منتخب کردہ کالم

نواز امریکہ تعلقات …؟ کالم رئوف طاہر

نواز امریکہ تعلقات …؟ کالم رئوف طاہر

وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا‘ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی اعلان کردہ نئی افغان پالیسی بھی ناکامی سے دوچار ہو گی۔ امریکی نشریاتی ادارے سے انٹرویو میں انہوں نے پاکستان کے اس دیرینہ مئوقف کا اعادہ کیا کہ افغانستان میں فوجی کارروائی کی حکمت عملی پہلے کامیاب ہوئی ہے‘ نہ اب ہو گی۔ افغان مسئلے کا ایک ہی حل ہے‘ سیاسی حل…وہی بات جو سابق وزیراعظم محمد نوازشریف نیگرو پونٹے‘ رچرڈ ہالبروک اور بائوچر سمیت امریکی سفارت کاروں اور پالیسی سازوں سے کہتے رہے۔
حالات حاضرہ پر لکھنے کو بہت کچھ ہے‘ وہ جو شاعر نے کہا تھا ع
سامنے ڈھیر ہے ٹوٹے ہوئے پیمانوں کا
وکلا کنونشن میں سابق وزیراعظم کے 12 سوالات‘ آصف زرداری کی آخری ریفرنس میں بھی احتساب عدالت سے بریت‘ جس کے فیصلے سے 16 سال لگ گئے‘ ادھر میاں صاحب (اور ان کی فیملی) کے خلاف ریفرنسز کی تیاری آخری مراحل میں‘ سپریم کورٹ کے 28 جولائی کے فیصلے کے مطابق جن کا فیصلہ صرف 6 ماہ میں ہونا ہے‘ پیپلز پارٹی کے تن نیم جاں میں نئی روح پھونکنے کے لیے عزیزی بلاول بھٹو زرداری کی بھاگ دوڑ‘ خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف اور جماعت اسلامی میں مفاہمت‘ کے پی کے میں دو کولیشن پارٹنرز کے درمیان یہ تنازعہ گزشتہ سال اپریل میں ایم ڈی خیبر بینک کی طرف سے اخبارات میں شائع ہونے والے ایک اشتہار سے شروع ہوا جس میں موصوف نے جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والے صوبائی وزیر خزانہ پر سنگین الزامات عائد کئے تھے۔ لاہور کے حلقہ 120 کے ضمنی انتخاب کا معرکہ‘ بیگم صاحبہ کی علالت اور میاں صاحب کی متوقع روانگی…یہ سب موضوعات اہم ہیں لیکن پاک امریکہ تعلقات کے اس نازک مرحلے پر ہمارا ذہن ”امریکہ‘ نوازشریف تعلقات‘‘ پر اٹک کر رہ گیا ہے۔
یہ ایک کالم کا نہیں‘ طویل مقالے کا موضوع ہے تاہم اس حوالے سے کچھ جستہ جستہ واقعات…گاہے گاہے باز خواں ایں قصۂ پارینہ را۔
سانحۂ بہاولپور کے بعد 16 نومبر 1988ء کے انتخابات میں محترمہ بے نظیر بھٹو برسراقتدار آئیں (جونیجو حکومت کی برطرفی کے ساتھ نئے انتخابات کے لیے اس تاریخ کا اعلان خود صدر جنرل ضیاء الحق کر گئے تھے) امریکی سفیر رافیل بھی اس حادثے میں آنجہانی ہو گئے تھے۔ ان کی جگہ رابرٹ اوکلے آئے۔ محترمہ کی حکومت میں ان کے عمل دخل کا یہ عالم تھا کہ کہنے والے انہیں اسلام آباد میں امریکی وائسرائے کہنے لگے۔ محترمہ کے لیے شاید یہ اس وجہ سے بھی لحاظ کا معاملہ تھا کہ 250 ارکان کے ایوان میں 92 نشستوں کے ساتھ پیپلز پارٹی کی حکومت بنوانے میں واشنگٹن کا ”اثرورسوخ‘‘ فیصلہ کن ثابت ہوا تھا۔ نوازشریف پنجاب کے وزیراعلی ہی نہیں‘ اسلامی جمہوری اتحاد (IJI) کے مرکزی صدر بھی تھے اور پارلیمنٹ کے باہر اپوزیشن لیڈر کا رول وہی ادا کر رہے تھے۔ اسلام آباد میں امریکیوں کے اس غیر معمولی اثرورسوخ کے وہ سخت ناقد تھے۔ 1990ء کے انتخابات میں وہ وزیراعظم بنے تو رابرٹ اوکلے کی طرف سے ملاقات کی درخواست ہفتوں منظوری کی منتظر رہی۔ مقصد امریکیوں کو یہ احساس دلانا تھا کہ اب اسلام آباد ان کا واسطہ ایک مختلف وزیراعظم سے ہو گا اور معاملہ Taken for granted والا نہیں رہا۔ انہی دنوں جنرل حمید گل (مرحوم) بتایا کرتے تھے کہ آئی ایس آئی کو ”کٹ ٹو سائز‘‘ کرنے کے مطالبے پر بھی امریکیوں کو مایوسی اور ندامت کا سامنا کرنا پڑا۔ سوویت یونین کے خاتمے پر وسطی ایشیا کی نو آزاد مسلم ریاستوں سمیت ایران‘ افغانستان‘ ترکی اور پاکستان پر مشتمل نئے اکنامک بلاک (ECO) کے قیام کو رکوانے کے لیے امریکیوں نے پاکستان پر کیا کیا دبائو نہ ڈالا‘ لیکن اس بار بھی انہیں مایوسی کے سوا کچھ ہاتھ نہ آیا۔
نوازشریف حکومت کی برطرفی (1993) کا کیس سپریم کورٹ میں زیرسماعت تھا کہ ایک روز صدر غلام اسحاق خاں کے وکیل نے کہا کہ وہ کچھ باتیں بند کمرے میں (In Camera) کرنا چاہتا ہے۔ تب انہوں نے نوازشریف حکومت کی برطرفی کی وجہ یہ بتائی کہ امریکہ اور بھارت اس کی پالیسیوں پر خوش نہیں تھے اور یوں پاکستان کے لیے مسائل پیدا ہو رہے تھے۔
اپنے دوسرے دور میں نوازشریف نے پاکستان کے ایٹمی دھماکوں کے خلاف امریکہ اور یورپ کے بدترین دبائو کا جس طرح مقابلہ کیا اس کی کچھ تفصیل امریکن سینٹرل کمانڈ کے سابق سربراہ جنرل انتھونی زینی کی کتاب Battle Ready میں بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ 2007ء کے نصف آخر میں جب جنرل مشرف اور بے نظیر بھٹو کے درمیان این آر او کے خدوخال کی نوک پلک سنواری جا رہی تھی‘ ستمبر میں نوازشریف کی وطن واپسی کا اعلان امریکیوں کے لیے کس قدر تشویش کا باعث تھا‘ وکی لیکس شاہد ہیں کہ امریکی اسے این آر او پر مشتمل نئے سیاسی نظام کے لیے کتنا خطرناک سمجھ رہے تھے۔ 10 ستمبر کو اسلام آباد ایئرپورٹ سے جدہ کے لیے (دوسری) جلاوطنی کے فیصلے کو امریکیوں کی پوری تائید حاصل تھی۔ کونڈولیزا رائس لمحے لمحے کی خبر لے رہی تھیں۔ یہ الگ بات ہے کہ محترمہ کی واپسی کے بعد نوازشریف کا راستہ روکنا بھی ممکن نہ رہا۔
