نوازشریف یرغمال ہیں؟…ہارون الرشید
سپین کے آخری مسلم حکمرانوں کی طرح‘ ایک المناک اور تباہ کن سمجھوتہ؟ جو ملک کو دلدل میں اتار دے؟ قرآن کریم میں لکھا ہے: ”تمام انسان اپنے اعمال کے یرغمال ہیں‘‘۔
یہ اقتدار کا کھیل ہے۔ اس میں کوئی کسی پہ رحم نہیں کیا کرتا۔ الزام تراشی اور کذب بیانی اس کھیل کے ہتھیار ہیں۔انتخابی مہم کے آخری مرحلے میں‘ہر مخالف کو گھٹیا اور بودا ثابت کرنے کے حربے شدت اور فراوانی سے برتے گئے ہیں۔ ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ جسٹس شوکت صدیقی کی طرف سے میڈیا سمیت مختلف اداروں پر عائد کردہ الزامات کا پس منظر کیا ہے؟
فوجی قیادت اور چیف جسٹس نے بروقت اقدام کرکے بحران کو تھام لیا ہے جو جج صاحب کے ”انکشافات‘‘ سے پیدا تھا۔ فوراً ہی فوج کے ترجمان نے تحقیقات کا مطالبہ کردیا۔ چیف جسٹس نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے سربراہ کو وضاحت کرنے کا حکم دے دیا… اور جسٹس صدیقی سے کہا ہے کہ وہ ثبوت لے کر آئیں۔ اصول یہی ہے‘ بالکل بنیادی اصول۔ فرمایا: بارِ ثبوت مدّعی پر ہے ۔ مدعا علیہ پر حلف ہوتا ہے۔
اوریا مقبول جان پاکستانی صحافت کا ایک دلچسپ کردار ہیں۔ پیر کی شام انہوں نے انکشاف کیا کہ جسٹس صدیقی نے انہیں متعدد پیغامات بھیجے۔یہ ان کے موبائل میں محفوظ ہیں۔ بار بار ان سے استدعا کی کہ ان کے حق میں کالم لکھیں اور پروگرام میںان کی تائید کریں۔ اپنا تجربہ یہ ناچیز بیان کر چکا کہ ایک بار اسے پیغام لکھ بھیجا۔ دوسری بار کی اتفاقی ملاقات میں‘ اپنی تائید کی درخواست کی۔ یہ لفظ ”درخواست‘‘ لکھتے ہوئے کراہت کا احساس ہوا‘ ہاں‘ مگر یہ التجا ہی تھی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کئی دوسرے اخبار نویسوں سے بھی وہ استدعا کرتے رہے…افسوس!
ہائی کورٹ کے معزز جج نے یہ کیا کیا۔ کیا ضرورت آن پڑی تھی؟ قاضی اپنا فیصلہ دلائل و شواہد کی بنا پہ صادر کیا کرتا ہے۔ اس یقین کی اساس پر جو قرائن و شواہد سے جنم لیتا اور بتدریج پختہ ہو جاتا ہے۔ ایک جج سیاستدانوں کی طرف عوامی تائید کی تمنا کیوں کرتا پھرے۔دکاندار کی طرح سودا کیوں بیچتا پھرے۔کیوں یہ آرزو کرے کہ ہمہ وقت حامیوںکا ایک لشکر‘ اس کی پشت پہ کھڑاہو۔ کیا یہ شعور اور لاشعور میں کلبلاتے خوف اور تضادات کا نتیجہ تھا؟ اس سے بھی زیادہ خوفناک بات دوسری ہے۔ اوریا کا کہنا ہے کہ عمران خان کے خلاف‘ سوشل میڈیا پہ گردش کرنے والے کئی پیغامات جج صاحب نے اسے بھیجے‘ پے در پے! یہ کارِخیر تو سیاسی کارکن کیا کرتے ہیں‘جنہیں ڈھنگ کا کوئی کام نہ سوجھے۔کوئی معقول ذمہ داری نہ سونپی جائے۔
