری جان نہیں بچا سکیں گے‘‘۔ اور یہ کہ ”یہ سکیورٹی مانگتا ہی نہیں تھا۔ لیکن یہ تو ہم سمجھیے کہ زبردستی کرتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ ہمارے کو سکیورٹی کی ضرورت ہی نہیں۔ کیونکہ میں پبلک کا آدمی ہوں… سکیورٹی سٹاف کو میری انسٹرکشنز تھیں کہ وہ قائد اعظم سے اتنے فاصلے پر رہیں کہ انہیں پتا نہ پڑے کہ ان کی سکیورٹی ہو رہی ہے۔ ‘‘
مشرقی پاکستان کے دورے کے دوران میں ایک روز قائد اعظمؒ نے ڈھاکہ شہر میں عوام میں جانے کی خواہش ظاہر کی۔ آئی جی مشرقی پاکستان (تب مشرقی بنگال) ذاکر حسین نے سکیورٹی والوں کو کلیئرنس دینے سے انکار کر دیا۔ اس کے باوجود قائد اعظمؒ اپنے ارادے پر اٹل رہے۔ اور ایک روز کہا: مجھے آپ کی سکیورٹی کی ضرورت نہیں۔ گاڑی میں بیٹھے اور شہر کے بیچ چلے گئے۔ تاحدِنگاہ بنگالیوں کے ٹھٹ لگ گئے۔ قائد اعظمؒ زندہ باد اور پاکستان زندہ باد کے پُرجوش نعروں سے فضا گونجنے لگی۔ جہاں سے وہ گزرے پُرجوش بنگالی ان کے ساتھ دوڑتے چلے گئے۔
ذاکر حسین مشہدی تحریکِ قیامِ پاکستان کے آخری برسوں میں پنجاب پراونشل مسلم لیگ کے آفس سیکرٹری تھے۔ انہوں نے مجھے ایک انٹرویو میں بتایا: ”…..الفنسٹن سٹریٹ (کراچی) پر عمر سنز ٹیلرز تھے۔ بڑے مشہور درزی تھے۔ دہلی سے آئے تھے۔ میں نے ان کو سوٹ دیا تھا۔ میں جس روز ٹرائی کے لیے وہاں گیا، وزیر اعظم لیاقت علی خاںؒ بھی وہاں آ گئے۔ انہوں نے مجھے پہچان لیا۔ اور پوچھا:کیسے آئے ہو؟ میں نے کہا، میں بزنس کے لیے یورپ جا رہا ہوں۔ سوٹ کی ٹرائی کے لیے آیا ہوں۔ میں نے پوچھا: آپ کیسے تشریف لائے ہیں؟ کہنے لگے، میں بھی ٹرائی کے لیے آیا ہوں۔ میں ماسکو جا رہا ہوں….. یہ نومبر 49ء کی بات ہے۔پاکستان کے اولین وزیر اعظم خان لیاقت علی خان کے باملاحظہ ‘ ہوشیار کی صدائوں کے بغیر ایک عام شہری کی طرح درزی کی دکان پر چلے جانے سے متعلق میرے اگلے سوال کے جواب میں مشہدی صاحب نے کہا کہ ”اس وقت یہ بکواس نہیں تھی۔ لیاقت خان عوامی آدمی تھے۔‘‘
میں نے آئی سی ایس آغا عبدالحمید سے ایک طویل انٹرویو کر رکھا ہے۔ اپنی طویل اور اہم مدتِ ملازمت میں وہ وزیر اعظم لیاقت علی خاںؒ کے پرائیویٹ سیکرٹری بھی رہے۔ ان کا کہنا تھا: ایک روز وزیر اعظم لیاقت علی خاںؒ نے مجھے بتایا، انقلابات زمانہ ہیں کہ آج چوک میں میری گاڑی رکی۔ جو گاڑی میرے برابر آ کے رکی۔ میں نے دیکھا اس میں وہ شخص بیٹھا ہے جو دہلی میں چھابڑی لگایا کرتا تھا۔ وزیر اعظم لیاقت علی خان کی گاڑی ٹریفک سگنل پر رکی تو انہوں نے یہ منظر دیکھا۔ اس وقت ہٹو بچو سرکار والا کلچر دور دور تک نظر نہیں آتا تھا۔ وہ لوگ اپنی شان وشوکت دکھا نے کے لیے عوام کو گھنٹوں پریشان نہیں رکھتے تھے۔ اسی لیے قائد اعظم ‘ لیاقت علی خان اور ان کے دوسرے ساتھی بلکہ بعد میں آنے والے حکمرانوں کو لوگوں نے ٹریفک سگنلز پر رکے دیکھا‘جس سے عوام کے دلوں میں ان کے لیے اپنائیت کے جذبات بڑھتے چلے گئے۔
قائد اعظمؒ اور لیاقت علی خاںؒ تو عظیم لوگ تھے۔ لوگوں نے آمرِ مطلق سکندر مرزا کی گاڑی بھی ٹریفک اشارے پر رکی دیکھی۔ اس لیے ہمیں دبئی کے حکمران شیخ محمد بن راشد المکتوم کی طرف سے گرین سگنل کے انتظار پر حیرت زدہ نہیں ہونا چاہیے۔ ہمارا آغاز تو ہوا ہی قائد اعظمؒ کے اس ماٹو سے تھا: اتحاد، تنظیم، یقین محکم۔