منتخب کردہ کالم

نقش کو اس کے مصور پر بھی کیا کیا ناز ہیں

تصویر اور مصور کے باہمی رشتے عجیب بھی ہیں اور گوناگوں بھی کہ مصور کا مُوقلم کسی منظر کو کیمرے کی آنکھ کے ساتھ ساتھ اس کے انداز نظر سے بھی دیکھتا اور دکھاتا ہے اور یہ Point of view کا فرق ایسا ظالم ہے کہ بعض اوقات یہ منظر کے عمومی اور مروجہ تاثر کو یکسر تبدیل کر دیتا ہے۔

مصورانہ خطاطی اور بالخصوص اشعار کو رنگوں، لکیروں‘ پس منظر اور کرداروں کے ذریعے مصور کرنا ایک بالکل الگ دنیا ہے کہ عبدالرحمن چغتائی صاحب کے مرقعے دیوان غالب سے قبل اس حوالے سے باقاعدگی اور تسلسل کے ساتھ کیا ہوا کوئی کام ہمارے سامنے نہیں ہے البتہ ان کے بعد دو مصور ایسے ہیں ۔

جنہوں نے نہ صرف اس کام کو آگے بڑھایا ہے بلکہ اسے اپنی مخصوص تخلیقی صلاحیت کے باعث نئی جہتیں بھی دی ہیں اور یہ دو مصور ہیں صادقین اور اسلم کمال اور ان تینوں میں ایک مشترک بات یہ بھی ہے کہ ان میں سے کسی نے بھی مصوری کے کسی باقاعدہ اور باضابطہ ادارے سے کوئی ڈگری حاصل نہیں کی اور شاید یہی وجہ ہے کہ اس نوع کی ڈگریاں دینے والے ادارے اور ان سے فارغ التحصیل طلبہ اور اساتذہ انھیں دل اور زبان دونوں سے کھل کر تسلیم نہیں کرتے۔ پنجاب آرٹ کونسل کے زمانہ ملازمت میں مجھے اپنے کولیگ اور مشہور مصور معین نجمی مرحوم کی معرفت پاکستان کے تقریباً تمام بڑے آرٹسٹوں سے ملاقات کا موقع ملا اور یوں مجھے اندازہ ہوا کہ مصوری کے میدان میں بھی موسیقی کی طرح ’’خاندانی‘‘ اور ’’اتائی‘‘ کا سلسلہ کسی نہ کسی شکل میں جاری ہے۔

گزشتہ دنوں بریگیڈئیر ریٹائرڈ حامد سعید صاحب کے گھر ایک چائے پر برادرم اسلم کمال سے تجدید ملاقات ہوئی تو اقبال کی شاعری پر ان کے تازہ تر کام ’’نقش کمال‘‘ سے تعارف کا موقع بھی ملا ۔کتاب بہت دیدہ زیب تھی لیکن بوجوہ اسے تفصیل سے دیکھنے کا موقع نہ مل سکا اب جو اس کا ایک نسخہ اسلم بھائی کی طرف سے تحفتہً موصول ہوا ہے تو شاعری‘ مصوری اور خطاطی تینوں کی چکاچوند آنکھوں کو خیرہ کیے دے رہی ہے۔ اقبال سے اسلم کمال کی محبت تو نجانے کب سے ہے مگر اس کا عملی اظہار 1977ء کی اقبال صدی تقریبات سے کچھ اس طرح ہوا کہ وہ دن اور آج کا دن اسلم کمال نے کلام اقبال کی مصورانہ خطاطی کو اپنی فنی زندگی کا ایک مستقل حصہ بنا لیا ہے۔ یوں بھی میرے اور اس کے بزرگ علامہ صاحب کے ’’ہم شہر‘‘ رہے ہیں سو یہ ان سے محبت کا ایک اضافی استحقاق بھی ہے جس کا حق اس باکمال مصور نے کمال حسن خوبی کے ساتھ ادا کیا ہے۔

تقریباً ایک سو ساٹھ بڑے سائز کے آرٹ پیپر پر مشتمل اس ارژنگ میں فکر اقبال کو جن مصورانہ علامتوں‘ مخصوص رنگوں اور خطاطی کے بوقلموں انداز سے مزین کیا گیا ہے۔ یوں تو اس کی بہار اس کتاب کے ہر صفحے پر دامن دل کو اپنی طرف کھینچتی ہے کہ اسلم کمال نے اشعار کے متن میں موجود واقعاتی اور کرداری حوالوں کو جس خوبصورتی سے واضح کیا ہے وہ اس کی مصورانہ صلاحیتوں کے ساتھ ساتھ اس کے اعلیٰ شعری ذوق اور گہرے مطالعے کا بھی شاہد اور ترجمان ہے بالخصوص جن تصاویر میں خود اقبال کی شبیہہ کسی نہ کسی حوالے سے موجود ہے۔