اوریا کے بقول‘ جج صاحب کا استدلال یہ تھا:بھائی سیکولر میرے پیچھے پڑے ہیں۔ لطیفہ یہ ہے کہ آج ملک بھر کے سیکولر اور لبرل جج صاحب کی فوج بن گئے ہیں ۔ اخبارات اور ٹیلی ویژن میں ‘سوشل میڈیا میں بے دریغ ان کی جنگ لڑ رہے ہیں۔سحر سے شام اور شام سے سحر تک۔دل و جان سے ان پہ وہ نثار ہیں۔فارسی کا محاورہ یاد آتا ہے: کن سے کٹ کر کن سے جڑے ہو۔
حد تو یہ ہے کہ ایک بدنام سیکولر گرگے نے چیف جسٹس ثاقب نثار سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کردیا۔ لبرلز میں نمایاں ترین وہ ہیں‘ جو غیرملکی امداد سے کارفرما این جی اوز چلاتے اور انہی کے بل پر دانشور کہلاتے ہیں۔ بعض انگریزی اخبارات پہ تو گویا ان کا قبضہ ہے۔ ظاہر ہے کہ ان اخبارات کی اجازت سے ۔ کس چیز نے ان اخبارات کو یہ بچے پالنے پر آمادہ کیا ہے۔ شریف خاندان کے روایتی حامی ان کے سوا ہیں‘ جن میں سے بعض کے رزق اور بعض کی جائیدادیں فروغ پذیرہونے کا انحصار‘ آقائوں کی داد و دہش پہ ہے۔ انہی میں وہ بھی ہیں‘ پاک بھارت کشمکش میں‘ جو ہمیشہ بھارت کے ہمنوا رہے ہیں۔ آئی اے رحمن اور نجم سیٹھی قسم کے مفکرین کرام۔ ساٹھ ہزار پاکستانیوں کے قاتل دہشت گردوں کی اعلانیہ پشت پناہی کرنے والے دہلی پہ انہیں کبھی کوئی اعتراض نہ تھا۔ کشمیر اور احمد آباد میں گردنوں کی فصل کاٹنے والے نریندر مودی پر بھی نہیں ۔اس کے سفاک کارندے اجیت ڈوول سے‘ نوازشریف کی ملاقات پہ بھی نہیں۔
کیا یہ محض اتفاق ہے کہ نوازشریف کے سب سے پرجوش حامی‘ نجم سیٹھی‘ پرویز رشید اور امتیاز عالم ایسے لوگ ہیں؟ کیا یہ انہی کی صحبت کا نتیجہ ہے کہ خون سے سینچی گئی‘ پاک بھارت سرحد کو میاں صاحب مکرّم نے ”لکیر‘‘ تک کہہ دیا۔ بابائے پاکستان کے تمام ارشادات کی نفی کرتے ہوئے‘ لاہور میں کھڑے ہو کر ارشاد فرمایا : دونوں ملکوں کی ثقافت ایک ہے‘ اللہ اور بھگوان میں کوئی فرق ہی نہیں۔
کوئی فرق نہیں؟ پابندی سے پنج وقتہ نماز ادا کرنے والے میاں محمد نوازشریف کو معلوم نہیں کہ ہندو بتوں کی عبادت کرتے ہیں اور مسلمان اللہ کی۔ امن کی خواہش بجا‘ مفاہمت کی آرزو برحق ۔ جنگ اور خون ریزی کی تمنا تو جنونی ہی کر سکتے ہیں۔ مگر دونوں قوموں کا کلچر‘ ثقافت اور ایقان ایک کیسے ہوگیا؟ یکایک یہ ”معجزہ‘‘ کیوں کر ہوا‘ابھی کل تک موصوف کا نقطہ نظر بالکل دوسرا تھا۔ ابھی کل تک تو وہ افغانستان اور کشمیر کی آزادی کے علمبردار‘ جنرل محمد ضیاء الحق کا مشن مکمل کرنے کا اعلان کیا کرتے تھے۔ میاں صاحب کا مؤقف کیا اس لیے بدل گیا کہ اس خطے میں بھارتی بالادستی‘ اب عالمی اسٹیبلشمنٹ کا ایجنڈا ہے؟اگر اس لیے بدلا ہے تو کیا کہیے۔عرب شاعر نے کہا تھا:پس افسوس ہے‘پھر افسوس ہے‘پھر افسوس ہے۔