18 فروری 2008ء کے عام انتخابات کے بعد اب پاکستان میں نئے سیاسی حقائق تھے۔ مناسب تیاری کے بغیر بھی مسلم لیگ (نون) دوسری بڑی جماعت کے طور پر ابھر آئی تھی۔ دنیا نوازشریف کو پاکستان کے مقبول ترین لیڈر کے طور پر دیکھ رہی تھی۔ امریکہ کی خاتون سفیر این پیٹرسن نے فون پر مبارکباد دیتے ہوئے ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا۔ کوئی اور ہوتا تو پہلی فلائٹ پکڑ کر اسلام آباد پہنچ جاتا‘ لیکن نوازشریف کو ایسی کوئی بے تابی نہ تھی۔ امریکی سفیر کو ان کا جواب تھا کہ انہیں جاتی عمرہ فارم ہائوس پر معزز مہمان کا خیرمقدم کر کے خوش ہو گی۔ امریکی سفیر نے سکیورٹی مسائل کا ذکر کیا تو نوازشریف کا جواب تھا‘ اس صورت میں آپ کو اسلام آباد میری آمد کا انتظار کرنا ہو گا۔ اسلام آباد میں یہ ملاقات فرانسیسی سفارت خانے میں ہوئی جہاں یورپی یونین کے سفیروں نے ان کے لیے ضیافت کا اہتمام کیا تھا۔ ا نہی دنوں نیگرو پونٹے اور رچرڈ بائوچر اسلام آباد آئے‘ جناب زرداری کو ان سے ملاقات کے لیے اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے جانے میں کوئی عار نہ تھی لیکن نوازشریف سے ملاقات کے لیے امریکی مہربانوں کو ان کی قیام گاہ پر آنا پڑا۔ اس ملاقات میں میاں صاحب نے افغانستان کے حوالے سے امریکیوں کو وہی بات کہی جو شاہد خاقان عباسی نے اپنے حالیہ انٹرویو میں کہی ہے۔
2 نومبر والی عدلیہ کی بحالی کے معاملے پر بھی جناب زرداری اور ان کے امریکی ”دوست‘‘ ایک ہی صفحے پر تھے‘ مائنس ون…چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے سوا باقی ججوں کی بجالی۔ وکی لیکس کے مطابق نوازشریف نے امریکی سفیر این پیٹرسن سے صاف صاف کہ دیا تھا کہ وہ افتخار محمد چوہدری کے بغیر عدلیہ کی بحالی کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔
2 مئی 2011ء کے ایبٹ آباد (Get Osama) آپریشن کے موقع پر میاں صاحب لندن میں تھے۔ وہ اپنے میڈیکل چیک اپ ادھورے چھوڑ کر وطن واپس آئے اور چیف جسٹس پاکستان کے زیرقیادت اسلام آباد ہائیکورٹ سمیت چاروں ہائی کورٹس کے چیف جسٹس صاحبان پر مشتمل عدالتی کمشن کے قیام کا مطالبہ کیا جو پاکستان کی ساورنٹی کو پامال کرنے والے 2 مئی کے امریکی آپریشن کے تمام پہلوئوں کا جائزہ لے اور سیاسی و فوجی قیادت میں سے جو جتنا ذمہ دار ہے‘ اس کا تعین کرے۔ وہ ڈرون حملوں سمیت ایسے آپریشنز کے لیے پاکستان اور امریکہ کے درمیان مشرف دور کے مبینہ اور غیر اعلانیہ معاہدوں کی آئینی و قانونی حیثیت کا جائزہ لینے کا مطالبہ بھی کر رہے تھے۔
پاکستان کے قومی مفادات کے خلاف امریکی مطالبات پر “NO” کہنے والے نوازشریف کے ”جرائم‘‘ میں سی پیک اور خطے میں نئی سٹرٹیجک الائن منٹس میں پاکستان کا کردار اونٹ کی کمر پر آخری تنکا تھا۔

….
اگلا کالم