منتخب کردہ کالم

نمک چھڑکنے والا بیان!

طلوع اسلام کے بعد خلیفہ دوم حضرت عمر ؓ بن خطاب کے دور میں 20 اگست 636ء کو عرب فاتحین نے فلسطین کو فتح کر لیا۔ اُس وقت ہیکل سلیمانی کا پورا علاقہ کھنڈر بنا ہوا تھا،حضرت عمرؓ نے اس علاقے کو صاف کروایا اور اس کے جنوبی حصے میں ایک جگہ نماز پڑھنے کے لئے مخصوص فرمائی،یہی آج کی ”مسجد اقصیٰ‘‘ہے۔ اس کے بعد 463 سال تک یہاں عربی زبان اور اسلام کا دور دورہ رہا۔ گیارہویں صدی کے بعد یہ علاقہ غیر عرب سلجوق، مملوک اور عثمانی سلطنتوں کا حصہ رہا۔ 1189ء میں سلطان صلاح الدین ایوبی نے بیت المقدس کو فتح کیا اور یہاں مسلمانوں کی حکومت قائم ہو گئی تاہم اس سارے عرصہ کے دوران یہودی یہاں ایک اقلیت کی حیثیت سے موجود رہے۔چار صدیوں تک ترک عثمانیوں کی حکمرانی کے بعد ٹھیک ایک سو سال پہلے 1917ء میں برطانیہ نے اِس خطے کو اپنی تحویل میں لے لیا اور اعلان بالفور کے ذریعہ یہودیوں کے لئے ایک قومی ریاست کے قیام کا وعدہ کردیا گیا۔ فلسطین کی جانب یہودیوں کی نقل مکانی اگرچہ 17ویں صدی کے اواخر میں ہی شروع ہو گئی تھی، تاہم 1930ء تک نازی جرمنوں سے تنگ آکر اس نقل مکانی میں اس قدر اضافہ ہو گیا کہ 1920ء ، 1921 ء ، 1929ء اور 1936 ء میں عربوں کی طرف سے یہودیوں کی نقل مکانی اور اِس علاقے میں آمد کے خلاف پرتشدد مظاہرے ہوئے لیکن اس کے باوجود یہودیوں کی نقل مکانی کا سلسلہ جاری رہا۔
دوسری جنگ عظیم کے دوران جرمنی سے بھاگ کراسرائیل آنے والے یہودیوں کی تعداد میں بہت اضافہ ہوا کیونکہ ایک اندازے کے مطابق ہٹلر نے ساٹھ لاکھ یہودیوں کو قتل کر دیا تھا اور باقی جان بچا کر فلسطین بھاگ آئے۔1948ء میں اسرائیل کے قیام کے وقت فلسطین میں سات لاکھ اٹھاون ہزار یہودی بس گئے تھے۔جب برطانیہ نے دیکھا کہ اب وہاں ایک یہودی وطن بن سکتا ہے تو اس نے اس پورے علاقے کو اقوام متحدہ کے حوالے کردیا۔اس وقت صورت حال یہ بنی کہ امریکہ اور روس سمیت تمام طاقت ور ممالک اسرائیل کے حامی تھے۔چنانچہ نومبر1947ء میں اقوام متحدہ نے ایک قرار داد کے ذریعے فلسطین کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کا اعلان کیا۔اسرائیل کو کل رقبے کا 56فیصد رقبہ دیا گیا، حالانکہ یہودیوں کی آبادی اُس وقت کل آبادی کی ایک تہائی تھی اور فلسطینی ریاست کو چوالیس 44فیصد دیا گیا، حالانکہ فلسطینیوں کی آبادی دوتہائی تھی۔ یہ تقسیم صریحاً ایک ناجائز تقسیم تھی۔ چنانچہ فلسطینیوں اور ارد گرد کے عرب ممالک نے اسے ماننے سے انکار کر دیا۔برطانیہ نے اس علاقے سے 1948ء میں اپنی افواج واپس بلالیں اور 14 مئی 1948ء کو اسرائیل کی آزاد حکومت کے قیام کا اعلان کر دیا گیا۔فلسطینیوں کی زمین پر غاصبانہ قبضہ کیے جانے کے بعد ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اس کے ساتھ ہی فلسطینی ریاست بھی قائم کر دی جاتی لیکن ایسا نہ ہوسکا۔ عربوں نے تقسیم کو نامنظور کر دیا، جس کے بعد مصر، اردن، شام، لبنان، عراق اور سعودی عرب نے نئی اسرائیلی ریاست پر حملہ کر دیا۔ لیکن باہمی خلفشاراور کمزوریوں کے سبب اسرائیل مخالف یہ اتحاد اس حملے میں ناصرف یہ کہ اسرائیل کو ختم کرنے میں ناکام رہا بلکہ اُلٹا یہودی ریاست کے رقبے میں مزید اضافہ ہوتا چلا گیا۔