خارجہ پالیسیوں کی تشکیل میں امریکی اسٹیبلشمنٹ کے سب سے کارگر ترجمان ہنری کسنجر بڑھا پے میں بروئے کار آئے ہیں۔ یہودی دانشور نے تلقین کی ہے کہ اب بھارت کے گہرے اورپختہ تعاون ہی سے امریکہ غالب اور عظیم طاقت رہ سکتا ہے۔سوال یہ ہے کہ انکل سام تو پہلے ہی سے اس راہ پہ گامزن ہے‘ امریکی لیڈر اور مفکر کوایسی شدید تلقین اور اصرار کی ضرورت کیوں پڑی؟ اس موضوع پہ پھر کبھی ۔ فی الحال کیا یہ تجویز کرنا موزوں ہوگا کہ عدالتِ عظمیٰ اوریا مقبول جان کو طلب کرے ۔دوسرے اخبار نویسوں کو بھی‘ جن سے جسٹس شوکت صدیقی کا رابطہ رہا۔جو ان کے حق میں لکھتے رہے اور اب پچھتارہے ہیں۔
راوی نے بتایا ہے: جماعت اسلامی کے بزرگ رہنما پروفیسر خورشید احمد‘ جج صاحب کے فرمودات پہ بات کرتے ہوئے آبدیدہ ہوگئے۔ تنہا پروفیسر صاحب ہی نہیں‘ کچھ اور لوگوں کا احساس بھی یہ ہے کہ جج صاحب کے کمالات نے ویلٹنائن ڈے اور ختم نبوت پر ان کے فیصلے خطرے میں ڈال دیئے ہیں۔مخالفین ثابت کرنے کی کوشش کرسکتے ہیں کہ میرٹ پر نہیں جج صاحب نے یہ ذاتی شوکت و وجاہت کی تمنا میں صادر فرمائے تھے۔
ایک وفاقی وزیر نے اتوار کی شام‘ لاہور کے ممتاز اخبار نویسوں سے ملاقات کی۔ سوال اٹھا کہ عالمی اسٹیبلشمنٹ کیا نوازشریف کی حامی ہے۔ میاں صاحب کے ایک پرجوش حامی نے وفاقی وزیر کی ”جواب طلبی‘‘ فرمائی۔ کہا کہ بھارت کو الگ رکھیے۔ ثابت کیجئے کہ امریکہ اور برطانیہ نون لیگ کی تائید کر رہے ہیں۔ بہت محتاط پیرائے میں بات کرنے والے وزیر نے کہا: امریکہ اور برطانیہ‘ بھارت ہی کے ذریعے بروئے کار ہیں۔ دہشت گردی کے حوالے سے پاکستان کو مشکوک فہرست (Grey List) میں ڈالنے کے لیے محنت اور منصوبہ بندی بھارت نے کی۔ ترکی‘ چین اور سعودی عرب پہ اثرانداز ہونے کی تمام تر کوشش۔ دہلی کے ایما پر دبائو امریکہ اور برطانیہ نے ڈالا۔چین اور ترکی نے سرکاری طور پر اسلام آباد کو مطلع کیا ہے کہ صدر طیب اردوان اور چینی قیادت کو برطانوی وزیراعظم اور امریکی صدر کے خصوصی پیغامات اس سلسلے میں پہنچائے گئے۔
کشمیریوں اور پاکستانی مسلمانوں کا قاتل یہی بھارت ہے‘ پچھلے دنوں نوازشریف‘ جس کی مدد کو آئے۔ فرمایا کہ پاکستان بھارت میں تخریب کاری کا مرتکب ہے۔ آخر کیوں؟ بھارت کی وکالت پر وہ کیوں اترے؟ آخر‘ پرویز رشید اور نجم سیٹھی ایسے مفکّرین کرام ہی کو میاں صاحب نے مشیر کیوں بنا رکھا ہے؟ مغرب میں اپنی کھربوں روپے کی جائیدادیں بچانے کے لیے؟کیا اس آدمی نے قومی مفادات کا سودا کرلیا؟کیا بھارتی میڈیا اسی لیے دن رات ان کی حمایت میں چیخ رہا ہے؟
سپین کے آخری مسلم حکمرانوں کی طرح‘ ایک المناک اور تباہ کن سمجھوتہ؟ جو ملک کو دلدل میں اتار دے؟ قرآن کریم میں لکھا ہے: ”تمام انسان اپنے اعمال کے یرغمال ہیں‘‘۔