ان میں مسلمانوں کی تاریخ اور تہذیب کے گمشدہ حوالوں کو ایسی فن کاری سے پیش کیا گیا ہے کہ تصویر اور شعر گویا یک جان ہو گئے ہیں اور بعض مقامات پر تو تصویر نے متعلقہ شعر کے کسی ایسے مفہوم کی طرف بھی رہنمائی کی ہے جو اس سے پہلے اس قدر واضح نہیں تھا۔ مجھے یاد ہے اسیر عابد مرحوم نے جب دیوان غالب کا ترجمہ پنجابی میں کیا تب بھی کچھ ایسی ہی صورت بنی تھی لیکن یہ کام اس وقت تک ممکن نہیں جب یہ درمیان کا آدمی دونوں زبانوں یا میڈیمز پر اس قدر اور یکساں طور پر قادر اور اپنے فن کا ماہر نہ ہو۔ اقبالیات کے ضمن میں اسلم کمال کا یہ کارنامہ یقیناً ایک ایسا اہم سنگ میل ہے جسے ہمیشہ تحسین کی نظروں سے دیکھا جائے گا۔

کسی کلچر یا تہذیب کی تفہیم میں یوں تو تمام تر فنون لطیفہ بہت ہی اچھے نمایندہ اور ترجمان ہوتے ہیں لیکن شعر اور سر اور شعر اور تصویر کا تاثر نسبتاً زیادہ گہرا اور بھرپور ہوتا ہے۔ چند دن قبل مجھے لاہور کے کچھ انڈر پاسز کی تزئین و آرائش کے حوالے سے حکومت پنجاب کی شایع کردہ ایک البم دیکھنے کا موقع ملا جس میں سے ایک انڈر پاس میں برادر ملک ترکی کی تہذیب‘ آرٹ اور کلچر کو بہت عمدہ طریقے سے پیش کیا گیا ہے جو ایک دلفریب نظارہ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک خوب صورت احساس یگانگت کی ترجمانی بھی کرتا ہے۔

میاں شہباز شریف‘ ان کی ٹیم اور پرانے لاہور کی تجدید کے انچارج کامران لاشاری تعریف کے مستحق ہیں کہ وہ اکیسویں صدی میں اپنے خوب صورت ماضی کے زندہ حصے کو ساتھ لے کر چل رہے ہیں، اگر لگے ہاتھوں علامہ اقبال کی زندگی‘ شاعری اور خدمات پر ایک عالمی سطح کی ڈاکیومینٹری اور لاہور کے شاہی قلعے میں لاہور کی تاریخ کے بارے میں ایک ایسی مختصر دورانیے کی تعارفی فلم بھی تیار کروائی جائے جسے غیر ملکی سیاحوں کے ساتھ ساتھ ہمارے اپنے عوام بھی آسانی سے دیکھ سکیں تو یہ ایک بہت بڑی خدمت ہو گی کہ یہ دونوں کام ہم پر قرض بھی ہے اور فرض بھی۔

لاہور کی تہذیبی روایت کے ذکر سے یاد آیا کہ حال ہی میں ہم سے جدا ہونے والے امتیاز احمد بھی ایک سینئر اور نامور کرکٹر ہی نہیں لاہور کی مخصوص تہذیب کے نمایندہ بھی تھے۔ پاکستان کی پہلی کرکٹ ٹیم میں فضل محمود اور حنیف محمد کے ساتھ وہ اپنے دور کے پسندیدہ ترین کھلاڑی تھے مجھ سے سینئر کزن ان کا ذکر ’’باؤ ڈیل‘‘ کے عوامی نام سے کیا کرتے تھے جس کی وجہ تسمیہ مجھے کبھی معلوم نہ ہو سکی۔

وہ بہت جی دار‘ خوب صورت اور اسٹائلش کھلاڑی تھے، ویسٹ انڈیز کے پہلے ٹور کے دوران جس بہادری سے انھوں نے گل کرسٹ اور ویزلے ہال کا مقابلہ کیا وہ کسی معرکے سے کم نہیں کہ ان طوفانی رفتار سے گیند پھینکنے والوں کو (Hook) ہک کرنا یا ایک گھٹنہ زمین سے لگا کر سویپ کرنا آج کے ہیلمٹ اور طرح طرح کا حفاظتی سامان پہننے والے بلے بازوں کے لیے بھی کسی انتہائی خطرناک امتحان سے کم نہیں۔ اپنے کھیل کے دنوں میں اور اس کے بعد بھی کئی بار ان سے ملاقات کا موقع ملا وہ بہت خوش مزاج‘ خوش گفتار اور انکسار کے باوجود اپنی رائے کا کھل کر اظہار کرنے والے تھے اور بلاشبہ ان کی رحلت سے لاہور‘ پاکستان اور دنیائے کرکٹ ایک بانکے اور عمدہ کھلاڑی اور انسان سے محروم ہو گئے ہیں۔