اسرائیل کے قیام کے بعد عرب ممالک اور اسرائیل میں متعدد جنگیں ہوئیں ، لیکن مغربی ممالک کی مکمل پشت پناہی اور جدید اسلحے سے لیس ہونے کی وجہ سے عرب ممالک کو اسرائیل سے شکست ہی کھانا پڑی، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ عرب ممالک فلسطینیوں کی حمایت سے دست کش ہونے لگے اور فلسطین کو ایک الگ ریاست کی بجائے ایک میونسپل کارپوریشن نما ”اتھارٹی‘‘پر اکتفا کرنا پڑا، جہاں سب کچھ اب بھی اسرائیل کے ہاتھ میں ہے۔ اسرائیل نے فلسطینی علاقوں میں یہودی بستیاں قائم کرنا شروع کیں تو اِس پر بہت شور اُٹھا، لیکن اسرائیل اپنے قیام سے
لے کر آج تک اس ناجائز کام سے باز نہیں آیا۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اسرائیل مکمل بدمعاشی پر اُترا ہوا تھا، ایک جانب اُسے مغرب اور امریکہ کی حمایت حاصل تھی اور دوسری جانب وہ اپنے دشمنوں کو تنہا کرکے ماررہا تھا اور اب تو معاملہ اس قدر کھلی بدمعاشی پر آگیا تھا کہ کئی دہائیوں سے اسرائیل کے ہر گناہ پر پردہ ڈالنے والے بھی اکتا گئے تھے، یہی وجہ ہے کہ اسرائیل کی ناجائز بستیوں کے خلاف اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں قرارداد پیش کی گئی تو سلامتی کونسل کے 15 رکن ممالک میں سے 14 نے اس قرارداد کی حمایت میں ووٹ ڈالے جبکہ امریکہ نے ووٹ ڈالنے سے انکار کر دیا، تاہم امریکہ نے اس موقع پر قرارداد کے خلاف ویٹو کا حق بھی استعمال نہیں کیا۔
ماضی میں امریکہ نے ایسی قراردادوں کو ویٹو کر کے اسرائیل کی ہمیشہ مدد کی، لیکن اوباما انتظامیہ نے روایتی امریکی پالیسی چھوڑ کر اس مرتبہ اس قرارداد کو منظور ہونے دیا، یہی وجہ ہے کہ قرارداد کی منظوری کے بعد اسرائیل نے امریکہ پر الزام لگادیا کہ واشنگٹن نے اس قرارداد کی حمایت کی۔ یہ قرارداد مصر کی جانب سے پیش کی گئی تھی لیکن امریکی نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی مداخلت کے بعد مصر نے اسے موخر کر دیا تھا۔ اس کے بعد سلامتی کونسل کے دیگر ممالک نیوزی لینڈ، سینیگال، وینزویلا، اور ملائیشیا نے اس قرارداد کو دوبارہ پیش کیا اور اسے منظور کروانے میں اہم کردار ادا کیا۔اس قرارداد کے بعد اسرائیل اور امریکہ کے درمیان تعلقات میں کشیدگی مزید بڑھ گئی اور تل ابیب میں امریکی سفیر کو طلب کرکے سرزنش کی گئی۔ دوسری جانب اسرائیل میں بیت المقدس کی میونسپل کارپوریشن کو بھی اسرائیلیوں کے لیے مشرقی یروشلم میں 500 کے قریب نئے گھروں کی تعمیر کے حوالے سے ووٹنگ منسوخ کرنا پڑی۔
قارئین کرام!! اسرائیل کی جانب سے ایک دھمکی لگائے جانے پر امریکی وزیر خارجہ جان کیری کو ایک پریس کانفرنس میں باقاعدہ وضاحت کرنا پڑی۔ جان کیری نے سلامتی کونسل میں اسرائیل کے خلاف منظور کی جانے والی حالیہ قرار داد پر ہونے والے رائے شماری میں امریکی عدم شرکت کا دفاع کرتے ہوئے اس اقدام کو امریکی اقدار کے عین مطابق تو قرار دیا ہے لیکن دوسری جانب نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیل کو اپنے عہدے کا حلف سنبھالنے تک حوصلہ بلند رکھنے کا پیغام دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ کسی کو بھی اسرائیل کے ساتھ حقارت آمیز رویہ اختیار کرنے نہیں دیں گے۔امریکہ کے نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیل کے حق میں بیان دے کر اپنے جن عزائم کا اظہار کیا ہے، کاش اُنہیں فلسطین سے کشمیر تک مظلوم مسلمانوں کے دکھوں کا بھی اسی طرح احساس ہوتا تو وہ مظلوم اقوام کے دلوں کے پھپھولے جلانے سے پہلے سو مرتبہ سوچتے اوراسرائیل کی حمایت کرتے نہ ہی زخموں پر نمک چھڑکنے والا بیان دیتے